• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا ان دنوں بسر ہو ہماری فراغ میں
کچھ تفرقہ رہا، نہ دل و درد و داغ میں
مرزا غالب کا یہ شعر آج کل حسب حال ہے۔ خبریں سنیں تو لگتا ہے کہ یہی تو کل بھی سنی تھیں۔ اخبار اٹھاؤ تو لگتا ہے کہ پرانا ہے۔ ہر روز ایک ہی حالات ہیں۔ وہی دہشت گردی۔ وہی قتل و غارت گری، وہی ڈکیتیاں بقول جوش…
ایسی حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
اور سچ مچ پرویز مشرف نے تو اپنے انٹرویو میں لاہور کے مارشل لاء کا حوالہ دیتے ہوئے جو غالباً 52ء میں لگا تھا کہا کہ کراچی میں مارشل لاء کی ضرورت ہے اور یہاں کے حالات کا واحد حل یہی ہے۔ حالانکہ جب انہوں نے خود حکومت سنبھالی تھی تو خود مارشل لا نہیں لگایا تھا شاید اس وقت حالات اتنے خراب نہیں تھے۔ لوگ عام محفلوں میں پوچھتے ہیں کہ کراچی کے حالات کیوں خراب ہیں اور اس کا حل کیا ہے خاص طور پر یہ سوال اس تناظر میں کیا جاتا ہے کہ شہر میں اکثریت رکھنے والی سیاسی پارٹیاں حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں اور کوئی بھی حکومت سے باہر نہیں پھر کون ہے جو حالات کو ”پوائنٹ آف نو ریٹرن“ کی طرف دھکیل رہا ہے۔ تمام کالم نگار اور اینکر حضرات ان حالات کی ہر روز نشاندہی کرتے رہتے ہیں مگر افسوس کہ کوئی بھی سنجیدگی سے نہ تو ان خرابی حالات کی وجہ بیان کرتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی قابل عمل حل بیان کرتا ہے۔ ٹاک شو کے مہمان اپنی اپنی بولیاں بول کر اڑ جاتے ہیں اور چمن ویسے کا ویسا اجڑا رہتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کسی نے کمپیوٹر میں ہر روز مرنے والوں کی تعداد لکھ کر ڈال دی ہے۔ اسٹاک ایکسچینج کی فگر کی طرح یہ فگر بھی کبھی معمولی اضافے اور کبھی معمولی مندی پر بند ہوتی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا ہے کہ ناغہ ہوجائے بقول ناصر کاظمی مرحوم…
تمام عمر جہاں ہنستے کھیلتے گزری
اب اس گلی میں بھی ہم ڈرتے ڈرتے جاتے ہیں
اگرچہ آج کل رینجرز کو اپنے آپریشن میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل ہورہی ہیں اور ہر روز گرفتار ہونے والوں کی تعداد کا ذکر ہوتا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ فلاں گرفتار شدہ ملزم ٹارگٹ کلر تھا اور اس کا فلاں سیاسی تنظیم سے تعلق ہے پھر ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ رینجرز اس کی تفتیش کرکے کوئی وائٹ پیپر شائع کریں یا عوام کو آگاہ کریں کہ سیاسی تنظیم کے کیا پوشیدہ مقاصد تھے اور گرفتار شدہ ملزم کی پشت پناہی کون کررہا تھا۔ اسے لباس، رہائش، موٹر سائیکل، ٹی ٹی پستول یا کوئی دوسرا اسلحہ کس نے مہیا کیا تھا اور آیا پشت پناہی والے کو بھی گرفتار کیا گیا ہے یا وہاں تفتیشی افسروں کے پر جل جاتے ہیں یہ وہ تمام سوال ہیں جو لوگ نجی محفلوں میں ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں اور پھر رات اپنے جوبن پر پہنچ جاتی ہے۔ کھانا لگ جاتا ہے سب لوگ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور تمام سنجیدگی کھانے کی پلیٹ کی نذر ہوجاتی ہے۔ تمام سوال تشنہ رہ جاتے ہیں اور بقول فراق گورکھپوری…
حیات درد ہوئی جارہی ہے کیا ہوگا؟
اب اس نظر کی دعائیں بھی مستجاب نہیں
دعائیں کیسے مستجاب ہوں۔ لطیفہ مشہور ہے کہ ایک امام صاحب نے اپنے نمازیوں سے کہا کہ تم لوگ اس قدر گناہگار ہوگئے ہو کہ اب تو اللہ تمہاری دعائیں بھی نہیں سنتا۔ ایک نمازی نے ادب سے کہا کہ مولوی صاحب دعا تو آپ مانگتے ہیں ہم تو صرف آمین کہتے ہیں۔ تو بھائی ہماری زندگی تو آمین کہتے کہتے کسی نہ کسی طرح کٹ گئی مگر اب سوال ہے نئی نسل کا کہ ان کا کیا بنے گا۔ یہ تمام ذہین بچے میرٹ پر نوکریاں اور پوسٹنگز نہ ملنے پر دل برداشتہ ہوکر پاکستان سے باہر روزگار کی تلاش میں جارہے ہیں گویا ہمارے ملک کا ٹیلنٹ ملک سے باہر جارہا ہے۔ ڈاکٹر ہوں یا انجینئر اب تو حد یہ ہے کہ تاجر اور صنعتکار بھی ملائیشیا اور بنگلہ دیش جارہا ہے۔ بے شمار لوگ دبئی منتقل ہوگئے ہیں۔ ہمارا سرمایہ اور اعلٰی ذہن ملک سے باہر جارہا ہے۔ آخر کب تک ہم اپنی بے بسی کا ماتم کرتے رہیں گے۔ لوگوں نے تو اب فوجی حکومتوں کے اچھے دنوں کو یاد کرنا شروع کردیا ہے۔ ہر روز ایس ایم ایس اور ای میل پر ایوب خان کے دور کی صنعتی ترقی اور جی ڈی پی سے متعلق مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں اور مشرف کے دور کا ڈالر، پیٹرول، بجلی، سی این جی اور آٹے کے بھاؤ کا موجودہ بھاؤ سے موازنہ، پڑھنے کو ملتا ہے۔ یہ سب اشارے ہیں کسی آنے والے دور کے۔ سمجھنے والوں کیلئے اتنا ہی کافی ہے بقول ناصر کاظمی…
دل گھٹا جاتا ہے افسردہ دلی سے یارو
کوئی افواہ ہی پھیلاؤ کہ کچھ رات کٹے
تازہ ترین