• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر آصف علی زرداری کی زیرقیادت جمہوری سیٹ کی کاردگی صرف ناکامیوں سے عبارت نہیں ۔ بعض حوالوں سے قابل ذکر کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ سب سے بڑی کامیابی تو یہ ہے کہ اس سیٹ اپ نے اپنے آپ کو پانچ سال تک گرنے سے بچائے رکھا۔ آئین کو سابقہ شکل میں بحال کیا۔ این ایف سی ایوارڈ پر اتفاق رائے پیدا کروایا۔ اٹھارویں ترمیم کو مستقبل کے حوالے سے ایک بڑا کارنامہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح اس دور میں ماضی کے برعکس سیاسی انتظام سے زیادہ کام نہیں لیا گیا ۔ میڈیا میں مختلف حربوں سے دراندازی ضرور کی گئی لیکن ماضی کے برعکس اس کا گلہ دبانے کی کوشش حکومت کی طرف سے نہیں ہوئی اور اس کی جارحانہ تنقید کو بھی برداشت کیا گیا ۔ اسی طرح عدلیہ نے مقننہ کو اور مقننہ نے عدلیہ کو برداشت کیا‘ فوج نے سویلین قیادت کو اور سویلین نے فوجی قیادت کو رعایتیں دیں ۔ مقننہ انتظامیہ اور انتظامیہ مقننہ کے ساتھ وقت گزرتا رہا لیکن اگر جمہوریت عوام کے لئے ہے تو پھر اس حوالے سے یہ جمہوری تجربہ نہایت ناکام رہا ۔ اداروں کا ایک دوسرے کو برداشت کرنا ‘ایوان صدر سے اختیارات وزیراعظم ہاؤس کو یا پھر وفاق سے صوبوں کو اختیارات منتقل کرنا علمی سطح پر جمہوریت کے لئے بڑی کامیابیوں سے تعبیرکیاجاسکتا ہے لیکن اگر جمہوریت کی بنیادی اکائی یعنی عوام اور اس کی طرف ڈیلیوری کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ دور بدترین رہا ۔ مہنگائی حد سے زیادہ بڑھ گئی‘ بے روزگاری آخری حدوں کو چھونے لگی ‘ توانائی کا بحران ناقابل برداشت ہوگیا ‘ کراچی‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور فاٹا میں امن وامان کی صورتحال مزید بگڑ گئی۔ کراچی ‘ کوئٹہ اور پشاور آج سے پانچ سال پہلے جس قدر غیرمحفوظ تھے ‘ آج پانچ سال بعد اس سے کئی گنا زیادہ غیرمحفوظ ہوگئے ہیں ۔ یوں دیکھا جائے تو موجودہ جمہوری سیٹ اپ عوام کو ڈیلیوری کے حوالے سے بری طرح ناکام ثابت ہوا ۔ اسی طرح پارلیمنٹ کی بالادستی کے نعرے تو بہت لگائے گئے لیکن حقیقی معنوں میں پارلیمنٹ کو بااختیار نہیں بنایا گیا۔ خارجہ پالیسی اور نیشنل سیکورٹی کے معاملات جس طرح آج سے پانچ سال قبل سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں تھے ‘ اسی طرح آج بھی ان کی مہار وہاں سے ہلتی ہے ۔ مواقع بھی بہت آئے اور خود کئی مواقع پر سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ نے راستہ بھی دیا لیکن سیاسی قیادت نے نہ تو ان ایشوز کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا اور نہ مطلوبہ اہلیت کا مظاہرہ کیا۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی بعض کمیٹیوں مثلاً نیشنل سیکورٹی کمیٹی‘ آئینی اصلاحات کمیٹی یا پھر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کی کارکردگی ماضی کی کمیٹیوں سے نسبتاً بہتر رہی لیکن قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی اور اسی نوع کی دیگر اہم کمیٹیوں کی کارکردگی افسوسناک رہی ۔ گذشتہ پونے پانچ سالوں میں جمہوریت کے دو بنیادی ستون یعنی لوکل گورنمنٹ سسٹم اور سیاسی جماعتوں کو مزید کمزور کردیا گیا ۔ بلدیاتی نظام جو جمہوریت کی بنیاد ہوا کرتا ہے کا حلیہ بھی مزید بگاڑ دیا گیا اور اس کے انتخابات بھی نہیں کروائے گئے ۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت لانے کی بجائے وہاں پر مزید آمریت کے کلچر کو عام کیا گیا ۔ تمام بڑی پارٹیاں مثلا پی پی پی ‘ مسلم لیگ(ن) ‘ ای این پی اور مسلم لیگ (ق) وغیرہ پہلے سے زیادہ خاندانی اور شخصی پارٹیاں بن گئی ہیں ۔ اسی طرح ا س دور میں سیاست سے نظریات اور اصولوں کی رخصتی کا عمل مزید تیز ہوگیا۔ لوگوں کا پارٹیوں کو بدلنا اب معمول کا ایک کام بن گیا اور بعض لوگوں نے تو ایک سال کے دوران تین تین پارٹیاں بدلیں ۔ اسی طرح پچھلے سالوں کے دوران جو آئینی اصلاحات کی گئیں ان میں وفاق اور صوبوں کے معاملات کو تو پیش نظر رکھا گیا لیکن آئین اور نظام کے حوالے سے اسٹرکچرل ریفارمز کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ مثلاً سیاست میں کرپشن کو ختم کرنے کے لئے ایک اہم قدم یہ ہوسکتا ہے کہ اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ کے ترقیاتی فنڈز ختم کئے جائیں ۔ اسی طرح پارلیمنٹ تک پہنچنے میں کرپٹ لوگوں یا پھر جاگیرداروں اور سرمایہ کی دلچسپی کی ایک وجہ یہ ہے کہ انتظامیہ بھی وہاں سے منتخب ہوتی ہے ۔ امریکہ کے طرز پر اگر وزراء کا تقرر باہر سے ہو اور پارلیمنٹ کو ان کے تقرر اور تنزل کا اختیار دیا جائے تو اس عمل کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے لیکن ان حوالوں سے پچھلے سالوں میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اسی طرح اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے بھی ان کے اندر اصلاحات نہیں کرائی گئیں اور وہاں پر رشوت‘ سفارش اور اقرباپروری کا کلچر مزید فروغ پاگیا۔ پی آئی اے ‘ اسٹیل مل‘ ریلوے اور اس نوع کے دیگر اداروں کا بیڑہ غرق ہوگیا جبکہ ایچ ای سی جیسے قابل فخر اداروں کو بھی سیاست کی نذر کرنے کی کوششیں ہوئیں ۔ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت لانے‘ اراکین پارلیمنٹ کے لئے فنڈز کی روش کو ختم کرنے‘ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کو یقینی بنانے اور ادارہ جاتی اصلاحات لانے کے کاموں کی نوعیت ایسی ہی ہے کہ وہ نئی منتخب حکومت سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے نہیں کرسکتی ۔ یوں اگر ان کاموں کو موجودہ سیاسی سیٹ کے ان آخری ایام میں کرلیا جائے اور حکومت اپوزیشن کے ساتھ مل کر آئینی ترامیم لائے تو بہتر ہوگا۔ اسی طرں یہاں نئے صوبوں کے قیام کا مسئلہ بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔ اس ایشو کے حل کے لئے بھی اگر اس آخری وقت میں ایک کلیہ وضع کرلیا جائے تو بہتر ہوگا ۔ ادارہ جاتی اصلاحات کا عمل بھی اگر اگلے انتخابات سے قبل انجام پائے تو بہت بہتر ہوگا ۔ اس وقت ملک کے اندر ایک بار پھر بعض قوتوں کی طرف سے جمہوریت کے خلاف فضا ہموار کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور یہ بات ذہنوں میں بٹھائی جارہی ہے کہ نئے انتخابات سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس سازش کو ناکام بنانے کے لئے بھی ضروری ہے کہ اگلے انتخابات سے قبل ایسے آئینی اور انتظامی اصلاحات عمل میں لائی جائیں کہ جن کی بنیاد پر لوگوں کے لئے انتخابات تبدیلی کی امید بن جائیں اور نئے آنے والے لوگ سیاسی مصلحتوں کا شکار ہونے کی بجائے اس طریقے سے حکومت چلانے پر مجبور ہوں کہ جس سے عوام کو بھی کچھ ریلیف ملے ۔
ایک وضاحت : میرے اٹھائے گئے سوالوں کا جواب دینے کی بجائے گذشتہ روز جنگ میں محترم قاضی صاحب کے ایک کارندے کا الزام و دشنام پر مبنی ایک اور کالم شائع ہو ا ہے ۔ میں جو کچھ عرض کرچکا ہوں ‘ ہر فورم پر اس کو ثابت کرنے کو تیار ہوں لیکن اپنے کالم کو ایک ایسے کارندے کے جوابات کے لئے وقف نہیں کرسکتا جو اپنی اہمیت بڑھانے کے لئے جماعت اسلامی کی آڑ لے کر مشہور ہونے کی کوشش کررہے ہیں ۔ تماشہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے قائدین میرے ساتھ رابطوں میں ان کی تحریر کو ان کا ذاتی فعل قرار دے رہے ہیں لیکن دوسری طرف اخبار میں ان کی تحریر جماعت اسلامی صوبہ پنجاب کا سیکرٹری اطلاعات ہونے کے ناطے شائع ہورہی ہے ۔ اب جماعت اسلامی کی قیادت کو چاہئیے کہ وہ اس حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کردے ۔ اگر تو وہ میرے جواب میں لکھے گئے کالموں میں جماعت اسلامی کی ترجمانی کررہے ہیں تو پھر میں اس تناظر میں ان کو جواب دوں اور اگر وہ ذاتی دکان چمکارہے ہیں تو پھر اس طرح کے لوگوں پر وقت ضائع کرنے کے لئے میرے پاس وقت نہیں ۔
تازہ ترین