• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی دنوں سے سوچ رہا ہوں۔ آپ بھی میری مدد کیجئے۔

اس وقت پاکستانی معاشرے کو کون زیادہ اپنے رنگ میں رنگ رہا ہے۔ یونیورسٹیاں یا میڈیا۔

یونیورسٹیوں کی تعداد میں معقول اضافہ ہورہا ہے۔ ہر سال سینکڑوں طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہوکر عملی زندگی کا حصّہ بن رہے ہیں۔ کیا وہ ماحول پر اثر انداز ہورہے ہیں۔

میڈیا کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ 2002 کے بعد ٹی وی چینلوں والا معاشرہ 2002سے پہلے والے معاشرے کے مقابلے میں کتنا تبدیل ہوا ہے۔ کیا یہ تبدیلی معکوس ہے یا مثبت۔ اخلاقی اعتبار سے کتنا فرق پڑا ہے۔

یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہماری زمین میں پھول پیدا کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے یا کانٹے۔

ایک انگریزی اخبار کے سروے کے مطابق پاکستان کے حکمرانوں میں سے سب سے زیادہ نقوش جنرل ضیا کے دور نے ثبت کئے ہیں۔ غور کریں تو یہ تحقیق درست لگتی ہے کہ جنرل ضیا اپنی پالیسیوں سے جیسا پاکستان چاہتے تھے ۔ ویسا زیادہ بنا ہے ۔مذہبی دکھاوا، تعصّبات، فرقہ پرستی۔ جنرل ایوب کی اعتدال پسندی اس معاشرے کو پسند نہ آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی میانہ روی، آزاد خیالی نے اس ماحول کو متاثر نہیں کیا۔

اب ہم فوجی اور سیاسی تعلقات پر کھل کر بات کرتے ہیں۔ لیکن ضیا کے فوجی دَور کے مذہبی اثرات سے صرف نظر کرلیتے ہیں۔

ہمارے تحقیقی ادارے ان رُجحانات پر کام کررہے ہوں یا نہیں۔ امریکہ یورپ چین اور بھارت والے اس پر ریسرچ کرتے رہتے ہیں۔

ان دنوں اتفاق سے یونیورسٹیوں سے میرا رابطہ کچھ زیادہ ہے۔ اپنے ماضی سے خوف زدہ ہوں ۔حال پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔اس لئے وہاں جارہا ہوں جہاں ہمارا مستقبل پرورش پارہا ہے۔کوئٹہ گیا تو سردار بہادر خان ویمنز یونیورسٹی میں دس ہزار طالبات کو حصول علم میں مصروف دیکھا۔ بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کوئٹہ ایئرپورٹ پر ملے۔ ان سے وعدہ ہوا کہ لیکچر کے سلسلے میں ان کے ہاں جائیں گے۔ کراچی میں محمد علی جناح یونیورسٹی کے ایک کتاب میلے کے افتتاح کے لئے جانا ہوا۔ یہاں جاتے ہیں تو استادوں کے استاد ڈاکٹر عبدالوہاب کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ کیسے صاحب کردار ڈسپلن کے قائل۔ آئی بی اے کی معروضی بنیاد رکھ گئے کراچی یونیورسٹی کی کئی ایکڑ اراضی واگزار کرواگئے۔ اب ڈاکٹر زبیر شیخ اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں ۔سردیاں آتی ہیں تو کراچی میں کتاب میلوں کا موسم بھی شروع ہوجاتا ہے۔ اس کتاب میلے میں تو زیادہ تر ٹیکنیکل کورسز کی کتابیں رکھی گئی ہیں کہ یہ طلبہ و طالبات کی ضرورت ہیں۔ پبلشر اور بک سیلر حضرات بہت مطمئن تھے کہ ان میلوں سے کتابوں کی کافی فروخت ہوجاتی ہے۔ دسمبر میں کراچی کتاب میلہ منعقد ہوتا ہے۔ لاکھوں کراچی والے اہل خانہ بچوں بزرگوں، وہیل چیئروں، بچہ گاڑیوں سمیت جوق در جوق آتے ہیں۔ کروڑوں کی کتابیں خرید تے ہیں۔ پھر بھی پبلشر گلہ کرتے ہیں کتابیں نہیں بکتیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ پبلشر لاہور میں بھاٹی لوہاری سے گلبرگ، ڈیفنس کراچی میں ناظم آباد ،پی ای سی ایچ ایس سے ڈیفنس کیسے منتقل ہوتے رہتے ہیں۔

سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی وہ مقدس درسگاہ ہے جہاں بانیٔ پاکستان اپنا بستہ اٹھائے پرائمری تعلیم کے لئے آتے تھے۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ اساتذہ اور طالب علم جو انہی برآمدوں، راہداریوں سے گزرتے ہیں۔ جہاں قائد اعظم کا بچپن گزراتھا۔ مجھے لیکچر کے لئے بلایا گیا تھا۔’’ ڈیجیٹل دَور میں میڈیا کے بدلتے رُجحانات ‘‘وائس چانسلر محمد علی شیخ نے اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اب وہ اسے بین الاقوامی یونیورسٹی کے معیار پر لے جارہے ہیں۔ میں نے میڈیا کے مختلف ادوار کے مناظر الفاظ میں بتائے۔ آج جب میڈیا شدید بحران سے دوچار ہے اس کے اسباب پر بھی روشنی ڈالی۔

گلستان جوہر سے گزرتے ہیں تو حبیب یونیورسٹی کی شاندار جدید خطوط پر تعمیر نظر آتی ہے۔ ایک بار اندر جانا ہوا ۔ ایک مشاعرے کے لئے۔ شاہجہاں ایس کریم مرحوم نے بھی ایک تاج محل تعمیر کیا تھا۔ انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ۔ یہ درسگاہ بھی بین الاقوامی معیار کی ہے۔

مگر میں اسی الجھن میں ہوں کہ یونیورسٹیوں سے پڑھ کر نکلنے والے معاشرے میں کوئی تبدیلی لارہے ہیں یا نہیں۔ یا دریا کے میٹھے پانی کی طرح سمندر کے کھاری پانی میں مل کر کھاری ہورہے ہیں۔

یہ پاکستان آرٹس کونسل کراچی کا پُر شکوہ آڈیٹوریم ہے۔ یہاں ایک درد مند پاکستانی ان دنوں وہیل چیئر پر سیّد عبدالباری جیلانی کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔ آرٹس کونسل کے صدر سید احمد شاہ مبارکبادیں اور تعریفیں سمیٹ رہے ہیں کہ وہ مخلص اور صاحبِ بصیرت پاکستانیوں کی ان کی زندگی میں ہی پذیرائی کررہے ہیں۔ بلند قامت، بلند آہنگ سید عبدالباری جیلانی سیاست دان بھی ہیں۔ سفارت کار بھی کراچی میں کیمرون کے اعزازی قونصل جنرل ہیں۔ پاکستان میں کیمرون کا سفارت خانہ نہیں ہے، اس لئے جیلانی صاحب سب کچھ ہیں۔ کراچی کے لئے ان کی طویل خدمات ہیں۔ طالب علم لیڈر سے لے کر کونسلر، پھر سندھ اسمبلی کے ممبر، ڈپٹی اسپیکر، بے شُمار سماجی معرکے، سارے سفارت کار اعزازی یا غیر ملکی۔ سب ڈیفنس، کلفٹن میں چلے گئے ہیں۔ جیلانی صاحب مزار قائد اعظم کے پڑوس میں خداداد کالونی میں مُقیم ہیں۔ آڈیٹوریم بھرا ہوا ہے۔ اسٹیج پر بھی ایک کہکشاں ہے۔ آرٹس کونسل کے سب کچھ سید احمد شاہ، سعادت علی جعفری، شکیل خان، حاجی حنیف طیب، جسٹس(ر) صلاح الدین مرزا، سابق ایم این اے اعجاز محمود، جماعت اسلامی سندھ کے امیر محمد حسین محنتی، جسٹس(ر) غوث محمد، نوشابہ صدیقی، پی آئی اے کے چیف آپریشنل آفیسر اعجاز مظہر، سامعین میں بھی معزز ہستیاں۔ باری صاحب کے صاحبزادے ندیم باری جیلانی خوش بھی ہیں اور جذباتی بھی ۔ اللہ نے انہیں موقع دیا ہے کہ وہ اپنے عظیم والد کی دن رات خدمت کررہے ہیں۔

ہم نے انہی کالموں میں عرض گزاری تھی کہ حکومتی اداروں کو، غیر سرکاری تنظیموں کو ایسی عمر رسیدہ ہستیوں کے اعزاز میں تقریبات منعقد کرنا چاہئیں۔ خود ان درد مند پاکستانیوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کا سفر رائیگاں نہیں گیا۔ دوسرے نئی نسل کو بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو جو سہولتیں اور آزادیاں میسر آئی ہیں اس کے لئے ان کے پُرکھوں نے کتنی مشکلات برداشت کی ہیں۔ کوئٹہ، گوادر، پشاور، لاہور، اسلام آباد، ملتان، فیصل آباد، سیالکوٹ، سکھر، لاڑکانہ، حیدر آباد ہر شہر میں ہی اپنے اپنے باری جیلانی ہیں جن کی عمر اپنے ہم نفسوں کی خدمت میں گزر رہی ہے۔ ان کے لئے خراج تحسین تو ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔

آخر میں پھر میرا وہی سوال کہ ہمارے معاشرے پر زیادہ اثر انداز کون ہورہا ہے۔ یونیورسٹیاں یا میڈیا۔ اسے بڑھا بھی سکتے ہیں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین