• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو خیال ذہن میں آئے اسے لکھتے جائو کہ آزادیٔ اظہار کا زمانہ ہے۔ ذہن میں وہی آئے گا جو آپ کی میلان طبع کے مطابق ہے اور میلان طبع وہی ہوتی ہے جس میں آپ کی ذہنی، فکری اور قلبی شخصیت ڈھل چکی ہے۔ جس سانچے میں انسان کی شخصیت ڈھلتی ہے اسے استاد، والدین، قریبی دوست، کتابیں اور گہرا مطالعہ تیار کرتا ہے۔ میرے مشاہدے کے مطابق اچھے استاد کا میسر آنا خوش قسمتی ہوتی ہے اور اچھا استاد وہ ہوتا ہے جس کی فکر اور سوچ صحیح اور پختہ ہو، مطالعہ وسیع ہو اور جسے اپنے پیشے سے محبت اور مقام کی اہمیت کا اندازہ ہو۔ صحیح معنوں میں استاد وہ ہوتا ہے جو اپنی شخصیت کا عکس اپنے شاگردوں میں اس طرح پیدا کرے کہ وہ اس کے فکری نمائندے بن جائیں اور انہیں کتاب و مطالعے سے عشق ہوجائے۔ آپ کو دانشوروں میں نظریاتی، مذہبی اور وطن کی محبت سے سرشار لکھاری بھی ملیں گے اور ایسے روشن خیال بھی نظر آئیں گے جو دین سے شاکی ہوں گے اور ایسے صاحبان مطالعہ بھی ملیں گے جن کی فکر الحاد کی سرحدوں کو چھوتی ہے۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ ہمیں قرآن سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہیے چنانچہ وہ’’بالاتری‘‘ کے شوق میں نہ صرف مذہب بارے تشکیک پیدا کرتے ہیں بلکہ پاکستان کے حوالے سے بھی کنفیوژن پھیلانا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ مطالعے اور علم سے کورے نوجوان ان کا ہدف ہیں جنہیں وہ تشکیک میں مبتلا کرکے گمراہی کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔ خورشید احمد یوسفی کی کتاب قائد اعظم کی تقاریر میں وہ گفتگو موجود ہے جس میں قیام پاکستان سے کئی برس قبل انہوں نے کہا کہ کوئی مسلمان بھی قرآن مجید سے بالاتر ہو کر نہیں سوچ سکتا۔ یہی راست فکری اور یقین محکم قائد اعظم کی کامیابی کا ضامن تھا۔

یادش بخیر مولوی محمد سعید مرحوم میرے کرم فرما تھے۔ یہ بات میں نے زبانی بھی ان سے سنی اور انہوں نے اپنی کتاب’’آہنگ بازگشت‘‘ میں بھی لکھی ہے کہ جب غازی علم الدین ؒشہید کے ہاتھوں ملعون راجپال کے قتل کی خبر ان کی والدہ تک پہنچی اس وقت شہید کی والدہ گلی محلے میں ان کی سگائی(منگنی) کے لڈو بانٹ رہی تھیں۔ یہ خبر سن کر ان کے چہرے پہ ملال اور تفکر کے بجائے نور کی روشنی پھیل گئی۔ جب یہ خبر علامہ اقبال نے سنی تو فرمایا’’ترکھاناں دا پتر بازی لے گیا تے اسیں ویکھدے رہ گئے‘‘۔ اس فقرے میں جہاں ترکھانوں کے پتر پر رشک اور کامیابی پر خوشی کا اظہار موجود ہے وہاں آخری الفاظ سے ایک حسرت بھی ٹپکتی ہے کہ اے کاش! یہ کارنامہ میں نے سرانجام دیا ہوتا۔ یہ حسرت یا خواہش سچی راست فکری اور عشق رسولﷺ کی امین ہے۔ عشق رسول ﷺ کے بغیر نہ ایمان مکمل ہوتا ہے نہ مسلمانی کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ سچ پوچھو تو عشق رسولؐ مسلمان کا سب سے بڑا اثاثہ ہے اور یہی وہ شعلہ ہے جو مسلمان کے قلب میں حرارت ایمانی قائم رکھتا ہے۔ علامہ یقین رکھتے تھے کہ شاتم رسولؐ کو قتل کرکے پھانسی چڑھنا ہی بہترین موت ہے ورنہ موت تو بہرحال آنی ہے۔ اس جذبے اور تیقن کو سب سے پہلے علامہ کے والدین نے پیدا کیا اور بعدا زاں مولوی میر حسن مرحوم جیسے استاد نے پروان چڑھایا۔ مطلب یہ کہ مکتب کی کرامت بھی آداب فرزندی سکھا دیتی ہے، مسلمان کو سچا مسلمان بھی بنادیتی ہے اور فکری انتشار میں مبتلا کرکے گمراہی کی راہ پہ بھی ڈال دیتی ہے۔ ہندوستان کے صف اول کے وکیل محمد علی جناح جن کے سامنے لب کشائی کرتے جج بھی گھبراتے تھے، خاص طور پر لاہور آئے اور مفت غازی علم الدین شہید کا مقدمہ لڑا۔ برطانوی حکومت علم الدین کو پھانسی دینے اور خود علم الدین شہادت کا رتبہ پانے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ قائد اعظم مقدمے میں کامیاب نہ ہوسکے لیکن حب رسولؐ کے تقاضے پورے کرکے سرخرو ہوگئے۔ علامہ اقبال حسرت سے ہاتھ ملتے رہ گئے لیکن غازی علم الدین شہید کی میت مبارک اپنے اثر و رسوخ سے انگریز حکومت سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ورنہ حکومت نے غازی علم الدین شہید کو خفیہ انداز سے دفنا دیا تھا۔ ’’ترکھاناں دا پتر بازی لے گیا‘‘ کی حسرت کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے علامہ اقبال چند حضرات کے ساتھ قبر میں اترے اور غازی علم الدین شہید کو قبر کی گود میں لٹایا۔ یوں ان کی یہ حسرت شاید کسی حد تک تسکین قلب کا باعث بن گئی۔ قرآن مجید کا فرمان ہے شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ اپنے رب کے پاس کھاتے پیتے اور زندہ ہیں۔ ایک زندگی عارضی ہے، فریب نگاہ ہے اور دوسری زندگی ابدی ہے، جسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ صاحبان الحاد یہ تو مانتے ہیں کہ یہ زندگی فانی ہے اور فنا اس کا مقدر ہے لیکن دلوں پر لگے قفل اور ذہنوں پہ لگی مہر ابدی زندگی کے راز کو سمجھنے میں حائل ہوجاتی ہے۔

اسی مکتب فکر کے ایک سرخیل نے فرمایا ہے کہ صوفی جھوٹ ہے۔ اس سے بھوک اور غربت کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ غربت کے مسئلے کا حل تو معاشی ترقی میں مضمر ہے البتہ مادہ پرست روحانیت میں دخل دے گا تو ظاہر ہے کہ اسے صرف جھوٹ ہی نظر آئے گا۔ وہ صوفی ہی کیا جو دنیاوی احتیاج، خواہش اور ہوس کو اپنا غلام نہ بناسکا ۔ صوفی توکل کے عصا سے دنیا کے کھلونوں کو پاش پاش کرکے ذات الٰہی میں گم ہوجاتا ہے اور بقول حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ اپنی طبیعت کو کدورتوں، کھوٹ، غیر اللہ اور دنیا سے پاک کرلیتا ہے۔ صوفی کو سمجھنا ہے تو شیخ علی ہجویریؒ کی کتاب کشف المحجوب کا بغور مطالعہ کرو جسے اگر خلوص نیت سے بار بار پڑھا جائے تو ’’بےمرشد‘‘ کے لئے مرشد بن جاتی ہے اور ہاں یہاں ایک اور وضاحت ضروری ہے بعض عالم و فاضل حضرات کشف المحجوب میں تحریر کردہ بعض واقعات یا تفصیلات پر شک کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی دنیائے تحقیق اس کا ثبوت نہیں پاسکی۔ ایک علم ہوتا ہے کتابی اور ایک علم ہوتا ہے کشفی۔ کتابی علم مطالعے سے حاصل ہوتا ہے اور کشفی علم ا للہ سبحانہ تعالیٰ کی دین ہوتی ہے اور یہ انعام اس قلب میں اترتا ہے جو آئینے کی مانند صاف و شفاف ہو، چنانچہ جب کوئی سچا ولی اللہ لکھنے بیٹھتا ہے تو اس کی تحریر دنیاوی اور کشفی علوم دونوں کا حسین امتزاج ہوتی ہے مطلب یہ کہ اسے کچھ علم کشف کے ذریعے حاصل ہوتا ہے جسے تحقیق کے پیمانے پر پرکھا جائے تو کبھی اس کے شواہد ملتے ہیں اور کبھی نہیں بھی ملتے لیکن ایک بات بہرحال یاد رکھو کہ ولی اللہ کبھی جھوٹ نہیں لکھتا اور نہ ہی اس کا علم جھوٹا ہوتا ہے۔ حدیث قدسی کے مطابق یہ حضرات اس مقام پہ فائز ہوتے ہیں جہاں اللہ پاک ان کے کان، آنکھیں، ہاتھ اور ٹانگیں بن جاتا ہے ، تو پھر ان کے قلم سے غیر صحیح بات کیسے نکل سکتی ہے؟

تازہ ترین