• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی پاکستان کا اکنامک گیٹ وے ہے ۔ یہ ملک کا بزنس ، فنانشل اور کمرشل حب ہے ۔ یہ دنیا کے 10 بڑے شہروں میں سے ایک ہے ۔ دنیا کے 78 ممالک ایسے ہیں ، جن کی انفرادی آبادی کراچی سے کم ہے ۔ اس وقت کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق 2030 میں کراچی آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا شہر ہو گا لیکن المیہ یہ ہے کہ اس شہرکے حکمرانوں کا وژن نہ کل تھا اور نہ آج ہے۔ شہر کا نہ کوئی ماسٹر پلان بنایا گیا جس کی وجہ سے یہ شہر unplanned طریقہ سے ہر طرف اور ہر طرح سے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اس لئے اس شہر کا ایسا انفرا سٹرکچر نہیں ہے ، جو اتنے بڑے شہر کا ہونا چاہئے ۔ مستقبل کے لئے اس کی کوئی منصوبہ بندی بھی نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی بڑھتے ہوئے شہر کے گمبھیر مسائل کو حل کرنے کے لئےکسی وژن پر کام کیا جا رہا ہے ۔
ایک زمانہ تھا ، جب کراچی بہت خوبصورت اور پرامن شہر تھا۔ فی کس آمدنی کے حوالے سے یہ جنوبی ایشیا کا امیر ترین شہر تھا اور پاکستان میں یہ غریب پرور شہر کی حیثیت سے جانا جاتا تھا ۔ یہاں سب کو روزگار مل جاتا تھا اور غریب لوگ ایک یا دو روپے میں پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتے تھے ۔ دوسری طرف اتنے مہنگے ہوٹل بھی تھے کہ لوگ 10 ہزار روپے میں بھی کھانا نہیں کھا سکتے تھے ۔ یہ شہر خطے کا اقتصادی مرکز بھی تھا ۔ دنیا بھر کی ساری ایئرلائنز کا کراچی میںhub ہوتا تھا ۔ خطے کی سب سے زیادہ مصروف بندرگاہ بھی اسی شہر کی تھی ۔ شہر کا انفرا سٹرکچر ، صحت و صفائی کے انتظامات اور عمارتوں کا حسن بین الاقوامی معیار کے مطابق تھا ۔ شہر میں رونقیں تھیں۔ اعلیٰ معیار کے ہوٹلز ، کیسینوز اور کلب تھے ۔ برنس گارڈن، ہل پارک ، فریئر ہال ، باغ ابن قاسم ، جہانگیر پارک اور دیگر باغات اور پارکس شہر کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے تھے۔چائے کے ہوٹلوں اور قہوہ خانوں میں ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کی محفلیں ہوتی تھیں ۔ مشاعرے اور موسیقی کے پروگرام اس شہر کا معمول تھے ۔ ثقافتی رنگا رنگی اور تنوع کراچی کی شناخت تھی ۔ یہ وہ شہر تھا ، جہاں مسلمان ، عیسائی ، پارسی ، ہندو ، سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگ نہ صرف پیار محبت سے ایک ساتھ رہتے تھے بلکہ سب ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرتے تھے اور سب تہوار مل کر مناتے تھے۔ اس شہر کے اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے اور اسپتال مسلمان، عیسائی ، پارسی اور ہندو مخیر حضرات چلاتے تھے ۔ بازاروں میں رش ہوتا تھا ۔ ہوٹل بھرے ہوئے ہوتے تھے ۔ بازاروں میں دنیا کے ہر خطے سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی باشندے گھوم رہے ہوتے تھے اور کراچی واقعتاً ایک بین الاقوامی شہر نظر آتا تھا ۔ دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے کراچی ایک پسندیدہ شہر تھا ۔ غیر ملکی سیاح پاکستان کی دستکاری اور دیگر مصنوعات کراچی سے خریدتے تھے جو کراچی کو خوشحال بناتے تھے ۔ سیاسی طور پر بھی یہ ملک کا ایک زندہ شہر تھا ۔ سیاسی بیداری کی وجہ سے یہاں بڑی بڑی تحریکیں چلیں ، ان میں جمہوری تحریکیں ، طلباء ، خواتین اور مزدوروں کے حقوق کی تحریکیں اور شہری آزادی کی تحریکیں شامل تھیں ۔ بنیادی شہری سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے یہ ایک مثالی شہر تھا ۔ یہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سوال پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ اس لئے اسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا ۔ گیس اور پینے کے صاف پانی سمیت دیگر سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے اس شہر کو خطے کے دیگر شہروں سے ایک امتیاز حاصل تھا ۔ یہاں کا تعلیمی ماحول پاکستان تو کیا بلکہ اس خطے میں سب سے بہتر تھا ۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ لوگوں میں کسی قسم کا خوف نہیں تھا اور کراچی کے بارے میں یہ بھی مشہور تھا کہ یہ شہر کبھی نہیں سوتا ۔
اپنے جوہر میں کراچی ایک ترقی پسند ، روشن خیال اور لبرل شہر بھی تھا ۔ کراچی کے اس کردار کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت سے ایک منصوبہ بندی کے تحت اس شہر کو سماجی ، تہذیبی اور سیاسی طور پر تباہ کیا گیا اور اسے مذہبی ، فرقہ ورانہ اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کرکے اس کے حقیقی جوہر کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس کی وجہ سے پورے ملک کی جمہوری ، روشن خیال ، ترقی پسند اور لبرل قوتیں کمزور ہوئیں۔ کراچی کی بدامنی کو جمہوری حکومتوں اور ملک کی لبرل اور روشن خیال قوتوں کے خلاف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ اس صورتحال کا ادراک سیاستدانوں کو نہ ہو سکا جو اپنے مفادات کا شکار ہوئے کراچی کو تارو پود بکھرنے لگے۔ دوسری طرف کراچی کی معاشی خوش حالی اورتزویراتی محل وقوع ( اسٹرٹیجک لوکیشن ) کی وجہ سے اس شہر کی بدامنی کو مزید ہوا دی گئی اور اسے بین الاقوامی سازشوں کا ہدف بنایا گیا ۔ اس خطے کی کچھ ابھرتی ہوئی معیشتوں اور ابھرتے ہوئے شہروں کی مخاصمت نے بھی کراچی کو اور زیادہ تباہ کیا ۔
ایک وہ زمانہ بھی آیا ، جب کراچی کا شمار دنیا کے خطرناک شہروں میں ہونے لگا ۔ خونریزی اور بدامنی نے یہاں کے باسیوں سے زندگی کا احساس چھین لیا ۔ یہاں سے سرمایہ منتقل ہو گیا غلط حکومتی پالیسیاں اور کراچی کی بدامنی کی وجہ سے کراچی ایئرپورٹ اس خطے کا سب سے زیادہ مصروف اور بڑا ایئرپورٹ نہیں رہا ۔ بندرگاہ کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں۔ کاروبار تباہ ہو گئے ۔ شہر کی رونقیں ختم ہو گئیں ۔ عدم تحفظ کا احساس اور خوف لوگوں کی زندگی کا حصہ بن گیا ۔ اس شہر کے باسی نفرتوں اور شکوک و شبہات کے عذاب میں مبتلا ہو گئے ۔ شہر کا پہلے والا انفرا سٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکا رہو گیا۔ سیاحوں نے اس شہر میں آنا چھوڑ دیا ۔ غربت میں اضافہ ہوا اور اس شہر کا جنوبی ایشیا میں امیر ترین شہر ہونے کا اعزاز چھن گیا ۔ شہر کی آدھی سے زیادہ آبادی کو پانی میسر نہیں ہے ۔ عام استعمال کے لئے لوگ ٹینکرز اور پینے کیلئے منرل واٹر خریدتے ہیں ۔ بجلی کیلئے جنریٹر چلاتے ہیں ۔ سیکورٹی کیلئے پرائیویٹ گارڈز رکھتے ہیں ۔ ثقافتی سرگرمیاں بھی طویل عرصے تک معطل رہیں اور سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس شہر میں ہر طرح کی انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا اور شہر کا حقیقی چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ طویل بدامنی اور بحرانوں کا شکار رہنے کے بعد کراچی اب کروٹ لے رہا ہے ۔ کراچی اپنی شناخت اور اپنے حقیقی جوہر کی بحالی کی جدوجہد کر رہا ہے ۔ یہ جوہر ختم نہیں ہوا تھا ، اسے دبا دیا گیا تھا ۔ یہ قائد اعظم محمد علی جناح ، لیاقت علی خان ، میر خلیل الرحمن ، حاجی عبداللہ ہارون جیسے قد آور لوگوں کا شہر ہے ۔ اس شہر میں تنوع اور رنگا رنگی بھی پہلے کی طرح موجود ہے ۔ کراچی وہ واحد شہر ہے ، جہاں سب سے زیادہ خیراتی اور فلاحی ادارے کام کرتے ہیں ۔ عبدالستار ایدھی ، رمضان چھیپا اور سیلانی جیسے لوگ اس شہر کی خدمت کر رہے ہیں ۔ تعلیم اور صحت کے بے شمار ادارے مخیر حضرات چلا رہے ہیں ۔
کراچی کے فلاحی اور خیراتی کاموں کو مثال بناکر پاکستان اور دنیا کے دیگر ملکوں میں اسی طرح کے کام کئے گئے ۔ کراچی اپنی خصوصیت میں کثرتیت کا حامی ہے ۔ جمشید نسروانجی اور ٹیکم داس وادھو مل سے لیکر نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال تک اس شہر کو اون اور اس شہر سے محبت کرنے والے لوگ ملے ہیں ۔ اس شہر کے باسیوں میں اپنے شہر کی اونر شپ کا احساس موجود ہے اور کراچی کا مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو گا ، جب تک صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں میں کراچی کے لوگوں کا عمل دخل نہیں ہو گا ۔ یہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر ادیب رضوی، انور مقصود، ڈاکٹر عشرت حسین، جمیل الدین عالی اور الطاف حسین جیسے لوگوں کا شہر ہے ۔ امید کی کرن یہ ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف ، فوج ، رینجرز اور پولیس کی کوششوں سے اس شہر کا امن بحال ہو رہا ہے ۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ، وفاقی حکومت اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان بھی اس شہر کے مسائل پر توجہ دے رہے ہیں ۔ گرین لائن بس کا منصوبہ شہریوں کیلئے ایک اچھی خبر ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) اور شہر کی دیگر سیاسی قوتیں بھی شہر کو بحران سے نکالنے کیلئےپہلے سے زیادہ کام کر رہی ہیں ۔ کراچی اپنا امن ، اپنی خوش حالی ، اپنی کثرتیت ، اپنے تنوع اور اپنی لبرل اور روشن خیالی والی سوچ بحال کرنے کی جدوجہد میں ہے ۔ اس شہر میں وہ صلاحیت موجود ہے کہ اپنی اس جدوجہد میں کامیاب ہو سکتا ہے ۔ اگر ایک وژن کے ساتھ اس شہر کی ترقی کیلئے منصوبہ بندی کی جائے تو کراچی بہت جلد پہلے والا کراچی بن سکتا ہے ۔
تازہ ترین