• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن کی گھٹائیں ابھی دور ہیں لیکن سیاسی جماعتوں نے پُل باندھنے شروع کردیئے ہیں۔ اب سب دعوے بھی کررہے ہیں اور وعدوں کی بہاریں بھی دکھارہے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں نئی نئی اصطلاحات اور استعارے سیاست کے میدان میں لارہی ہیں۔ انتخابات سے پہلے جو استعارے اور اصطلاحات سامنے آئیں اُن میں سونامی اور ایک بال سے دو وکٹیں لینے کے دعوے تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان نے کئے جن کو پاکستان کی سیاست میں تھرڈ پارٹی کہا جاتا ہے۔ کرکٹ میں فیلڈنگ کے دو مقامات ہیں، تھرڈ سلپ اور تھرڈ مین۔ اور عمران خان اپنے کیریئر میں کبھی اس پوزیشن پر نہیں کھڑے ہوئے اور وہ کبھی تھرڈ امپائر بھی نہ بنے لیکن پاکستان کی سیاست میں تھرڈ پارٹی کے رول میں وہ بڑے اچھے وعدے کر رہے ہیں۔ ان کے دعووں میں سب سے بڑا دعویٰ یہ ہے کہ وہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے لیکن واپس لاکر اس دولت کا انجام کیا ہوگا، یہ نہیں بتاتے۔ یہ ان کا ادھورا وعدہ اور ادھورا دعویٰ ہے۔
پیپلزپارٹی کی جانب سے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے چور کی اصطلاح کو عام کیا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں اسلام آباد کی ایک تقریب میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چور چور کے نعرے نے سب کو چور بنا دیا ہے۔ ان کی اس تقریر کے بعد ہر طرف چور کے محاوروں اور نغموں کی بہار آگئی۔راجہ صاحب نے کہا کہ جب لوگوں نے چور چور کے نعرے لگائے تو پھر سب چور بن گئے کہ عوامی نعروں کی پذیرائی سیاسی جماعتوں کا خاصہ ہوتی ہے اور وزیراعظم بہ انداز”ہور چوپو“کہہ رہے ہیں ”اور لگاوٴ چور چور کے نعرے اور اب چوروں کو بھگتو بھی“۔ اب الیکشن میں نغموں کی سونامی بھی آگئی۔ کہیں یہ نغمہ گونج رہا ہے۔
اس دنیا میں سب چورچور
کوئی بڑا چور کوئی چھوٹا چور
اور کوئی دل کا چور
کوئی چوری کرے خزانے کی
کوئی آنے یادو آنے کی
کوئی مرغی چور کوئی ہاتھی چور
اور کوئی ووٹ کا چور
اس دنیا میں سب چورچور
”چورمچائے شور“ کا محاورہ بھی عام ہو گیا ہے اور حالیہ ضمنی انتخابات کے بعد میاں منظور وٹو کو دیکھ کر حکومت کی ایک اعلیٰ شخصیت نے کہا ”نگاہ نیچی کئے سرجھکائے بیٹھے ہیں“۔ اس پر اعلیٰ ترین شخصیت نے دوسرا مصرع پڑھا ”یہی تو ہیں جو میرا دل چرائے بیٹھے ہیں“۔ میرے دل کو انہوں نے اطمینان دلادیا تھا کہ پنجاب آپ کی جھولی میں …اور اب میں گارہا ہوں۔”میری جھولی کولا گا چور“۔
انتخابات کے تذکرے میں مسلم لیگ ن کے لیڈر میاں نواز شریف نے فلم کی اصطلاح کو عام کیا ہے۔ انہوں نے میلسی کے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے کا ”ضمنی انتخابات میں تو ٹریلر چلا تھا،انتخابات میں پوری فلم چلے گی پھر دیکھنا۔
میاں صاحب نے اپنی تقریر میں بات پوری طرح کھولی نہیں کہ یہ فلم کیسی ہوگی، کیا یہ ٹریجڈی ہوگی یا کامیڈی۔ میوزیکل فلم ہوگی ، ناچ گانے والی فلم ہوگی، تاریخی فلم ہوگی یا سائنس فکشن۔ یہ لڑائی مار کٹائی سے بھرپور فلم ہوگی یا رومانی فلم ہوگی؟ہم نے حالیہ ضمنی انتخابات کے ٹریلر دیکھے ہیں ان میں ہمیں تمام رنگ نظر آئے۔ اگر یہ فلم ڈائیلاگ سے بھرپور کا ٹریلر تھا تو ہمیں دونوں پارٹیوں کے اداکاروں کے درمیان پولنگ کے وقت ہونے والے زوردار مکالموں کی خبر مل چکی ہے۔ ان میں سے کوئی ڈائیلاگ بھی اس کالم میں جگہ نہیں پاسکتا۔ اگر الیکشن کے دن ریلیز ہونے والی فلم کامیڈی فلم ہوگی تو پھر اس میں جگتوں اور لطیفوں کی بھر مار ہوگی اور الیکشن کے نتائج کے بعد عوام کو معلوم ہوگا کہ یہ سب شغل میلہ تھا، لطیفے تھے جن میں کوئی بات حقیقت نہیں ہوتی۔ ضمنی انتخابات کے ٹریلرز میں اداکاروں کے ہاتھوں میں پستولوں اور کلاشنکوفوں کی فائرنگ دیکھ کر یہ خیال آیا کہ یہ الیکشن مولاجٹ اور بالا گجر جیسی فلموں کی طرح لڑائی اور مار کٹائی سے بھرپور ہوں گے اور اس میں اس طرح کے ڈائیلاگ عام ہوں گے۔
”او‘ جس نے ساڈے نال متّھا لایا اوہدی لاش نوں وی مچھیاں ہی کھان گیاں“۔
الیکشن میں ایسا بھی ہوگا کہ پرانی پارٹیوں کا کوئی اداکار ، تحریک انصاف کے لیڈر کو دیکھ کر نوری نت کے انداز میں کہے گا۔”نواں آیا ایں سوہنیا؟“
الیکشن میں اگر فلمیں ہی چلیں گی اور یہ فلمیں بڑھکوں والی فلمیں ہوئیں تو پارٹی نعرے اس طرح کے ہوں گے”اوووو بکری!!!“
ضمنی انتخابات کے ٹریلر میں جو سین دکھائے گئے ہیں ان کو ابھی سے سینسر کے زد میں آنا چاہئے کیوں کہ مولاجٹ کا رولا دونوں طرف سے مچا تو پھر ملک میں ایک تباہی آئے گی۔ الیکشن کی فلم کو ایک اصلاحی اور گھریلو فلم ہونا چاہئے جس کو بھائی بہن بیٹیاں سب آسانی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکیں۔ نہ اسے پاپ گانوں اور ناچوں والی فلم ہونا چاہئے کہ یہ ہماری تہذیب نہیں اور نہ ہی اسے کوئی کامیڈی فلم ہونا چاہئے کہ ہم ماضی کے انتخابات میں بہت سا مسخرا پن دیکھ چکے ہیں اور ان سب کے نتائج ملک کو بھگتنے پڑے ہیں۔ انتخابات کی فلم ایسی ہو جو ملک کے عوام کے لئے خوشیاں لائے اور پُرامن انداز میں لائے۔ انتخابات میں نہ جھوٹے وعدے ہوں‘ نہ جھوٹی قسمیں ‘ نہ انٹ شنٹ محاورے ہوں، نہ الٹی سیدھی حرکتیں۔ عوام سے سچ بولیں اور اتنا وعدہ کریں جس پر عمل بھی کرسکیں۔
تازہ ترین