• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جعلی ڈگریوں کی تصدیق، ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کردی

اسلام آباد (وسیم عباسی) ایسے موقع پر جب ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ اس نے ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد کی ڈگری کی بے توجہی کی وجہ سے تصدیق کی، ایف آئی اے نے ایسے متعدد کیسز کی تحقیقات شروع کردی ہے جہاں ادارے نے طاقتور شخصیات کی جعلی ڈگریوں کی تصدیق کی۔ اس سال جنوری میں ایف آئی اے نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے تصدیق کنندہ شعبے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو جعلی ڈگری کی تصدیق کرنے کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔ ایف آئی اے کی ایف آئی آر 2018/01کے مطابق ایف آئی اے کوئٹہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر نعمان اشرف نے 2006میں غیر تسلیم شدہ این آئی سی ای یونیورسٹی کراچی سے حاصل کردہ جعلی ڈگری کی بنیاد پر نوکری حاصل کی۔ اگرچہ یونیورسٹی مقرر کردہ قانونی معیار پر پوری نہیں اترتی تھی تاہم ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے عابد حسین نے اپنے اختیار کا غلط استعمال کرتے ہوئے ڈگری کی تصدیق کردی۔ اس معاملے میں ایف آئی اے نے اپنے ہی ڈپٹی ڈائریکٹر اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے افسر کو 2جنوری 2018کو گرفتار کیا۔ اس کیس کی تفتیش ایف آئی اے کے کاشف ریاض اعوان کر رہے ہیں۔ دی نیوز سے گفتگو میں کاشف ریاض اعوان کا کہنا تھا کہ ملزمان اس وقت ضمانت پر ہیں تاہم تحقیقات جاری ہیں۔ 4مارچ 2015کو دی نیوز میں شائع احمد نورانی کی خبر کے مطابق ایف آئی اے ایسے متعدد کیسز کی تحقیقات کر رہا ہے جس میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے جعلی ڈگریوں کی تصدیق کی۔ اس امر کی بھی تصدیق ہو چکی ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ان جعلی ڈگریوں کی میڈیا کے رابطے کرنے پر دوبارہ تصدیق کی تاکہ انکی سچائی ثابت کی جاسکے۔ اراکین پارلیمنٹ کی ڈگریوں کی تصدیق کے نہ صرف اسکینڈل بنے بلکہ الزامات بھی لگے لیکن جب بات بیوروکریٹس اور بابووں کی آتی ہے تو معاملے کو پالیسی تبدیل کر کے جادوئی انداز میں طے کردیا جاتا ہے۔ تبدیل شدہ پالیسی کے تحت اہلکار اپنے محکمے کے بجائے خود براہ راست ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے ڈگری کی تصدیق کرواسکتے ہیں۔ تاہم ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی ڈائریکٹر میڈیا عائشہ اکرام نے اس تاثر کی تردید کی کہ کوئی بھی مسئلہ اس پالیسی کی تبدیلی سے پیدا ہوا۔ ان کے مطابق بہت سے افراد اس لئے اپنے اداروں اور محکموں کو تصدیق کیلئے ڈگری نہیں دیتے کہ کہیں یہ گم نہ ہوجائیں، ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے یہ سہولت فراہم کی کہ خود دستاویزات لے کر حاضر ہوں اور ڈگری کی تصدیق کروائیں۔ ان کا یہ موقف اس امر کی وضاحت نہیں کرتا کہ جب محکمہ ڈگری کی تصدیق کیلئے رابطہ کرے گا تو کیا ہوگا۔ دی نیوز نے 8اپریل 2014میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو بعض مشکوک کیسز کے ٹکٹ نمبر جمع کرانیکی تاریخوں سمیت بھیجے اور کمیشن سے رد عمل مانگا۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے 11اپریل 2014کو دئے گئے جواب میں ڈیٹا دینے سے انکار کرتے ہوئے ان افراد کی شناخت مانگی جن کی ڈگریوں کی تصدیق کی گئی تھی۔ جن ڈگریوں کی نشاندہی کی گئی تو جعلی تھیں اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے غلط طور پر ان کی تصدیق کی تھی جبکہ یونیورسٹیوں کے رزلٹ گزٹ میں ظاہر کئے اعداو شمار بھی مختلف تھے۔ کچھ ماہ بعد جب نئی پالیسی کا نفاذ کیا گیا اور ملازمین سے کہا گیا کہ وہ ذاتی طور پر اپنی ڈگریوں کی تصدیق کروالیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے حیرت انگیز طور پر ان ڈگریوں کی تصدیق کردی۔ دی نیوز نے ابتدائی اطلاع پر 23جولائی 2014کو خبر دی۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن ثبوت دینے کے باوجود اپنے ملازمین کی جانب سے ڈگریوں کی تصدیق کے عمل کے اعتراف سے انکاری تھا۔ غیر رسمی گفتگو میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے اعلیٰ افسران ڈگری تصدیق کے معاملات میں غلط کاریوں کی باتیں کرتے تھے۔تاہم جب ایف آئی اے نے ان کیسز کی تحقیقات شروع کی تو ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے اعتراف کیا کہ اس نے بعض جعلی ڈگریوںکی تصدیق کی ہے۔ دی نیوز نے 2015میں مندرجہ ذیل چار سوالات ہائیر ایجوکیشن کمیشن بھیجے تھے۔ سوال نمبر1۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن 29 اپریل 2013کے خط کے مطابق جو سید عاصم حسین، ڈائریکٹر جنرل اے اینڈ اے کی جانب سے بھیجا گیا، کمشین نے چین کی ایک یونیورسٹی سے حاصل کردہ پی ایچ ڈی کی ڈگری کی تصدیق کی۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے طریقہ کار کے مطابق جب اعلیٰ ڈگری کی تصدیق کی جاتی ہے تو ذیلی ڈگریوں کا ریکارڈ بھی رکھا جاتا ہے۔ برائے مہربانی پی ایچ ڈی ہولڈر کی دیگر ڈگریوں کا ریکارڈ فراہم کیا جائے۔ جواب:۔ 1977میں انٹر پاس کیا اور 1979میں بی ایس سی آنرز پاس کیا۔ تشریح:۔ابتدائی طور پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے اس معلومات کو دینے سے انکار کیا اور تصدیق کی کہ تمام ریکارڈ جانچا گیا۔ تاہم جب کمیشن نے دی نیوز کے ساتھ ڈیٹا شئیر کیا اور جب ادارے کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی کہ بی ایس سی آنرز چار سالہ پروگرام ہے نہ کہ دو سالہ، تو ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے اعتراف کیا کہ یہ مشکوک کیس ہے اور اس میں گہری جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔سوال نمبر 2۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے سیریل نمبر 443635بتاریخ 15جون 2011کو ایک ڈگری کی تصدیق کی ۔ کیا ادارے کو اطمینان ہے کہ جس شخص کی ڈگری کی تصدیق کی گئی اس کی تمام ڈگریاں اصل ہیں اور جعلی نہیں۔

تازہ ترین