• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالتی نظام کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ ’’لاہور میں شام کے اوقات میں پہلی عدالت لگائی گئی ‘‘۔جسٹس ثاقب نثار اورجسٹس محمد انوار الحق کو مبارک باد۔یقیناً اب برسوں کے مقدمات مہینوں میں اپنے منطقی انجام تک پہنچیں گے۔انصاف کی رفتار تیز تر ہوجائے گی۔داداکے مقدمہ کا فیصلہ پوتا نہیں سنے گا۔’ ’تاریخ میں پہلی بار پاک چین تجارت کا حجم 150ارب روپے سے بڑھا کر 351ارب روپے کردیا گیاہے‘‘۔توقع ہے کہ اب پاکستانی مصنوعات بھی چین کی مارکیٹ میں دکھائی دیں گی۔’’پہلی بار چین میں روپے کو ڈالر کے متبادل قرار دے دیا گیا یعنی اب چین روپے میں کاروبار کرے گا اور پاکستان یوآن میں ‘‘۔یعنی پاکستانیوں کو چینیوں کے ساتھ لین دین کےلئے ڈالر کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ پاکستان میں ڈالر کی اہمیت میں کمی واقع ہوگی۔’’پہلی بار پانامہ کیس میں ملوث تمام پاکستانی سرمایہ داروں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی ہے۔تقریباً تین سو لوگوں کو نوٹس بھیجے جا چکے ہیں ‘‘۔یہ وہ مقدمہ ہے جس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سزا ہو چکی ہے اور کوئی سرمایہ دار کیسے اس مقدمہ سے بچ سکتا ہے۔’’پہلی بار کسی وزیرا عظم نے اپنے وزیروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا‘‘۔وزیروں کے متعلق آنے والی شکایات پر غور کیا گیا۔ان میں سے کئی شکایتوں پر تحقیقات کا حکم بھی جاری ہوا۔

میں خوش ہوں کہ اچھی خبروں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔اچھے اچھے بیانات بھی سنائی دینے لگے ہیں۔ فیاض الحسن چوہان نے کہا ’’دھرنے والے جہاں جہاں بیٹھے تھے، ٹریفک جام کرکے پرامن تھے لیکن دیگر مقامات پر جو کچھ ہوا اور جن لوگوں نے مار دھاڑ کی اور املاک کونقصان پہنچایا، ان کوچن چن کرگرفتار کیا۔ بلوائیوں میں ملک دشمن عناصر اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگ شامل ہیں جن میں مسلم لیگ ن کے کارکن آگے آگے تھے ان کے خلاف کارروائی ہوگی، ان کو قانون کے شکنجے میں اتنا کسا جائے گا کہ دوبارہ وہ کبھی ایسی حرکت نہیں کریں گے۔‘‘

یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ بسیں، کاریں اور موٹر سائیکلیں جلانے والوں میں سے زیادہ تر کا تحریک لبیک سے کوئی تعلق نہیں تھا۔دھرنے کے تین دنوں میں یہ فسادات کی آگ بھڑکانے والےکوئی اورتھے بلکہ دوسری سیاسی پارٹیوں کے افراد تھے۔اس وقت حکومت اٹھارہ سو سے زائد افراد کو گرفتار کر چکی ہے جو جلائو گھیرائو میں ملوث تھے اور معاہدے کے مطابق تحریک لبیک کے تمام گرفتار شدہ لوگ حکومت رہا کرچکی ہے۔ایک سوال یہ بھی ہے یہ جو تحریک لبیک کے لوگ گرفتار کئے گئے تھے انہوں نے اگر جلائو گھیرائو میں حصہ نہیں لیا تھا تو انہیں کیوںگرفتار کیا گیا تھا۔اس سوال کے جواب کی جستجو میں پتہ چلا کہ انہیں پولیس نے گھروں سے اٹھا لیا تھا کہ کسی وقت یہ بھی احتجاج کا حصہ بن سکتے ہیں کیونکہ تحریک لبیک سے متعلق ہیں۔

اب باقی سیاسی پارٹیاں چاہتی ہیں کہ تحریک لبیک کی لیڈر شپ کے خلاف کارروائی کی جائے کیونکہ انہوں نے اُن کے لوگوں کو بغاوت پر آمادہ کیا۔ایسی تقاریر کیں جن کی وجہ سے ان کی پارٹی کے کارکنوں نے توڑ پھوڑ کی۔یہاں بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان کےباغیانہ خیالات سُن کر اگران کے اپنے کارکنوں نے توڑ پھوڑ نہیں کی تو دوسری جماعتوں کے کارکن اُن سے اتنے متاثر کیسے ہو گئے۔دوسرا تحریک لبیک کے قائدین نے کہاں کہا کہ گاڑیوں کو آگ لگا دو یا توڑ پھوڑ کرو۔یہ سازش یقیناًَحکومت مخالف پارٹیوں نے تیار کی،تحریک لبیک کو سامنے رکھ کر ملک میں جلائو گھیرائوکیا گیا، پورے ملک کو بند کر دیا گیاتاکہ حکومت نہ چل سکے اور ہم پر الزام بھی نہ آئے۔اب جب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوا تو سب شور مچا رہے ہیں۔کہا جارہاہے کہ تحریک لبیک کےقائدین قصائی ہیں اور اُن کے ہاتھ میں ٹوکا ہے اس لئے حکومت اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہی اور اردگرد کے دکانداروں کو پکڑ رہی ہے۔ بھئی کیوں نہ گرفتار کرے جب آگ لگانے والے، توڑ پھوڑ کرنے والے ارد گرد کے دکاندار تھے تو گرفتار انہی نے ہونا ہے۔ چاہے وہ کوئی بھی ہوں۔

یہ جتنے لوگ گرفتار کئے گئے انہیں ویڈیوز اور تصویروں کی مدد سے پکڑا گیا ہےاور ان کی گرفتاری پر تحریک لبیک کوکوئی اعتراض نہیں۔اس کامطلب یہی ہوا کہ ان کا تحریک لبیک سے کوئی تعلق نہیں اور اگر کوئی ہے بھی تو تحریک کے قائدین چاہتے ہیں انہیں بھی سزا ملے کیونکہ قائدین نے اپنے کارکنوں کو توڑ پھوڑ سے منع کیا تھا۔اب حکومت انہیں انتہائی سخت سزائیں دلوانے پر تلی ہوئی ہے۔کچھ پارٹیوں کی لیڈر شپ کو اس بات کا خطرہ بھی ہے کہ کہیں اُن کے گرفتارشدہ کارکنوں نے پولیس کے سامنے یہ بیان دے دئیے کہ انہوں نے یہ توڑ پھوڑاپنے لیڈروں کے کہنے پر کی تھی تو انہیں بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے۔مولانا فضل الرحمٰن کی گرفتاری کے واضح امکانات موجود ہیں۔نون لیگ کے کچھ لیڈر بھی اِس جرم میں گرفتار ہو سکتے ہیں۔اطلاعات کے مطابق توڑ پھوڑ کرنے والوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ ہمیں اپنی پارٹی لیڈرشپ کے علاوہ میڈیاکے کچھ لوگوں نے بھی توڑ پھوڑ پر اکسایاتھا۔

بہر حال الحمدللہ کہ معاملات کچھ نہ کچھ کنٹرول میں آتے جارہے ہیں۔ملک ایک صحیح سمت روانہ ہو چکا ہے۔کرپشن کے خلاف جنگ جاری ہے۔عمران خان کی حکومت سے عوام کو سب سے بڑی توقع یہی ہے کہ یہ حکومت اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ کردے گی اب کوئی شخص چوری کے مال پر عزت دار نہیں بن سکے گا۔ مجھ سے گزشتہ روز ایک دوست نے سوال کیا کہ ’’تم بڑی تبدیلی کے نعرے لگاتے تھے بتائو کیا تبدیلی آئی ہے ‘‘ تو میں نے کہا ’’گزشتہ حکومت میں ہر موڑ پر دوچار ایسے لوگ مل جاتے تھے جو کہتے کہ اتنے پیسے دو اور اپنا کام کرا لو۔اب تمہیں پورے ملک میں کہیں کوئی ایسا نہیں دکھائی دے گا جو یہ دعویٰ کر سکے کہ میں کسی وزیر یا مشیر کو رشوت دے کر کوئی اور کام کرا سکتا ہوں۔ کیا یہ تبدیلی نہیں۔ جہاں تک کرپشن کے مکمل خاتمہ کا تعلق ہے تو ان شاءاللہ جلد وہ بھی مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دی جائے گی۔بس تھوڑا سا بیوروکریسی پر گرفت کرنے کی ضرورت ہے جیسے ہی بیورو کریسی کے لوگوں کی آمدن اور اثاثوں کی تحقیقات کا کام نیب نے شروع کیا۔کرپشن میںاور بھی کمی واقع ہوجائےگی اور یہ سلسلہ چیئرمین نیب چند روز میں شروع کرنے والے ہیں۔سنا ہے کہ پنجاب میں اینٹی کرپشن کے ڈی جی حسین اصغر بھی بڑے ایمان دار افسر ہیں اور پرانے تمام کیسز کو نئے سرے سے وزٹ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔تاکہ وہ لوگ جو گزشتہ حکومت میں اپنے تعلقات کی بدولت اپنے جرائم چھپانے میںکامیاب ہو گئے تھے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔

تازہ ترین