• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
لندن میٹرو پیر 12نومبر صفحہ اول پر1918- 2018، NEVER FORGETکی سرخی جمی ہے ۔
آخر ایک صدی کے واقعات کو بھلایا بھی کیسے جاسکتا ہے ۔ جبکہ اندر صفحہ 2 پر ایک گروپ تصویر ہے جس کا کیپشن eye catching ہے Differences forgotten یعنی اس حوالے منعقدہ تقریب میں سیاسی نظریات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے موجودہ وزیراعظم تھریسا مے، اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربائین کنزرویٹو پارٹی کے سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون، لیبر پارٹی کے سابق وزرائے اعظم گورڈن براؤن اور ٹونی بلیئر اور کامنز میں ایس این پی لیڈر این بلیک فورڈ اپنے ان لوگوں کی یاد میں احتراماً کھڑے ہیں۔ جنہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ کاش اپنے ملک میں بھی قومی معاملات پر ہی سیاست دان یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی روایت شروع کرسکیں ۔ دوسرا منظر بھی اس سے ملتا جلتا ہے فرانس میں 70ملکوں کے لیڈران جمع ہوئے ان کے اکٹھ کا مقصد بھی اپنے اپنے جانثاران کو خراج تحسین کرنا تھا وہاں پر فرنچ صدر نے ایک درست پیغام دیا کہ لیکن بعض اسے شاید معنی خیز قرار دیں کیونکہ امریکی صدر کے خیالات قوم پرست سمجھے جاتے ہیں اور ان کی موجودگی میں ایسے خیالات کا اظہار ۔ یقیناً حب الوطنی اور قوم پرستی میں فرق ہے جیسا کہ فرانس کے صدر نے کہا۔ حد سے بڑھی ہوئی قوم پرستی بھی عالمی جنگ کی ایک بنیاد تھی ۔11نومبر اس روز دن کے 11بجے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی کہ اس روز ویسٹرن فرنٹ پر توپیں خاموش ہوئی تھیں پہلی جنگ عظیم کی جنگ بندی کی دستاویز پر دستخط کئے جانے کے دن کی یاد یوں تو ہر سال منائی جاتی ہے لیکن اس سال اس واقعہ کو ایک صدی گزر گئی ہے جس باعث پہلے سے زیادہ جوش و خروش کے مظاہرے دیکھنے میں آئے زندہ اقوام کا تو یہ طرہ امتیاز ہے کہ وہ ماضی کو نہ صرف سیلبریٹ کرتی ہیں اس سے سبق بھی حاصل کرتی ہیں اور ان کے احتجاج میں بھی ایک طرح کا حسن ہوتا ہے، ہماری طرح بجائے اپنی ہی املاک کی توڑ پھوڑ، گاڑیوں کو بلاک کرنے بلکہ نذر آتش کرنے اور زندگی کا پہیہ جام کرکے اپنی مملکت کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے یہ کام کو ہر صورت جاری رکھتے ہیں اور صرف دو منٹ کی خاموشی۔ اسی طرح ان کا ایک عام لیبر بھی اپنے تاریخ و جغرافیہ سے کما حقہ آگاہ جبکہ اپنی یہ حالت کہ برطانیہ میں رہ کر بھی تاریخ کے مضمون میں ہی داخلہ لینے سے رہے ۔ لوٹن میں مقیم ایک علمی شخصیت بی سی سی آئی میں جو ملازم بھی رہے میری مراد سید حیدر عباس سے ہے جنہیں سید ضمیر جعفری جیسی نابغہ روزگار ہستی کی صحبت میں بچپن کے بعض لمحات گزارنے کا موقع ملا، انہوں نے توجہ دلائی ہے کہ دی ریس ایتھنیسٹی اینڈ ایکوالٹی ورکنگ گروپ کی رپورٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ برطانیہ میں اقلیتی طبقہ سے متعلق محدودے چند تاریخ دان ہیں اور اقلیتی طلبہ کی اس مضمون میں بھی تعداد صرف 11فیصد ہے یہ صورت حال تمام اقلیتی گروپوں کی ہے ایک صدی مکمل ہونے پر درسگاہوں میں بچے اساتذہ سے یہ استفسار کرتے ہیں کہ آخر پہلی جنگ عظیم شروع کیسے ہوئی ؟ تو ہمارے جو لوگ ملٹری ڈیموکریسی کے فلسفے کے حمایتی ہیں۔ ان کی اطلاع کے لئے ۔ ایک ٹرم Acronym اساتذہ اکثر استعمال کرتے ہیں جس کے ذریعے جنگ عظیم اول کی بڑی وجوہات کو بچوں پر واضح کرتے ہیں وہ ہے۔
.M.A.N.I.A جو پہلا حرف ایم ہے اس سے مراد ملٹری ازم ہے کہ جس نے اس خونی جنگ کے آغاز میں بنیادی کردار ادا کیا۔ جبکہ فوری یا شارٹ ٹرم وجہ بنی بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ میں اس موضوع پر کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر سر رچرڈ ایون کی تحقیق کے مطابق پہلی جنگ عظیم شروع کرنے میں سربیا کا سب سے بڑا کردار تھا۔ اس کے نیشنلزم اور توسیع پسندانہ سوچوں کا نتیجہ اس جنگ کی شکل میں نکلا ۔ خیال رہے کہ سربیا دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا تھا۔ لیکن آسٹریا اور ہنگری بھی پہلی جنگ عظیم کی ابتدا کے ذمہ داروں میں سے ہیں کہ جنہوں نے تختِ ہپیس برگ کے وارث فرانز فرڈینینڈ کی ہلاکت پر جو ردعمل ظاہر کیا تھا وہ جنگ عظیم اوّل کی شروعات میں سے ایک تھا۔ اس تاریخ دان کی رائے میں فرانس نے روس کے جارحانہ رویہ کی حوصلہ افزائی کی اور جرمنی نے آسٹریا کی حمایت کی جبکہ برطانیہ 1910تک دنیا کی بڑی بحری طاقت تھا اور بعض مورخین کے مطابق وہ جرمنی کے بحری قوت حاصل کرنے کی کوششوں سے خائف تھا اس تناظر میں بعض تاریخ دان یہ رائے رکھتے ہیں کہ کسی ایک ملک ہر جنگ عظیم اوّل شروع کرنے کی ذمہ داری نہیں تھونپی جاسکتی لیکن جرمنی اگر شاید وہ واحد ملک تھا جو اس عالمی جنگ سے براعظم یورپ کو بچا سکتا تھا یہی رائے بلکہ خود ایک جرمن تاریخ دان سر میکس کی بھی بی بی سی سروے میں سامنے آئی تھی، قصہ ایک صدی کا ہے دوستو جسے ایک کالم میں سمویا نہیں جاسکتا، سو اسی پر اکتفاکرتے ہیں۔
تازہ ترین