1977 کے عام انتخابات کا اعلان ہوتے ہی ملک کی سیاسی صورت حال میں اچانک تبدیلی آگئی،اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی وجہ سے بھٹو مخالف مہم میں جان پڑگئی۔ لوگوں کو ایک متبادل قیادت نظرآنے لگی۔ ان دنوں ائرمارشل بہت مقبول لیڈر تھے ان کو قومی اتحاد کی کامیابی کی صورت میں مستقبل کا وزیراعظم سمجھا جارہا تھا وہ نوجوانوں میں بھی پذیرائی رکھتے تھے۔ کالج کے ماحول میں بھی الیکشن ہی موضوع بحث رہتا جس جگہ ہم طلباء اکھٹے ہوتے یا ٹولیوں کی صورت میں کلاسوں کے پریڈ کے بعد لیکچر روم کے باہر کھڑے ہوتے الیکشن کا ہی تذکرہ ہوتا، اگرچہ بھٹو صاحب طلباء میں مقبول تھے لیکن ان کے انداز حکومت کی وجہ سے ان کی مخالفت کے آثار بھی ہرجگہ نظرآتے تھے۔ مذہبی رحجان رکھنے والے طلباء ان کے بے حد خلاف تھے۔ شہری طبقات میں دکاندار، تاجر اور وکلاء حضرات بھٹو صاحب کے مخالف قومی اتحاد کی حمایت کررہے تھے۔میں نے دکانداروں اور کاروباری لوگوں کو اس الیکشن میں بھٹو صاحب کے خلاف بہت متحرک دیکھا لیکن شہری طبقہ جس جوش و خروش سے سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہوا وہ ایک نیا تجربہ تھا۔ آپس کے اختلافات مٹ گئے تھے اور یوں لگتا تھا کہ سب باہم شیروشکر ہوگئے ہیں۔بریلوی حضرات دیوبندی مسلک کی مسجدوں میں آنے جانے لگے اور اجلاسوں میں شریک ہونے لگے۔ دیوبندی حضرات بھی اہلسنت بریلوی کی مساجد میں بلا تکلف آتے۔ ان دنوں دیوبندی حضرات سیاسی جلسوں میں اونچی اونچی آواز میں نعرۂ رسالت لگاتے ۔ میں نے جلال پور پیروالا ایک جوشیلے دیوبندی مولوی صاحب کو پرجوش انداز میں نعرۂ رسالت اور نعرۂ حیدری لگاتے ہوئے دیکھا تو خوشی ہوئی اور اندازہ ہوا کہ ’’ذرا نم ہو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ ۔ مولانا مفتی محمود نے حضرت داتا گنج بخش کے مزار اقدس پر حاضری دی اور ان کو وہاں مزار کی چادر پیش کی گئی۔ اس سے بہت اچھا تاثر ملا اور لوگوں میں یہ پیغام ہوا کہ اہل سنت والجماعت کے حوالے سے اپنے آپ کو متعارف کرانے والوں کا آپس میں سیاسی اتحاد ہی نہیں ہوا بلکہ ان کے دل میں بھی آپس میں مل گئے۔ لیکن بھٹو صاحب کے پاس مولانا کوثر نیازی کی صورت میں ایک ایسا مذہبی چہرہ موجود تھا جو مسالک کے اختلافات جانتا تھا کیونکہ وہ پہلے پیرصاحب سیال شریف کے آستانے سے روحانی طور پر منسلک تھے پھر جماعت اسلامی سے ہوتے ہوئے بھٹو صاحب کے قریب ہوگئے۔ اور اتنے قریب ہوگئے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں وزیراطلاعات و نشریات بنائے گئے لیکن انہوں نے بھٹو صاحب کو قائل کرلیا کہ پاکستان میں مذہبی امور اور حج و اوقاف کی علیحدہ وزارت ہونی چاہئے۔ وفاقی وزارت بنی اور اس کے پہلے وزیرمولانا کوثرنیازی ہی بنے۔ شنید ہے کہ بھٹو صاحب تو انہیں کسی اور نام سے پیار سے پکارتے تھے لیکن مولانا کوثرنیازی کا مذہبی حلقوں میں ایک نام تھا۔ وہ عمدہ نثرلکھتے تھے، شاعر تھے اور خطیب تھے۔ خطیب تو دھیمے لیکن ان کے الفاظ کا چنائو اور فقروں کی ساخت اور جملوں کی کاٹ ایسی ہوتی تھی کہ مخالف فریق بھی لطف لئے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ ان کی تقریریں ایک ادبی رنگ لئے ہوئے ہوتی تھیں۔ لیکن وہ اس میں شائستگی برقرار رکھتے تھے۔ میں ان کی تقریر دل چسپی سے سننےکے لئے جاتا تھا۔ ملتان میں ایک جلسے میں انہوں نے جماعت اسلامی کے صالحین پر اپنے انداز میں تنقید شروع کی تو سٹیج سے کسی نے نعرہ لگایا ’’فاتح مودودیت‘‘ کوثرنیازی فوراًپیچھے مڑے اور سختی سے نعرہ لگانے والے کو ٹوک دیا۔ اور ایسے نعرے لگانے سے منع کیا۔ الیکشن کی مہم کے دوران وہ شجاع آباد خطاب کرنے کے لئے آئے تو اپنے دوستوں کے ساتھ میں بھی انہیں سننے کے لئے چلا گیا۔ میرے دوست سعید مرزا سٹیج سیکرٹری تھے۔ ایک شخص کو سٹیج پر لایا گیا اور اس نے ایک مقامی مولانا صاحب کے کردار کے بعض پہلو بیان کرنا شروع کئے توکوثرنیازی نے روک دیا اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ لیکن اپنی تقریر میں انہوں نے قومی اتحاد کے لیڈران کو اس طرح تنقید کا نشانہ بنایا کہ ہر طرف قہقہے گونج اٹھے۔ انہوں نے کہا کہ بنی اسرائیل میں نو فسادی لیڈر تھے اور قرآن میں اس کا ذکر ہے کہ یہ تو لیڈر زمین پر فساد پھیلاتے رہتے تھے۔ان کا اشارہ قومی اتحاد کے لیڈران کی طرف تھا جن کی تعداد نو تھی۔ انہوں نے کہا کہ خانۂ کعبہ گرانے کے لئے آنے والے بادشاہ ابرہہ کی فوج کے آگے نو ہاتھی تھے۔ لیکن میں مولانا مفتی محمود کو ابرہہ کا ہاتھی نہیں کہتا اور نہ ہی مولانا شاہ احمد نورانی کو قومی اتحاد کی ’’ملکۂ ترنم‘‘ کہتا ہوں لیکن یہ لوگ مجھے طرح طرح کے ناموں سے کیوں پکارتے ہیں۔ انہوں نے قومی اتحاد کی جماعتوں کے سابقہ انتخابی نشانوں اور ان کے پرچموں کے حوالے سے بھی اپنے انداز سے بات کی۔ کوثرنیازی کہنے لگے کہ مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت کا جنت کی چابی والا انتخابی نشان کہاں گیا (1970ء کے الیکشن میں جمعیت علماء پاکستان کا انتخابی نشان چابی تھا)اوران کا سبز گنبد والا پرچم مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔ جماعت اسلامی کا عدل و انصاف والا ترازو بھی نظرنہیں آتا۔ اب مجھے دن کو نو ستارے ہی نظرآتے ہیں۔ مولانا کوثر نیازی کی تقاریر نے پیپلزپارٹی کی مہم میں جان ڈال دی تھی اس کے جواب میں رفیق احمد باجوہ نے بڑے موثر انداز میں اپنا انداز خطابت سراہا اور بہت جلد ملکی سیاست میں ایک ممتاز اور باوقار مقام حاصل کرلیا۔ کوثرنیازی کہاں ہار ماننے والے تھے ایک دن اپنے خطاب میں قومی اتحاد کے لیڈران کو چیلنج کردیا اور کہا کہ اگر ان کے دل آپس میں ملے ہوئے ہیں تو یہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک دوسرے کو کافر اور بدعتی کہتے ہیںاور قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف متحد ہوگئے ہیں جس کے جواب میں مولانا مفتی محمود نے مولانا شاہ احمد نورانی کے پیچھے نماز پڑھ لی ہے۔ کوثر نیازی نے اگلے دن بیان دیا کہ مجھے پتہ ہے کہ مفتی محمود کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں۔اگر مولانا نورانی مفتی محمود کے پیچھے نماز پڑھ لیں تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے جلسہ عام میں کہا کہ کوثرنیازی کو یہ چیلنج نہیں دینا چاہیے تھا۔ ملااقتدار کے لئے کچھ کسی کےپیچھے بھی نماز پڑھ لیں گے لیکن مولانا نورانی نے مفتی محمود کے پیچھے نماز نہ پڑھی تھی نہ پڑھی اس طرح مولانا کوثرنیازی کی سیاست بچ گئی۔
برطانیہ اور یورپی یونین
نسیم صبح … کونسلر محمد ایوب
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اعلان کیا ہے کہ یورپی یونین کا حصہ رہنے یا اس سے نکل جانے سے متعلق ریفرنڈم رواں سال 23جون کو کروایا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 23جون کی شام کو فیصلہ ہو جائے گا کہ برطانوی عوام کیا چاہتے ہیں؟ قبل اس کے کہ میں یورپی یونین میں رہنے یا نہ رہنے کے برطانیہ پر جو اثرات پڑیں گے ان پر اپنی معروضات پیش کروں، ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنی کمیونٹی کی معلومات کے لئے برطانیہ جو کہ ہمارا ملک ہے، جس کے ساتھ ہمارا اور ہماری نسل کا مستقبل جڑا ہوا ہے کے متعلق مختصر تعارف کرادوں۔ برطانیہ ایک آئینی بادشاہت ہے جو دولتِ مشترکہ کے 16 ممالک کی طرح ملکہ ایلزبتھ دوم کو اپنا حکمران تصور کرتی ہے ۔ برطانیہ جی ایٹ کارکن اور انتہائی ترقی یافتہ ملک ہے۔ اس کی معیشت دنیا کی پانچویں اور یورپ کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے۔ جس کا اندازہ 2.2 کھرب امریکی ڈالرز ہے۔ برطانیہ آبادی کے لحاظ سے یورپی یونین کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے جس کی آبادی 60.2 ملین ہے۔ برطانیہ نیٹو اور اقوام متحدہ کا بانی رکن اور سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے۔برطایہ دنیا کی بڑی جوہری طاقتوں میں سے ایک ہے۔برطانیہ نے یکم جنوری 1973ء میں یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی۔ برطانیہ چینل سرنگ کے ذریعے فرانس سے منسلک ہے۔ جو رودبار انگلستان کے نیچے سے گزرتی ہے۔ جب کہ شمالی آئرلینڈ جمہوریہ آئرلینڈ کے ساتھ ملتا ہے۔ اب یورپی یونین کی اہلیت، اس میں رہنے یا بالکل جانے کے برطانیہ پر کیا اثرات مرتب ہونگے،پر بات کرتے ہیں۔ یورپی یونین برے اعظم یورپ کے 28ممالک کا اتحاد ہے۔یورپی یونین کے سیاسی و اقتصادی طور پر متحد ہونے کی اہم ترین وجوہات درج ذیل ہیں۔ (1) پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے ممالک کو کسی تیسری جنگ سے بچانا(2) ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے برابر اقتصادی قوت بننے کیلئے مشترکہ اقتصادی قوت تخلیق کرنا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے ممالک پرامن انداز میں رہنا اور ایک دوسرے کی معیشت کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ 1952ء میں مغربی جرمنی، فرانس، اٹلی، بلجیم، نیدرلینڈ اور لکسمبرگ نے کوئلے اور سٹیل کی واحد یورپی کمیونٹی تشکیل دی 1957میں اس کے رکن ممالک نے اطالوی دارالحکومت روم میں ایک اور معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے یورپی اقتصادی کمیونٹی تشکیل دی۔ اب یہ کمیونٹی کوئلے، سٹیل اور تجارتی کیلئے تھی بعدازاں اس کا نام تبدیل کرکے یورپی کمیونٹی رکھ دیا گیا ہے۔ 1992ء کے معاہدے ماسٹر چٹ کے تحت اس کا نام یورپی یونین رکھا گیا۔ اب یہ ممالک نہ صرف سیاست اور اقتصادیات میں بلکہ دولت، قوانین اور خارجی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ 2002ء میں 12رکن ممالک نے اپنی قومی کرنسیوں کی جگہ یورو کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے 2004ء میں 10اور 2007ء میں 2نئے ممالک نے یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی۔ 2014ء میں کروشیا نے شمولیت اختیار کی اب یورپی یونین کے کل ارکان کی تعداد 28ہے۔یوںتوایک عرصےسے برطانیہ میں یہ بحث جاری ہے کہ برطانیہ کو یورپی یونین کا حصہ رہنا چاہئے یا نہیں۔چند دن قبل برطانوی وزیراعظم نے ریفرنڈم پر بات کرکے برطانیہ کی سیاست میں ایک بھونچال سا پیدا کر دیا ہے۔ وزیراعظم کے بیان نے برطانیہ کی سیاست میں ہل چل پیدا کر کے ہر دو مکتبہ فکر کی دوڑیں لگا دی ہیں۔لیبر پارٹی کا تو شروع سے ہی یہ موقف رہا ہے کہ برطانیہ کا یونین حصہ رہنا ہی قومی مفاد میں ہے اس سلسلہ میں لیبر ایم پی ایلن جانسن پہلے ہی متحرک ہیں کہ برطانیہ کو کسی حالت میں بھی یورپی یونین سے علیحدہ نہیں ہونا چاہئے یورپی یونین کے حوالے سے برطانوی وزیراعظم کا حالیہ بیان بہت اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے اپنی کابینہ سے ملاقات کے بعد انکشاف کیا کہ رواں سال 23جون کو یورپی یونین کا حصہ رہنے یا اس سے نکل جانے سے متعلق ریفرنڈم ہو گا وزیراعظم نے بتایا کہ یورپی یونین سے معاہدے سے برطانیہ کو خصوصی درجہ ملے گا۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ اس ریفرنڈم میں ہم اپنی زندگی کا اہم فیصلہ کریں گے اور وہ یہ کہ یورپی یونین کا حصہ رہنے کی مہم چلائیں گے۔ وزیراعظم برطانیہ کے اس تاریخی اعلان کے باوجود کابینہ واضح طور پر دو حصوں میں بٹی نظر آرہی ہے۔ کابینہ کی اہم رکن وزیر داخلہ تھریسامے کا شمار ان وزراء میں ہوتا ہے جو یورپی یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ہیں جبکہ کابینہ کے ایک اور اہم رکن وزیر قانون مائیکل گوو کا کہنا ہے کہ وہ یورپی یونین کو چھوڑنے کے حق میں ووٹ ڈالنے کی مہم چلائیں گے۔ وزیر اعظم نے اپنے موقف کی تائید میں ایک تاریخ سا جملہ کہا ہے کہ یورپی یونین کو چھوڑنا ’’اندھیرے میں چھلانگ لگانےLeap in the Dark‘‘ کے مترادف ہوگا۔ اس سے قبل ڈیوڈ کیمرون نے کہا تھا کہ یورپی یونین کے رہنمائوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں ایک ایسا معاہدہ طے پا گیا ہے جس سے برطانیہ کو خصوصی درجہ حاصل ہوگا۔ قرائن اور تجزیئے بتا رہے ہیں کہ برطانوی عوام یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ہی ووٹ دے گی۔ مگر دیکھنا یہ ہےکہ اگر خدانخواستہ عوام کا فیصلہ اس کے برعکس آگیا تو برطانیہ پر اس کے کیا اثرات مرتب ہونگے؟ میں اپنے کالم کو یورپی یونین کا حصہ رہنے کے حق میں چند اہم فوائد گنوا کر سمیٹ لوں گا۔سب سے پہلی بات یہ کہ اس وقت لاکھوں برطانوی شہریوں کا روزگار یورپی یونین سے جڑا ہے ای یو کا حصہ نہ رہنے کی صورت میں 3.4ملین لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ دوسرا اہم فائدہ اس وقت یہ ہے کہ برطانیہ اپنی تجارت کا پچاس فیصد یورپی یونین سے کرتا ہے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک ہر سال برطانیہ میں 26.5بلین ڈالرز کی سرمایہ کرتے ہیں جس سے برطانیہ کو 227بلین پونڈز فائدہ ہوتا ہے اس کے علاوہ چھٹیوں کے دوران محنت کشوں کو تنخواہ، عورت اور مرد کو Peternity Leaveکی سہولتیں، برابر تنخواہ اور تعصب کے خلاف قانونی تحفظ جیسی سہولیات میسر ہیں سیکورٹی اور سلامتی کے حوالے سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ رکن ممالک کے تعاون سے ہزاروں مجرموں اور دہشت گردوں کو پڑا گیا ہے۔تیسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ متحد ہونے کی وجہ سے رکن ممالک کو سلامتی کا کوئی ایشو درپیش نہیں ہے۔ یورپی یونین سے اخراج کا مطلب یہ ہوگا کہ مہنگائی کا ایک طوفان آجائے گا اور برطانیہ معاشی، سیاسی اور معاشرتی اور سلامتی جیسے مسائل میں گر جائے گا اور تنہائی کا یہ عالم برطانیہ کو مکمل طور پر امریکہ کا محتاج کر دے گا۔