• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسیات اور عالمی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کبھی خودمختار نہیں رہا، امریکہ نے اِس براعظم کے ملکوں کے دفاع کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے کر اس کو خودمختار دفاعی نظام سے دور رکھا اگرچہ دوسری عالمی جنگ اور اس سے پہلے یورپی تاریخ خونریز جنگوں سے بھری پڑی ہے، مگر پچھلے 72 سالوں میں یورپی ممالک نے امن وامان کی بہاریں دیکھیں سوائے بوسنیا کی جنگ کے۔ تاہم امریکہ ان کے درمیان اتحاد کی کوششوں کو ناکام بناتا رہا۔ جب 1992 میں یورپی یونین کا قیام انتہائی پیچیدہ، باریک اور جدید بنیادوں پرمذاکرات کی وجہ سے عمل میں آیا تو یورپی ممالک خصوصاً ایک دوسرے کے دشمن ممالک فرانس اور جرمنی کی اعلیٰ صلاحیتوں کا مظہرمانا گیا۔ امریکہ اس کے قیام کو نہ روک سکا البتہ اس نے برطانیہ کو یورپی یونین سے نکلوا کر اُس کو کمزور کیا مگر دوسرے ممالک نے اس اتحاد کو قائم رکھا اگرچہ ایک کرنسی بنی مگر سب اس پر متفق نہ ہوئے، اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپی ممالک سے نیٹو کو قائم رکھنے کے لئے زیادہ مالی تعاون پر زور دیا اور ساتھ ساتھ نیٹو کے ذریعے یورپ کا دفاع، امریکی اسلحہ اور افواج بھیجنے سے انکار کردیا، ماضی میںامریکہ کی اولین ترجیح یورپ کادفاع تھی مگروہ یورپ کو دفاعی خودمختاری سے دور رکھنا چاہتا تھا۔ اس نے کبھی نہیں چاہا کہ اصل معنوں میں یورپ برابری کی بنیاد پر کھڑا ہو اور امریکہ کی مدد کے بغیر بوسنیا کی جنگ کو طوالت اس لئے ہی دی تاکہ یورپ کو اپنی حیثیت کا احساس ہو کہ وہ اپنے براعظم تک میں امن قائم نہیں کرسکتا تو امریکہ کی برابری کیسے کرے گا تاہم 1992ء کے بعد یورپ نے یورپین سیکورٹی اور ڈیفنس پالیسی) (ESDP اور ساتھ تیز رفتار ردعمل فورس (RRF) کا تصور پیش کیا تھا، ابھی یہ زیربحث ہی تھا کہ امریکی وزیرخارجہ میڈیلین البرائٹ نے 8 دسمبر 1998ء میں ایک تقریر میں امریکی پالیسی واضح کی کہ یورپی دفاع کے لئے کوئی بھی کوشش نیٹو کے کردار کا نعم البدل نہیں ہونا چاہئے۔امریکہ کی یہ پالیسی یورپ کیلئے 3 "D" کے نام سے مشہور ہوئی یعنی یورپ نیٹو سے علیحدہ نہیں اور اس کی ڈپلیکیٹ کاپی نہیں اور نئے یورپی ممالک سے امتیاز نہیں برتا جانا چاہئے۔ اس کے باوجود یورپ اور خصوصاً فرانس اس تگ و دو میں لگے رہےکہیورپ کو دفاع کے معاملے میں خودمختار ہونا چاہئے، اس کی وجہ سے امریکہ میں کافی اضطراب رہا، چنانچہ سابق وزیردفاع ولیم کوہن نے دسمبر 2000ء میں برسلز میں کہا کہ اگر یورپ نے دفاعی خودمختاری حاصل کی تو اُس کی حیثیت ماضی کی ایک یادگار سے زیادہ نہیں ہوگی۔ 2003ء میں نکولس برنس سفیر برائے نیٹو نے ایسے کسی قدم کو براعظم یورپ کے لئے عظیم ترین خطرہ قرار دیا۔ اس طرح امریکی لابنگ کی یہ کوشش ناکام رہی اور فرانس کو 2003ء میں بھی قائل کرلیا گیا کہ وہ یورپ کی خودمختار دفاع کی کوشش کرنے سے باز آجائے موجودہ امریکی صدر جو ایک نئی وضع قطع کے آدمی ہیں اور خیالات بھی ماضی کی امریکی حکومتوں سے مختلف ہیں، انکی پالیسیوں نے یورپ کی دفاعی مختاری کے تصور کو پھر سے اجاگرکر دیا۔ فرانس کے موجودہ صدر ایموئیل میکرون نے 2017ء میں آزاد یورپی یونین آرمی کا نیا تصور پیش کیا اور اس تصور کو پھر اگست 2018ء میںدہرایاکہ امریکہ کو یورپ کا دفاع کرتے ہوئے ایک مدت گزر گئی کیوں نہ یورپ اپنے براعظم کے دفاع کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے لے، ٹرمپ انتظامیہ کا ردعمل اس پر پہلے تو بہت دھیما رہا مگرامریکہ کا روعمل 13نومبر 2018کو امریکہ نیٹو کے سربراہ اسٹولن برگ کے ذریعے کھل کر سامنے آیا جب انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک اتحاد کی آڑمیں امریکہ سے نہ ٹکرائیں اوریو رپ و امریکہ کے تعلقات کو کمزور نہ کریں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر امریکہ کی نئی پالیسی کیا ہےامریکی صدر کا کہنا ہے کہ وہ نہیں چاہیں گے کہ اُن کے نوجوان فوجی ملک سے زیادہ دیر باہر رہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر وہ امریکہ کا دفاع سریع الحرکت فوج کے ذریعے کرسکتے ہیں، اُن کے کمانڈوز کہیں آپریشن کرنے کے لئے اس طرح جائیں گے کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلے، وہ اپنے ملک کے سفید فام لوگوں کو برسرروزگار دیکھنا چاہتے ہیں اور تارکین وطن کی تعداد گھٹانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے میکسیکو کی سرحد پر فوج تعینات کردی ہے اور ایک دفعہ انہوں نے دیوار یا خاردار تاروں کو عبور کرکے آنے والوں کو گولی مارنے کا حکم دے دیا تھا مگر دوسرے ہی روز اس سے مکر گئے، پھر اسی سوال پر سی این این کے صحافی سے اُن کی نوک جھونک بھی ہوئی۔ دراصل تارکین وطن کی اولاد باراک حسین اوباما کے صدر بننے پر 20 سفید فام امریکی ریاستوں میں بے چینی پیدا ہوگئی تھی اُسی کے سبب امریکی عوام ڈونلڈ ٹرمپ کو بطور صدر لے کر آئی تاکہ سفید فام ریاستوں میں بے چینی کا خاتمہ ہو۔ اب اُن کی مقبولیت دن بہ دن گر رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ وسطی مدت کے کانگریس کے انتخابات میں زیریں ایوان میں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہوگئی جبکہ سینیٹ میں اب بھی ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی اکثریت میںہے، بہرحال ٹرمپ کی ہی پالیسی امریکہ میں روبہ عمل ہے، یاد رہے ماضی میں بھی امریکہ اخراجات برداشت کرنے کی شرط پر پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں شامل ہوا تھا اور اب بھی وہ اسی پالیسی پر گامزن ہے کہ اگر کوئی جنگ ہو تو امریکہ یورپ کا ساتھ اسوقت دے گا جب وہ اُس کی قیمت ادا کرنے پر تیار ہوجائے گا، سابق امریکی وزیرخارجہ ہنری کیسنگر نے کہا ہے کہ اگر کوئی جنگ کا نقارہ نہیں سن رہا ہے تو وہ بہرہ ہے اسی طرح اب ایک یورپی دانشور نے لکھا ہے کہ اس نے عالمی جنگ کی رپورٹنگ کی ہے اور وہ اب دُنیا کے ویسے ہی حالات دیکھ رہا ہے جیسے دوسری جنگ عظیم میں تھے تاہم محسوس یہ ہورہا ہے کہ امریکی صدر برطانیہ اور نئی یورپی ریاستوں کے ذریعے یورپی دفاعی خودمختاری کی لہر کو کنٹرول کرلیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین