• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرآن اور فِقہ کے امام حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

وہ روزانہ صبح سویرے، پو پھٹتے ہی بکریوں کے ریوڑ مکّے کے سنگلاخ پہاڑوں کی گھاٹیوں میں چَرانے لے جاتا اور جب دن بھر کا تھکا ہارا سورج، اپنا سفر ختم کرکے مغرب کی جانب رواں دواں ہوتا، تو وہ بھی اپنے ریوڑ ہانکتا واپس لَوٹتا۔ یہ چھوٹے سے قد، دُبلی پتلی ٹانگوں اور گندمی رنگت اِس نو عُمر، کم زور سے چرواہے کا روز کا معمول تھا۔ چہرے کی معصومیت اور آنکھوں کی چمک اُس کی ذہانت کا پتا دیتی تھی۔ پھر وہ خوش قسمت بھی تھا کہ والدین نے عرب کے جاہلانہ ماحول میں بھی اُسے ابتدائی تعلیم سے روشناس کروایا، جس کی بہ دولت وہ لکھنا پڑھنا بھی جانتا تھا، لیکن جب باپ کا سایہ سر سے اٹھا، تو اس باہمّت بچّے نے خاندان کا معاشی بوجھ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ وہ سارا دن خاموش، ویران وادیوں میں بکریوں کے پیچھے بھاگتا یا کسی بڑے پتھر کے سایے تلے حالات و واقعات کے بارے میں سوچ بچار کرکے اپنا وقت گزارتا۔ وہ اپنے لوگوں کی معاشرتی بدحالی، جاہلانہ رسم و رواج اور اخلاقی دیوالیہ پن کو نہ صرف ناپسند کرتا، بلکہ اُنہیں بدلنا بھی چاہتا تھا، مگر کیسے؟ اسے اس کا ادراک تھا اور نہ شعور، مگر وہ کسی اَن ہونی کا منتظر رہتا۔ آخر ایک دن اس نے دیکھا کہ دو روشن، باوقار اور پُرنور چہرے والے بزرگ، تھکن سے نڈھال اُس کی جانب بڑھے چلے آرہے ہیں۔ اس نے اُس بے آب وگیاہ، بیابان وادی میں موجود ان بزرگوں کو تعجب بھری نظروں سے دیکھا۔ دونوں قریب آئے اور اُن میں سے ایک گویا ہوئے’’اے لڑکے! ہم سخت پیاسے ہیں، کیا تم اس شدید گرمی میں کسی بکری کے دودھ سے ہماری پیاس بجھاسکتے ہو؟‘‘ نوعُمر چرواہے نے دوٹوک جواب دیا’’ بزرگو! مَیں ان بکریوں کا مالک نہیں، چرواہا ہوں۔ اِن کا مالک مکّے کا ایک سردار، عقبہ بن ابی محیط ( مشرک سردار) ہے، جس کی اجازت کے بغیر یہ کام امانت میں خیانت ہوگا۔‘‘ دونوں اجنبی بزرگوں نے جب نوعُمر چرواہے کی یہ بات سُنی، تو لمحے بھر کو اُن کے خشک لبوں پر خفیف سی مُسکراہٹ آئی۔ یوں لگا کہ جیسے وہ اس کا جواب سُن کر دِل میں خوش ہو رہے ہوں۔ پھر اُن میں سے ایک نے کہا’’ اچھا، کیا کوئی ایسی بکری بھی ہے، جو دودھ دینے کے قابل ہی نہ ہو؟‘‘۔’’ ہاں، ایسی بکری تو میرے پاس ہے، لیکن وہ آپ کے کس کام کی؟ اس سے پیاس کیسے بُجھے گی؟ ‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے ایک بکری کی نشان دہی کردی۔ ایک بزرگ آگے بڑھے، اس کے سوکھے اور چھوٹے تھنوں پر دستِ مبارک پھیرا اور دُعاکی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُس بکری کے تَھن دودھ سے لبریز ہوگئے، دونوں نے خُوب سیر ہو کر دودھ پیا اور چرواہے کو بھی پلایا اور جب دودھ پی چُکے، تو پھر تھنوں کو ہاتھ لگایا اور وہ اپنی اصلی حالت میں آگئے۔ نوعُمر چرواہا یہ عجیب و غریب منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ جب وہ رخصت ہونے لگے، تو اُنہوں نے چرواہے سے نام پوچھا۔ وہ بولا’’ میرا نام، عبداللہ بن مسعود ہے۔‘‘ اب عبداللہ بن مسعود کو ہمّت ہوئی، بولے’’ صاحبو! اپنا تعارف بھی کروا دو‘‘، اور جب اُسے علم ہوا کہ ان میں سے ایک، اللہ کے آخری رسول، حضرت محمّد مصطفیٰﷺ ہیں اور دوسرے اُن کے دوست اور دستِ راست، حضرت ابوبکرؓ ہیں، تو اُس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ وہ رسول اللہﷺ کے پیغام کے بارے میں سُن چُکا تھا اور اسے قریش کی سخت مخالفت کا بھی علم تھا۔ عبداللہ بن مسعود نے کہا’’ یارسول اللہﷺ! یہ دُعا مجھے بھی سکھا دیجیے۔‘‘ آپﷺ نے اُن کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا’’ تم تو خود معلّم ہو۔‘‘

قبولِ اسلام

اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ اس اتفاقیہ ملاقات نے عبداللہ بن مسعود کو منزل کا پتا بتادیا۔ اب اُن کے لیے وقت گزارنا مشکل تھا۔ شام ڈھلے بکریاں مالک کے حوالے کیں، گھر آئے، رات بے قراری میں گزاری، صبح صادق ہوتے ہی رسول اللہﷺ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور بالآخر ایک پہاڑ کی گھاٹی میںاپنی مُراد پالی۔ خدمتِ اقدسؐ میں حاضر ہوکر بیعت کی اور دائرۂ اسلام میں داخل ہوکر اپنے آپ کو خدمتِ نبویؐ کے لیے وقف کردیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ مشرکوں کی بکریاں چَرانے والا، قرآن و فقہ میں مسلمانوں کا امام بن گیا۔

سلسلۂ نسب

آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ ابو عبدالرّحمٰن عبداللہ بن مسعود بن الحارث بن غافل بن حبیب بن شمع بن فار بن مخزوم بن صاہلہ بن کاہل بن حارث بن تمیم بن سعد بن ہذیل بن مدرکہ بن الیاس بن مضر۔ والد، مسعود بن الحارث زمانۂ جاہلیت ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ والدہ کا نام’’اُمّ ِ عبد‘‘ تھا۔ آنحضرتﷺ اکثر حضرت عبداللہ بن مسعود ؓکو اُن کی والدہ کی نسبت سے’’ابنِ اُمّ ِ عبد‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ آپؓ’’ سابقون الاولون‘‘ میں سے تھے۔ آپؓ خود فرماتے ہیں کہ’’ جب مَیں نے اسلام قبول کیا، تو مجھ سے پہلے 5 افراد مسلمان ہوچُکے تھے، مَیں چھٹا مسلمان تھا۔‘‘

حلیۂ مبارک

آپؓ کا جسم چھریرا، قد پستہ، رنگت تیز گندمی اور ٹانگیں دُبلی پتلی تھیں۔ لمبے بال تھے، جو کانوں کی لوؤں تک آتے۔ عموماً سفید لباس زیبِ تن کرتے، جو عطر کی خُوش بُو سے مہک رہا ہوتا۔ خوش بُو کے اس قدر شوقین تھے کہ اُن سے ہمیشہ مہک آتی رہتی۔ رات کے اندھیرے میں بھی اپنی اس مخصوص مہک کی بہ دولت پہچان لیے جاتے۔ اپنی عام زندگی اور وضع قطع میں سرکارِ دو عالمﷺ کی تقلید کرتے اور اس پر فخر کیا کرتے تھے۔

میزانِ اعمال

سیّدنا علی المرتضیٰؓ فرماتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہﷺ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو ایک درخت پر چڑھنے کو کہا تاکہ تازہ مسواک توڑ سکیں۔ جب وہ اوپر چڑھے، تو تیز ہوا کے سبب اُن کا کپڑا ٹانگوں سے ہٹ گیا، جس پر وہاں موجود لوگ اُن کی سوکھی اور پتلی پنڈلیاں دیکھ کر بے اختیار ہنس پڑے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ’’تمھیں کس بات پر ہنسی آرہی ہے؟‘‘ جواب دیا’’ یارسول اللہﷺ! ان کی پتلی اور کم زور ٹانگیں دیکھ کر۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا’’ میزانِ اعمال میں یہ اُحد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہوں گی۔‘‘

کاتبِ وحی

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے قبولِ اسلام کے بعد خود کو حضورﷺ کی خدمت کے لیے وقف کردیا تھا۔ آپؓ ہر وقت سایے کی طرح رسول اللہﷺ کے ساتھ رہتے۔ سفر میں ہوں یا حضر میں، گھر کے اندر ہوں یا باہر، ہر وقت آپﷺ کے ساتھ ہی رہتے۔ آپﷺ کا بستر بچھاتے، وضو کرواتے، مسواک اور عصا لاکر دیتے، سواری کی باگ تھامتے۔آپﷺ نے ابنِ مسعودؓ کو اس بات کی اجازت دے رکھی تھی کہ جب چاہیں، حجرۂ مبارک میں داخل ہوجائیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ پڑھے لکھے نوجوان تھے اور ہر وقت ساتھ رہا کرتے تھے، چناں چہ آنحضرتﷺ نے آپؓ کو’’ کاتبِ وحی‘‘ کے عظیم منصب پر فائز کیا۔

سرفرازی ٔدین پہ جان بھی نثار ہے

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو قرآنِ پاک سے عشق تھا اور اپنا زیادہ تر وقت اسی کی تعلیم حاصل کرنے میں خرچ کرتے۔ اُنھوں نے رسول اللہﷺ کی قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے70 سے زاید سورتیں نہ صرف یاد کیں، بلکہ اُنہیں اس طرح پڑھنے کا اعزاز حاصل کیا، جس طرح جبرائیلؑ نے اللہ کے محبوبؐ پر نازل فرمائیں۔ ابنِ مسعودؓ نے مسجدِ نبویؐ سے متصل، ’’صفّہ‘‘ میں تعلیم حاصل کی۔ آنحضرتﷺ کے گھر اُمّ المومنین، حضرت خدیجہؓ کے زیرِ سایہ تربیت حاصل کی اور رسول اللہﷺ کی سرپرستی میں پروان چڑھے۔ آپؓ نہایت پُرسوز آواز کے مالک اور خوش الحان قاری تھے۔ جب قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے، تو درو دیوار وجد میں آجاتے۔

اسلام کے ابتدائی دِنوں کی بات ہے کہ جب مشرکین کا ظلم و ستم، قہروغضب اپنے عروج پر تھا، اللہ کے رسولﷺ اور اُن کے جانثاروں کا جینا مشکل کر دیا گیا تھا، ایسے میں صحابۂ کرامؓ نے خواہش کا اظہار کیا کہ’’ کاش ہم حرمِ کعبہ میں باآوازِ بلند قرآنِ کریم پڑھ کر مشرکین کو کلام اللہ سے روشناس کرواسکتے۔‘‘ حضرت عبداللہ بنِ مسعودؓ عُمر میں اُن سب سے چھوٹے تھے، لیکن اچانک بڑے جوش سے بولے ’’یہ کام میں کروں گا۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے تعجب سے اُنہیں دیکھتے ہوئے کہا’’ ابنِ مسعودؓ یہ خطرناک کام ہے۔ وہ تمھیں جان سے مار دیں گے، کیوں کہ تمہارا قبیلہ کم زور ہے اور تمہارے والد بھی نہیں ہیں۔‘‘ تاہم، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اپنے دل میں ایک فیصلہ کرچُکے تھے، جواٹل تھا۔ بولے’’ اے بھائیو! سرفرازیٔ دین میں میری جان کی کیا حیثیت ہے۔ مَیں اللہ کے کلام کو ان مشرکین میں روشناس کروائوں گا۔ اللہ میری حفاظت فرمائے گا۔‘‘ دوسری صبح، جب سورج کی کرنیں حرمِ کعبہ کے طواف میں مصروف تھیں، حضرت عبداللہ بن مسعودٔ تنہا دارِ ارقم سے نکلے، کعبے کے دروازے پر پہنچے، تو دیکھا مشرکین کے سردار اپنی صبح کی عبادت کے لیے حرم میں موجود ہیں۔ آپؓ اُن کی صفوں کے بیچ میں سے نکلتے ہوئے مقامِ ابراہیمؑ پر پہنچے اور پھر اچانک باآوازِ بلند سورۃ الرّحمٰن کی آیاتِ مبارکہ کی تلاوت شروع کردی۔ مشرکین کے کانوں میں یہ غیرمانوس، لیکن مسحورکُن آواز پہلی مرتبہ پڑی تھی، چناں چہ کچھ دیر اس کے سحر میں مبتلا رہے۔ پھر اچانک کسی نے بتایا کہ’’ یہ تو وہی کلام ہے، جو محمد(ﷺ) پرنازل ہوا ہے۔ یہ سُنتے ہی وہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ پر ٹوٹ پڑے اور اُنہیں لہولہان کردیا۔ ابنِ مسعودؓ جتنا پِٹتے، اُتنے ہی جوش سے قرآنِ پاک پڑھتے، یہاں تک کہ سورۂ رحمٰن کی تلاوت مکمل کرلی۔ مشرکین کا ارادہ تھا کہ اُنہیں جان سے مار دیں، لیکن پھر اُن میں سے کسی نے کہا’’ اس دُبلے پتلے نوعُمر لڑکے کو جان سے مارنا ہماری شان کے خلاف ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جب واپس آئے، تو خون میں لہولہان تھے، کپڑے پھٹ چُکے تھے، چہرہ اور آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ صحابہ کرامؓ نے مرہم پٹی کرتے ہوئے کہا’’ ہم نے تمہیں اسی لیے منع کیا تھا۔‘‘ بولے ’’مَیں کل پھر جائوں گا۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے کہا کہ’’ نہیں بس، مقصد پورا ہوگیا ہے۔‘‘

ہجرتِ حبشہ و مدینہ

جب مکّے میں مشرکین کے جوروستم اپنی انتہا کو پہنچ گئے، تو آپﷺ نے مسلمانوں کو حبشہ ہجرت کی اجازت دے دی، چناں چہ 5 نبوی میں حضرت عثمانؓ کی امارت میں 12 مَردوں اور چار عورتوں نے حبشہ ہجرت کی، جن میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بھی شامل تھے۔ کچھ عرصہ وہاں رہ کر قریش کے قبولِ اسلام کی غلط اطلاع پر واپس آئے، لیکن پہلے سے ابتر حالات دیکھ کر واپس حبشہ چلے گئے اور پھر تیسری بار ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے، جہاں رسول اللہﷺ نے آپؓ کی مواخات ،حضرت معاذ بن جبلؓ سے کروادی۔

قرآن فہمی

قرآنِ کریم کی تفسیر و تفہیم اُن کا خاص میدان تھا، جس میں اُنہیں اس قدر ملکہ حاصل تھا کہ رسول اللہﷺ نے اُن کی قرآن فہمی کی خود گواہی دی۔ آپﷺ نے فرمایا’’ قرآن چار آدمیوں سے سیکھو، عبداللہ بن مسعودؓ، سالم مولیٰ ابی حذیفہؓ ، معاذ بن جبلؓ اور ابی بن کعبؓ ‘‘ (بخاری)۔ ایک اور موقعے پر آپﷺ نے فرمایا’’ جو شخص چاہتا ہو کہ قرآن کو اسی کیفیت میں پڑھے، جس طرح وہ نازل ہوا، تو وہ’’ ابنِ اُمّ ِ عبد‘‘ (عبداللہ بن مسعودؓ) کی طرح پڑھے۔‘‘حضرت ابنِ مسعودؓ فرماتے ہیں کہ’’ قرآن کی کوئی آیت ایسی نہیں، جس کے بارے میں مجھے یہ علم نہ ہو کہ وہ کہاں اُتری اور کس سلسلے میں اُتری۔ اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ کوئی شخص کتاب اللہ کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہے، تو مَیں جس طرح بھی ہو، اس تک پہنچنے کی کوشش کروں گا‘‘ (بخاری)۔ حضرت عُمرِ فاروقؓ کی خلافت کا زمانہ تھا۔ آپؓ عرفات میں قیام پزیر تھے کہ ایک شخص ملاقات کے لیے آیا اور کہا’’ اے امیرالمومنین! مَیں کوفے سے آیا ہوں اور مَیں نے وہاں ایک ایسے شخص کو دیکھا ہے، جس کا سینہ قرآن سے بھرا ہوا ہے۔‘‘ یہ سُنتے ہی حضرت فاروقِ اعظمؓ جلال میں آگئے اور اُس سے پوچھا’’ وہ کون شخص ہے، جس کا سینہ قرآن سے بھرا ہے۔‘‘ اُس نے کہا’’ اُس شخص کا نام، عبداللہ بن مسعودؓ ہے۔‘‘ یہ سُننا تھا کہ فاروقِ اعظمؓ کا غصّہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور فرمایا’’ خدا کی قسم! تمام لوگوں میں قرآنِ کریم کو جاننے اور سمجھنے والا عبداللہ بن مسعودؓ سے زیادہ کوئی اور نہیں۔‘‘

صحابہ کرامؓ کا خراجِ تحسین

حضرت عُمر فاروقؓ نے ایک روز حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو بیٹھے دیکھا، تو فرمایا’’ یہ شخص علم و معرفت سے بھری چھاگل ہے۔‘‘ حضرت علی مرتضیٰؓ فرماتے تھے کہ’’ قرآن وسنّت کا علم عبداللہ بن مسعودؓ پر ختم ہوجاتا ہے۔‘‘حضرت حذیفہؓ فرماتے تھے کہ’’ مَیں کسی کو نہیں جانتا، جو طور و طریق میں ابنِ مسعودؓ سے زیادہ رسول اللہﷺ سے مشابہ ہو‘‘ (بخاری)۔ حضرت ابو مسعودؓ نے کہا’’ مَیں نہیں جانتا کہ رسول اللہﷺ نے اپنے بعد عبداللہ بن مسعودؓ سے زیادہ وحی کا جاننے والا چھوڑا ہو‘‘ (صحیح مسلم)۔

وعظ و نصیحت

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ہر جمعرات کو وعظ و نصیحت فرماتے تھے۔ ایک شخص نے کہا’’ ہمارا دل چاہتا ہے کہ روز وعظ و نصیحت کیا کریں‘‘، تو جواب دیا’’ ایسا کرنے سے مجھے ایک شئے روکتی ہے کہ مَیں تمہیں اُکتانا نہیں چاہتا، موقع محل دیکھ کر تمہیں نصیحت کرتاہوں، جیسا کہ نبی کریمﷺ اس خیال سے کہ ہم اُکتا نہ جائیں، نصیحت کرنے میں وقت اور موقعے کا لحاظ فرماتے تھے۔‘‘

غزوات میں شرکت

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے آنحضرتﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کی۔ غزوۂ بدر میں ابوجہل کو دو انصار بچّوں نے شدید زخمی کردیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، آنحضرتﷺ کے حکم پر ابوجہل کو تلاش کرتے ہوئے جب اُس تک پہنچے، تو اُس کی سانس چل رہی تھی۔حضرت ابنِ مسعودؓ اُس کے سینے پر سوار ہوئے، ایک پائوں اُس کی گردن پر رکھا اور کہا’’ اے اللہ کے دشمن! تو ہی ابوجہل ہے، آج اللہ نے تجھے خُوب ذلیل وخوار کیا ہے۔‘‘ ابوجہل نے پوچھا،’’ یہ بتا، فتح کس کی ہوئی ہے؟‘‘، حضرت ابنِ مسعودؓ نے جواب دیا’’ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی۔‘‘ پھر آپؓ نے اس کا سَرتن سے جدا کیا اور رسول اللہﷺ کے قدموں میں لاکر ڈال دیا۔ آپﷺ نے تین بار فرمایا ’’ واقعی، اُس ربّ کی قسم، جس کے سوا کوئی معبود نہیں‘‘۔ اُس کے بعد آپﷺ نے اللہ کی حمد وثناء بیان کی۔ پھر فرمایا’’ چلو، مجھے اس کی لاش دِکھائو۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے آپﷺ کو لے جاکر لاش دِکھائی، تو آپﷺ نے فرمایا ’’یہ اس امّت کا فرعون ہے‘‘ (الرحیق المختوم)۔

قاضیٔ کوفہ

گیارہ ہجری میں آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابنِ مسعودؓ گوشہ نشین ہوگئے تھے۔15ہجری میں جنگِ تبوک کے موقعے پر حضرت عُمر فاروقؓ نے اُنہیں گوشۂ تنہائی سے نکال کر محاذ پر بھیجا اور جب محاذ سے واپس آئے، تو اُنہیں کوفے کا قاضی مقرّر کردیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ 10 سال تک کوفے کے قاضی، بیت المال کے امیر اور شعبۂ تعلیم کے سربراہ رہے۔ اس عرصے میں آپؓ نے کوفے کو علم کی دولت سے مالا مال کردیا۔

سورۂ واقعہ کا کمال

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ مرض الموت میں مبتلا ہیں۔ خلیفۂ وقت، حضرت عثمان غنیؓ عیادت کے لیے تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں’’ اے ابنِ مسعودؓ! مَیں تمہاری بچّیوں کے لیے وظیفہ جاری کردوں؟‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جواباً کہتے ہیں’’ امیرالمومنین! آپؓ میری بچّیوں کی فکر نہ کریں۔ مَیں نے اُنہیں تلقین کردی ہے کہ ہر شب، سونے سے پہلے سورۂ واقعہ پڑھ لیا کریں، کبھی عسرت وفاقے میں مبتلا نہیں ہوں گی اور نہ کبھی رزق میں کمی ہوگی۔‘‘

وفات

آپؓ کا 32ہجری میں 63سال کی عُمر میں انتقال ہوا اور جنّت البقیع میں تدفین ہوئی۔بعض روایات کوفے میں تدفین سے متعلق بھی ہیں۔                    

تازہ ترین