برِصغیر کے خطے کو’’قوالی‘‘کا مولد و مرکز کہا جاتا ہے۔ خانقاہوں میں پنپنے والے اس فن کوپاکستان و بھارت میں خاص مقبولیت حاصل رہی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ ’’قوالی‘‘کو عوامی محفلوں میں بھی سنا اور گایا جانے لگا۔قوالی کے موجدحضرت امیر خسروؒ کی’’چھاپ تلک سب چھینی رے‘‘،’’اے ری سکھی ری مورے خواجہ گھر آئے‘‘جیسی قوالیاں عام و خاص میں بے حد مقبول ہوئیں۔ فلمی صنعت کے قیام کے بعد بر صغیر کی فلموں میں بھی حمد، نعت ،منقبت کے ساتھ قوالیاں بھی شامل کی جانے لگیں۔آج بھی پاک و ہند کی فلموں میں گاہے بگاہے صوفیانہ رنگ لیے قوالیاں شامل کی جاتی ہیں۔تقسیم کے بعد بھی بھارت میں شکیل بدایونی و دیگر مسلمان اور ہندو شعراء نے فلمی کہانیوں کے لیے حمد و نعت لکھیں اور موسیقاروں نےان کی بہت عمدہ طرزیں مرتب کیں ۔
1957میں بننے والی فلم ’’ داتا ‘‘ کا یہ حمدیہ کلام:
کر ساری خطائیں معاف میری تیرے در پہ میں آن گرا
تو سارے جہاں کا مالک ہے میرا کون ہے تیرے سوا
یہ مشورِ زمانہ فلمی حمد، قتیل شفائی نے لکھی جس کی طرز تصدق حسین نے بنائی تھی۔سلیم رضا نے اسے اپنی پرسوزآواز میں ریکارڈ کرواکرامرکر دیا۔ 1957میں گیت نگار تنویر نقوی نے فلم ’’ نورِ اسلام‘‘کے لیے نعت لکھی،جسے پہلی مرتبہ دف کی تال پرموسیقار حسن لطیف نےکمپوزکیا ۔اس نعت کو سلیم رضا ، زبیدہ خانم اور ہم نوا نے ریکارڈ کرایاتھااوراس کے بول تھے،
شاہِ مدینہ، شاہِ مدینہ یثرب کے والی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
1958میںفلم ’’ زہرِ عشق ‘‘میں نعت شامل کی گئی،جس کے بول تھے:
سنو عرض میری کملی والے
کوئی کیا سمجھے کوئی کیا جانے
میرے دل کی لگی کملی والے
اس نعت کوقتیل شفائی نے لکھا اور خواجہ خورشید انور نے طرز بنائی تھی۔یہ نعت زبیدہ خانم کی آواز میں ریکارڈ کی گئی تھی اور اسےاداکارہ یاسمین پر فلمایا گیا تھا۔ 1960میںہدایت کار لقمان کی فلم ’’ ایاز ‘‘میں تنویر نقوی کی ہی لکھی ہوئی نعت،جس میں حضرت شیخ سعدیؒ کی مشہورِ عالم نعت کے معروف اور دل کو چھولینے والے اشعار شامل کیے گئےتھے، اس کی لازوال طرز خواجہ خورشید انورنے بنائی تھی۔ اس نعت کو زبیدہ خانم ،ناہید نیازی اور ہم نواؤں کی آوازوں میں ریکارڈکیا گیا تھااورکئی نامور اداکاراؤں نے عکس بندی میں حصہ لیا تھا جن میں صبیحہ خانم، نیئر سلطانہ، نیلو اور زینت بیگم سرفہرست تھیں۔ یہ نعت اپنی ساری رعنائیوں کے ساتھ آج بھی کل کی طرح تر و تازہ ہے اور ہمیشہ یونہی رہے گی ،اس نعت کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ’’ صلوعلیہ وآلہٖ ‘‘ ردیف و قافیے سے ملانے کے لئے خوبصورتی سے نبیِ پاکﷺ کےلئے توصیفی الفاظ منتخب کیے گئے ہیں:
جو نہ ہوتا تیرا جمال ہی
تو جہاں تھا خواب و خیال ہی، صلو علیہ وآلہٖ
ماہ و مہر تیری روشنی
ہوئی ختم تجھ پہ پیمبری
نہیں تجھ سا تیرے سوا کوئی
کرے کون تیری برابری
یہ نہیں کسی کی مجال ہی، صلو علیہ وآلہٖ
نہ فصیل ہے نہ محل سرا
تیرا فرش ہے وہی بوریا
ترے جسمِ پاک پہ اِک قبا
وہ بھی تار تار ہے جا بجا
تیری سادگی ہے کمال ہی، صلو علیہ وآلہٖ
تو خلیل ہے تو کریم ہے
تو رؤف ہے تو رحیم ہے
تو حبیبِ رب کریم ہے
تیری شان سب سے عظیم ہے
نہیں کوئی تیری مثال ہی، صلوعلیہ وآلہٖ
پراثرالفاظ کا حامل یہ نعتیہ کلام آج بھی سحر انگیزہے اور لوگوں پر رقت طاری کر دیتا ہے۔1965میں بنائی گئی فلم ’’ عید مبارک‘‘ کی نعت بہت مقبول ہوئی،جسے فیاض ہاشمی نے لکھا اوراس کی طرز اے حمید نے بنائی تھی اوراسے مالا اور ہم نوا ؤں کی آوازوں میں ریکارڈ کروایا گیا تھا۔ اسےاداکارہ زیبا، رخسانہ اور سیما پر فلمایا گیا تھا،یہ کلام محافل میلاد میں خشوع و خضوع سے پڑھا جاتا ہے۔ اس نعت کے بول تھے،
رحم کرو یا شاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم
نظرِ کرم یا نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم
فلم بینوں کی طرف سےفلموں میں حمد ونعت کے ساتھ قوالیوں کو بھی بہت سراہا یا گیا۔ کردار جب کسی مشکل صورت حال سے گذرتا تو اُس پر قوالی کو فلمایا جاناضروری سمجھا جاتا تھا۔
1964میں ریلیز ہونے والی فلم ’’ توبہ‘‘ کی قوالی فلم بینوں کے لبوں پر آج بھی موجود ہے۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں مذکورہ فلم کی یہ اثر انگیز قوالی اپنا الگ تشخص رکھتی ہے۔گلوکارسلیم رضا، منیر حسین ،آئرین پروین اور ہمنوا کی آواز وں میں اس قوالی کوریکارڈ کیا گیا، اس شاہ کار قوالی کو فیاض ہاشمی نے لکھا اور اے حمید نے طرز بنائی تھی۔ یہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ فلم ’’ توبہ‘‘ میں ادا کار کُمار نے اِس قوالی پر جذبات سے بھرپوراداکاری کی ہے۔ اس کے بول ہیں،
نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا ہم کہاں جاتے
ٹھکانہ ہی نہ تھا کوئی ہمارا ہم کہاں جاتے
پاکستان میں سب سے زیادہ عزیز میاں قوال ،غلام فرید صابری ، مقبول صابری قوال اور نصرت فتح علی خان نے قوالی میں مقبولیت حاصل کی اور ان کی قوالیاں آج بھی زبان زدعام ہیں۔ 1965 میں ریلیزہونے والی فلم ’’ عشقِ حبیب ‘‘ میں صابری برادران کی قوالی:
میرا کوئی نہیں ہے تیرے سِوا
مجھے نظرِ کرم کی بھیک ملے
میں یہ جھولی خالی لایا ہوں
قابلِ ذکر ہے۔آج 52 سال ہو گئے لیکن یہ اپنی مثال آپ ہے۔ ’’ بھیا‘‘ نام سے 1966میں ایک فلم بنائی گئی جِس کی یہ قوالی بہت مشہور ہوئی:
مدینے والے سے میرا سلام کہہ دینا
تڑپ رہا ہے تمہارا غلام کہہ دینا
اِس نعتیہ قوالی کو شاعرصدیقی نے لکھا اور روبن گھوش نے طرز بنائی تھی۔ عام فہم اور میٹھی طرزکی حامل اس قوالی کو احمد رُشدی، مسعود رانا، عطامحمد قوال اور ہمنوا کی آواز میں صدا بند کیا گیا تھا۔مذکورہ قوالی بہت زیادہ مقبول تھی اور آج بھی شوق سے سُنی جاتی ہے۔شاعر صدیقی پاکستان ٹیلی وژن ڈھاکا مرکز میں اردو گیت و غزل لکھنے سے مشہور ہوئے ، نعتیہ کلام لکھ کر انہوں نے بہت داد پائی۔ 1969میں نمائش کے لئے پیش ہونے والی فلم ’’ درد ‘‘ کی یہ قوالی بھی بے حد مقبول ہوئی:
دُنیا کے غموں سے گھبرا کر تیرے در پہ سوالی آئے ہیں
کچھ ٹوٹی ہوئی اُمیدیں ہیں کچھ ٹوٹے ہوئے دل لائے ہیں
گو کہ یہ قوالی فلمی کہانی کو آگے بڑھانے کے لئے فلم میں رکھی گئی لیکن اس کو ویسے بھی سُنیں تو حمدیہ کلام دل پر اثر کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کی طرز ایم اشرف نے بنائی اور نمایاں آوازوں میں منیر حسین اور مجیب عالم ہیں۔اسے خواجہ پرویزنے لکھاہے۔
1969 میں بننے والی پنجابی فلم ’’ دلاں دے سودے‘‘ کی منقبت ایک عرصہ بیت جانے کے بعد بھی آج تروتازہ ہے۔اس طرز پر آج بھی مختلف گلوکار طبع آزمائی کرتے ہیں۔
ہو لال موری پت رکھیو بھلا جھولے لالن
سندھڑی دا سہون دا شہباز قلندر
اسےموسیقار نذیر علی کی موسیقی میں نورجہاں نے ریکارڈ کروایا تھا، بلا شبہ یہ منقبت مادام نورجہاں کے مقبول ترین شاہ کاروں میں سے ایک ہے۔1972میںفلم ’’ الزام ‘‘میں موسیقار ناشاد کی موسیقی میں مشہور فلمی شاعر مسرور انور کا یہ حمدیہ کلام جو غلام فرید اور مقبول صابری قوال اور ہم نوا نے صدا بند کروایا:
آئے ہیں تیرے در پر تو کچھ لے کے جائیں گے
ورنہ اِس آستاں پہ یہ جاں دے کے جائیں گے
صابری برادران کی آو از میں پُرنم الہ آبادی کی لکھی ہوئی ایک نعتیہ قوالی بے حد مقبول ہوئی:
تاجدارِ حرم ہو نگاہِ کرم، ہو نگاہِ کرم
ہم غریبوں کے دن بھی سنور جائیں گے
حامیء بیکساں! کیا کہے گا جہاں
آپ کے در سے خالی اگر جائیں گے
اِن سطور کو پڑھنے اور نعتیہ قوالیوں کے سننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ قوال نعت یا حمدتک محدود نہیں رہتے وہ مشہور دوہے، دیگر شعراء کے اُردو اور فارسی کلام بھی موقع مناسبت کے لحاظ سے اصل نعت یا حمد میں شامل کرتےجاتے ہیں، اور یہی قوالی کی ہیئت بھی ہے۔ اِس قوالی کے مشہور ہونے کے بعد اسے ایک فلم میں شامل کر لیا گیاتھا،یہ کلاسک قوالی ہر دور کی ہے۔اسی طرح 1975میں فلم ’’بن بادل برسات ‘‘ میںصابری بردران کی ہی کی یہ قوالی :
بھر دو جھولی میری یامحمدؐ
لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی
آج بھی بہت شوق سے سُنی جاتی ہے،اس قوالی نے نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔1976ء میں فلم سچائی میں ’’تیری نظرِ کرم‘‘قوالی کو اتنی زیادہ شہرت نہ مل سکی، لیکن 1982ء میں بننے والی فلم '’’سہارے‘‘، جس میں مرکزی کردار اداکار محمد علی نے ادا کیا تھا، اس فلم کی قوالی ’’تاجدارِ حرم‘‘ نے صابری قوال بھائیوں کی اس جوڑی کو عروج پر پہنچا دیا۔تاجدارِمدینہ اور تاجدار حرم کے یہ دونوں مرکباتِ اضافی اتنے مقبول ہیں کہ اردو زبان کے کئی فلمی گلوکاروں اور قوالوں نے ان کو نعتوں میں پڑھا ہے۔مثلاً ایک بھارتی فلم میںآشا بھونسلے کی ایک نعت جو ’’مدد کیجئے تاجدارِ مدینہ‘‘ سے آغاز ہوتی ہے، صوت و صدا کا شاہکار ہے۔اسی طرح غلام فرید صابری اور مقبول صابری کی گائی ہوئی مشہور قوالی ’’تاجدارِ حرم، ہونگاہِ کرم‘‘، آپ ﷺ کے صدقے ہی سے اتنی مشہور ہوئی کہ ان دونوں کو امر بنا گئی۔ اس قوالی میں نہ صرف یہ کہ حضرت وارثی نے عربی، فارسی، اردو اور برج بھاشا کی رباعیات و قطعات استعمال کی ہیں بلکہ جب صابری برادران نے اس قوالی کی دھن ترتیب دی تھی تو وہ خود بھی ساتھ تشریف فرما تھے۔ ان چاروں زبانوں کے تلفظ کو صحیح مخرج سے ادا کرنا آسان نہیں۔ اس کے لئے جو محنت اور جو ریاض صابری برادران نے کیا اس کی تاثیر آج بھی زندہ ہے اور جب تک قوالی کا دبستان باقی رہے گا، یہ نعتیہ قوالی بھی زندہ و پائندہ رہے گی۔
بھارتی فلموں میں بھی نعتیہ کلام کے ساتھ قوالیوں کو شامل کرنے کا رواج بہت بڑھ چڑھ کر تھا۔دلوں کو گداز کردینے والی آوازمحمد رفیع کی آواز کے ساتھ لتا منگیشکرکی آوازمیں کئی فلموں میں نعت و قوالیوں کو شامل کیا گیا،بلاشبہ اس قدر پر اثر کلام اوردلوں کو چھو لینے والی دھن آج بھی فلم بینوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔محمد رفیع کی دل گیر آواز میں اس نعت کے بول ملاحظہ کیجیے،
اگر کملی والے کی رحمت نہ ہوتی
تو قسمت کے ماروں کا کیا حال ہوتا
رسولِ خدا کا سہارا نہ ملتا
تو ہم بے سہاروں کا کیا حال ہوتا
ایسی بے شمار نعتیں ہیں جو محمد رفیع نے فلموں کے لیے ریکارڈ کروائی ہیں۔
شاہِ مدینہ سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم
تم پہ نچھاور تم پہ فدا ہم صلی اﷲ علیہ وسلم
یہ خوب صورت کلام لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی تروتازہ ہے۔ محمد رفیع کے علاوہ گلوکارہ شمشاد بیگم نے بھی کئی بہت خوبصورت نعتیں ریکارڈکروائیںجن میں سے ایک نعت تو آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ ہندوستان، پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے بار بار نشر ہوتی رہی ہے جس کے بول ہیں۔
پیغامِ صبا لائی ہے گلزارِ نبیؐ سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبیؐ سے، دربار نبیؐ سے
لیجنڈگلوکارہ لتا منگیشکر کی آواز میں بھی نعتیہ کلام بھارتی فلموں میں شامل کیا گیا،جنہیں بڑی مقبولیت ملی خاص طور پر یہ نعت ایک زمانے میں آل انڈیا ریڈیو سے بہت نشر ہوتی تھی۔
دل کی کشتی بھنور میں آئی ہے
کملی والے تیری دہائی ہے
لتا منگیشکر کی ہی آواز میںریکارڈکی گئی وہ لازوال نعت جو انہوں نے ہدایت کار کے آصف کی فلم مغلِ اعظم کے لیے گائی تھی جسے شاعر شکیل بدایونی نے لکھا اور جس کی سحر انگیز دھن موسیقار نوشاد نے بنائی تھی اور اسے مدھوبالا پر فلمایا گیا تھا ۔
اس کلام کے بول تھے:
بے کس پہ کرم کیجیے سرکارِ مدینہ
گردش میں ہے تقدیر بھنور میں ہے سفینہ
یوں توپاکستانی اور بھارتی فلموں میںحمد و نعت یا قوالی شامل کرنے کا رجحان بتدریج کم ہورہا ہے لیکن ماضی قریب میں بالی وڈ میں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ اس روایت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔تین سال قبل بھارتی سپر اسٹار سلمان خان کی فلم ’’بجرنگی بھائی جان‘‘میں شامل کی جانے والی صابری برادران کی سدا بہارقوالی’’بھردو جھولی ‘‘شامل کی گئی جسے، سلمان خان کی خواہش پرمعروف گلوکار عدنان سمیع خان نے ناصرف اپنی آواز میں گایا بلکہ ان پر اس قوالی کو فلمایا بھی گیا، تاہم ’’بجرنگی بھائی جان‘‘کے ذمے داران اخلاقی ذمے داری کا مظاہرہ نہ کرسکے اوراس کلاسک قوالی کو فلم میں شامل کرنے سے قبل اجازت نہ لے سکے،جس کے بعد یہ معاملہ کچھ متنازع ہوگیا،تاہم فلم بینوں نے عدنان سمیع کی کاوش کو سراہا۔بلاشبہ یہ قوالی ہر دور کی قوالی ہے۔ دور حاضر کی فلموں میںایسی کاوشوں کوسراہناخوش آئند ہے۔