• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے حالات میں جب پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم کم ترین سطح پر آگیا ہے، مجموعی ذخائر گھٹ کر 1.3ارب 83کروڑ ڈالر سے نیچے آگئے ہیں جو دوماہ کی ضروریات کو بھی پورا نہیں کر سکتے، وزیراعظم عمران خان کے دوست ممالک کے دورے کافی حد تک ملک کی اقتصادی مشکلات دور کرنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ پہلے انہوں نے سعودی عرب کا دورہ کیا جس سے تقریباً 3ارب ڈالر کا پیکیج حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، چین کے دورےمیں بھی تجارتی خسارہ کم کرنے اور دوطرفہ تجارت میں اضافے کے سمجھوتے ہوئے۔ اگرچہ مالیاتی پیکیج کا اعلان نہیں ہوا مگر اس حوالے سے بھی خطیر اعانت کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔ اتوار کو عمران خان متحدہ عرب امارات کے دورے پر گئے جہاں ابوظہبی کے ولی عہد اور عرب امارات کی قیادت سے ان کے جامع مذاکرات ہوئے، بات چیت میں خزانہ، خارجہ اور توانائی کے وفاقی وزرا کے علاوہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شریک تھے جس سے مذاکرات کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ بات چیت کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس میں کسی مالیاتی پیکیج کا ذکر نہیں تاہم یہ بھی ایک بڑی کامیابی ہے کہ فریقین میں اقتصادی اسٹریٹجک شراکت داری، منی لانڈرنگ و منشیات سے نمٹنے، تجارت، سرمایہ کاری، معاشی ترقی، توانائی، انفرا اسٹرکچر اور زراعت کے شعبوں میں تعاون پر اتفاق ہوا۔ اس حوالے سے ایک واضح روڈ میپ مرتب کیا جا ئے گا جس کی مدد سے معاشی شراکت داری کے فوری فوائد حاصل ہو سکیں گے۔ ابوظہبی کے ولی عہد نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا اس حوالے سے دونوں ملکوں میں تعاون جاری رہے گا۔ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق مذاکرات میں جو فیصلے کئے گئے انہیں حتمی شکل دینے کے لئے فروری میں وزارتی کمیشن کا اجلاس ہو گا اگرچہ پاکستان کے لئے کسی فوری مالی امداد کا معاہدہ نہیں ہوا لیکن جن معاملات پر باہمی تعاون بڑھانے پرا تفاق کیا گیا ہے اس کے دوررس نتائج برآمد ہونگے۔ پاکستان میں اماراتی سرمایہ کاری بڑھے گی اور تجارتی تعلقات مزید مضبوط ہوں گے خصوصاً عرب امارات میں پاکستان کے ہنرمندوں اور مزدوروں کو روزگار کے زیادہ مواقع ملیں گے۔ توقع ہے کہ فروری میں ہونے والے وزارتی کمیشن کے اجلاس میں پاکستان کے لئے مالی مراعات کا فیصلہ بھی ہوگا۔ سعودی عرب اور چین کے بعد عرب امارات کے دورے ملک کے معاشی بحران کے خاتمے میں مدد دیں گے۔ دوست ملکوں کی اقتصادی امداد اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس سے آئی ایم ایف پر پاکستان کا انحصار کم ہو جائے گا جو نئے قرضے دینے کے لئے سخت شرائط عائد کر رہا ہے۔معیشت کی بحالی نہ صرف تحریک انصاف کی حکومت بلکہ ریاست کے لئے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ اسی لئے عرب امارات کی قیادت سے ملاقات میں آرمی چیف بھی شریک تھے۔ اس کا مطلب یہ بتانا تھا کہ اقتصادی بحالی کی جدوجہد میں تمام ادارے برابر کے شریک ہیں۔ اب تک مالی اعانت کے جو معاہدے کئے گئے ہیں زمین پر ان کے اثرات نظر نہیں آرہے جب پیسے آجائیں گے اور ان کا استعمال بھی درست ہو گا تو امید کی جا سکتی ہے کہ معاشی مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ پاکستان پر بیرونی قرضوں کا حجم مجموعی قرضوں کا35فیصد ہے جو جی ڈی پی کے 9.19 کے برابر ہے۔ ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ضروری ہے جو تجارتی خسارہ ختم یا کم کئے بغیر ممکن نہیں ایسی صورتحال میں آئی ایم ایف پر زیادہ انحصار معاشی بحالی کےلئے فائدے کی بجائے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اس لئے وزیراعظم دوست ملکوں سےاعانت کے لئے جو کوششیں کر رہے ہیں وہی مسئلے کا صحیح حل ہیں۔ توقع ہے کہ وزیراعظم ملائشیا کے دورے کے دوران وہاں کے ’’مالی جادوگر‘‘ وزیر اعظم مہاتیر محمد سے مفید تجاویز لے کر آئیں گے جن پر عمل کرنے سے ملک نہ صرف قرضوں کی لعنت سے نجات پائے گا بلکہ ترقی کے مطلوبہ اہداف بھی حاصل کر لے گا۔

تازہ ترین