• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاق کے استحکام اور قومی یکجہتی کے لیے ملک کے چاروں صوبوں کے درمیان مالیاتی اور قدرتی وسائل کی منصفانہ تقسیم کا ناگزیر ہونا روز روشن کی طرح واضح ہے۔ قدرتی وسائل میں پانی انسانی و حیوانی زندگی اور زرعی پیداوار کے لیے سب سے اہم ہے لہٰذا صوبوں کے درمیان پانی کی اس طرح تقسیم لازمی ہے کہ کسی کو حق تلفی کا شکوہ نہ رہے۔خوش قسمتی سے 1991ء میں اس وقت کی وفاقی حکومت نے صوبوں کی ضرورت کے مطابق پانی کی تقسیم کے ایک فارمولے پر اتفاق رائے میں کامیابی حاصل کرلی تھی اور اس حوالے سے ایک معاہدہ وفاق اور چاروں صوبوں کے درمیان طے پاگیا تھا ۔ اس کے بعد سے صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم اسی معاہدے کے تحت ہورہی ہے، تاہم اس کے لیے پانی کی تقسیم کی درست پیمائش کے نظام کا اہتمام لازمی ہے، جدید ٹیکنالوجی سے پانی کی تقسیم کی درست پیمائش زیادہ یقینی طور پر ممکن ہے۔ اس نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے صوبائی حکومتوں میں پانی کی معاہدے کے مطابق تقسیم نہ ہونے کی شکایات سامنے آتی رہی ہیںجن میں صوبہ سندھ خاص طور پر نمایاں ہے۔ اس تناظر میں یہ اطلاع بہت اطمینان بخش ہے کہ گزشتہ روز وفاق اور صوبوں کے مشترکہ اجلاس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور پانی کی تقسیم کے درست اعداد وشمار کے تعین کے لیے نیا ٹیلی میٹری سسٹم نصب کیے جانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ یہ سسٹم سات مختلف مقامات پر نصب کرنے کا فیصلہ ہواہے اور اس کے لیے عالمی بینک مالی تعاون کرے گا۔ سسٹم کی تنصیب دو مراحل میں ہو گی، دریائے چناب پر مرالہ اور دریائے سندھ پر چشمہ بیراج کے مقام پر سسٹم نصب کیا جائے گا۔ کیرتھر اور پٹ فیڈر کینال میں پانی کی نگرانی نئے ٹیلی میٹری سسٹم سے ہو گی، تونسہ اور گڈو بیراج جبکہ سی آر بی کینال سے خیبرپختونخوا کو ملنے والے پانی کے اعدادوشمار جاننے کیلئے بھی ٹیلی میٹری سسٹم نصب کیا جا ئے گا۔صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے تنازعات کے مستقل حل کے لیے یہ بلاشبہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے اور اسے حتی الامکان جلداز جلد عملی شکل دینے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے۔

تازہ ترین