• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابھی وزیر اعظم نواز شریف کی امریکہ آمد اور واشنگٹن میں عالمی نیو کلیئر سمٹ میں شرکت میںچار ہفتے باقی ہیں لیکن وزیر اعظم کی صدارت میں پاکستان کی نیوکلیئر کنٹرول اینڈ کمانڈ اتھارٹی نے اجلاس منعقد کرکے اس سمٹ کے ڈیکلریشن کی ابھی سے منظوری دے کر پاکستانی موقف کا اعلان کردیا ہے۔ بالکل اسی طرح وزیر اعظم کی امریکہ آمد سے کافی عرصہ قبل ہی ان امکانی ملاقاتوں کا بعض حلقے ذکر کررہےہیں جن کے ایجنڈے یا ملاقات کے وقت تک کا کسی کو علم نہیں ہے۔ سابق صدر آصف زرداری کچھ دنوں سے نیویارک میں خاموش انداز میں مقیم ہیں۔ میڈیسن ایونیو کے اپنے فیورٹ علاقے میں ’’مسٹر علی‘‘ کے دیکھے جانے کی ایک غیرمصدقہ اطلاع ضرور ملی ہے۔ ورنہ نیویارک کے بعض صحافی ایک سینئر صحافی کی قیادت میں سابق سفیر شیری رحمٰن اور زرداری صاحب کی تلاش میں دو گھنٹے تک انتظار میں ایک ہوٹل کے باہر انتظار کرکے مایوس لوٹے کہ نہ تو شیری رحمٰن سے تعلقات کام آئے اور نہ ہی آصف زرداری کا کوئی سایہ بھی نظر آیا۔ اب تو زرداری صاحب کی ہدایت پر سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک بھی دو روز کے لئے لندن سے نیویارک آگئے ہیں۔ کچھ حلقے ابھی سے نواز شریف۔ آصف زرداری کی ’’خاموش ملاقات‘‘کے بارے میں گفتگو کررہے ہیں کہ اس ملاقات سے ملک کی داخلی صورت حال اور سیاست پر بڑا اثر پڑ سکتا ہے۔ یہ ملاقات کب، کہاں کن انتظامات کے تحت کس نوعیت کی ہوگی؟ اس بارے میں کوئی بھی کچھ نہیں بتا رہا۔ البتہ دیکھنے، سننے اور سمجھنے کی خواہشمند آنکھیں کان اور دماغ اس غیرمصدقہ اطلاع پر نہ صرف توجہ دے رہے ہیں بلکہ قومی سیاست پر اس کے ممکنہ اثرات پر بھی سوچ بچار کررہے ہیں۔ دوسری امکانی ملاقات نواز، نریندر ملاقات ہے جو اس ماہ کے آخر میں واشنگٹن میں ہوسکتی ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ کی پاکستان کو تازہ دھمکی اپنی جگہ لیکن امریکی دعوت پر امریکی سرزمین پر 31؍مارچ کو ہونے والی عالمی نیوکلیئر سمٹ میں دنیا کےدو ایسے ایٹمی ملک پاکستان اور بھارت شرکت کررہے ہیں جو ایٹمی طاقت ضرور ہیں مگر عالمی ایٹمی کلب اور معاہدہ این پی ٹی کے ممبر نہیں بلکہ دنیا کو ان دونوں کے درمیان ایٹمی تصادم کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ پاک بھارت ڈائیلاگ امریکی مفادات کی بھی ضرورت ہے۔ حال ہی میں وزیر خارجہ سرتاج عزیز نے پاک امریکہ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے دوران اپنی تقریر میں صدر اوباما کا شکریہ اسی حوالے سے اداکیا ہے۔ صدر اوباما کا وہائٹ ہائوس میں یہ آخری سال ہے اور وہ اپنی صدارتی کامیابیوں کا ایک اچھا ریکارڈ اور ورثہ بھی چھوڑنا چاہتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے خطے کے لئے کوئی بڑی خبر اور دو ایٹمی ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان واشنگٹن سے ایک ’’اچھی‘‘ اور اہم خبر امریکہ کی کتنی بڑی ضرورت ہوگی؟ اس بارے میں آپ اپنا نتیجہ خود اخذ کرلیں۔ گوکہ ابھی تک امریکہ بھارت اور پاکستان کے ترجمان اس بارے میں کچھ نہیں کہہ رہے ،لیکن ماحول اور حالات کے تناظر میں مجھے واشنگٹن میں نواز نریندر ملاقات کے امکانات روشن نظر آرہے ہیں۔ نیو کلیئر سیکورٹی سمٹ کے میزبان صدر اوباما سے وزیر اعظم کی ملاقات بھی امکان سے باہر نہیں دونوں ممالک کے تعلقات بھی معمول کے مطابق ہیں۔
واشنگٹن میں پاک امریکہ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کا چھٹا سیشن بھی مکمل ہوگیا۔ وزیر خارجہ سرتاج عزیز اور جان کیری نے اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کی۔ دو روز قبل وفاقی وزیر برائے پلاننگ اور ڈویلپمنٹ احسن اقبال نیویارک آئے تھے وہ پاکستانی ٹیم کے رکن بھی تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہم اس مرتبہ امریکہ سے اس کی ترقی کے ’’اصل ہتھیار‘‘ مانگ رہے ہیں۔ ماضی کے حکمراں تو اسلحہ اور جنگی ہتھیار مانگتے رہے ہیں۔ ہم امریکہ سے یونیورسٹیوں میں پاکستانی نوجوانوں کو داخلے اور اعلیٰ تعلیم کا تعاون مانگ رہے ہیں۔ احسن اقبال کی ان باتوں کا عکس امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی تقریر میں تفصیل سے نظر آیا۔ امریکی ماہرین تعلیم کی پاکستان سے تعاون کی نوید سنائی دی۔ جان کیری نے ضرب عضب پاکستانیوں کی قربانیوں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستانی اقدامات کی واضح الفاظ میں تعریف کی حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ اور جیش محمد سمیت کسی امتیاز کے بغیر تمام دہشت گردوں سے یکساں سلوک کی پالیسی پر زور دیا۔ شرمین عبید کی فلم پر آسکر ایوارڈ کا ذکر کیا۔ باچا خان یونیورسٹی، آرمی پبلک اسکول کا سانحہ یہ سب جان کیری کی تقریر کا حصہ تھے اور ان پر پاکستانی اقدامات کی تعریف و حمایت واضح نظر آئی البتہ انہوں نے ایٹمی ملک پاکستان کو تلقین کی کہ ایٹمی ہتھیاروں کے لئے پاکستان بھی وہی امریکی پالیسی اپنائے جو امریکہ نے سوویت یونین کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کرتے ہوئے اپنائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک زمانے میں امریکہ نے 50؍ہزار ایٹمی ہتھیار سووویت یونین کے خلاف لگا رکھے تھے لیکن کمی کرکے اب امریکہ اور روس نے صرف1500 ہتھیار ایک دوسرے کے خلاف نصب کر رکھے ہیں۔ گوکہ امریکی وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں بھارت کی جنگی ہتھیاروں کی پالیسی اور تعداد کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ نہ ہی انہوں نے پاکستان کے ساتھ بھارتی کشیدگی، کشمیر، اوربھارتی جنگی پالیسی کا کوئی ذکر کیا لیکن پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کا مشورہ دے کر آگے بڑھ گئے انہوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ آنے والے سال کے دوران ایٹمی طاقت والے پاکستان سے اس موضوع پر بھی گفتگو ہوگی کہ ایٹمی ہتھیاروں کی حامل مملکت کی ذمہ داریاں کیا ہوسکتی ہیں؟
یہ اشارہ قابل غور و فکر ہے۔ ایک طرف بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا رکن بنایا جاتا ہے۔ تمام ایٹمی مواد اور ضروریات پر سے پابندیاں ہٹا کر بھارت سے مکمل تعاون اور پاکستان کے مقابلے میں امتیازی ترجیحی سلوک کیا جاتا ہے لیکن ایٹمی مملکت کی ذمہ داریوں کا سوال پاکستان سے اٹھایا جاتا ہے؟جان کیری نے افغانستان میں مصالحت کے لئے پاکستان کی کوششوں کو بھی سراہا۔ پاکستانی ٹیم کے قائد سرتاج عزیز نے اپنے ریمارکس میں بڑے واضح انداز میں چند باتیں کہی ہیں۔ پاک امریکہ پارٹنر شپ کے لئے باہمی اعتماد کو لازمی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے دہشت گردی کی اس جنگ میں پاکستان کے اختلاف کو پاکستان کا ’’ڈبل گیم‘‘ قرار دے کر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ جہاں اپنے مفادات کے لئے نیشنل سیکورٹی کے مقاصد و مفاد کو محفوظ بنانے کے لئے اقدامات کا حق رکھتا ہے وہاں پاکستان کو بھی اپنے سیکورٹی مفادات کے تحفظ کا حق ہونا چاہئے۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان دفاعی پارٹنر شپ کے لئے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔ ایٹمی عدم پھیلائو اور اسٹرٹیجک استحکام ہماری پالیسی اور ہم ’’مین اسٹریم‘‘ نیوکلیئر پاور کے طور پر اپنا رول ادا کرنا چاہتے ہیں انہوں نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ دونوں ملکوں میں تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے اور امریکی مارکیٹ تک پاکستانی مصنوعات کو رسائی دی جائے۔ پاکستانی وفد کے سرتاج عزیز نے بڑی وضاحت بلکہ جرات سے پاکستان کے لئے اہم نکات کو اٹھایا ہے۔ دیکھنا ہے کہ عالمی سپرپاور کے ساتھ پاکستان کے اسٹرٹیجک ڈائیلاگ سے پاکستان کو کب اور کتنے نتائج حاصل ہوتے ہیں؟
تازہ ترین