اسلام آباد (عمر چیمہ) سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اپنی کتاب ’’دی زرداری پریزیڈنسی‘‘ میں لکھا ہے کہ اگرچہ صدر آصف علی زرداری اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی نہیں تھے، لیکن انہوں نے جرنیلوں کو مطمئن رکھنے کی بہت کوششیں کی جس میں اُن کی سروس میں توسیع سے لے کر پارلیمنٹ میں سیاسی جوڑ توڑ اور نون لیگ کیخلاف کارروائیاں تک شامل تھیں۔ کتاب میں لکھا ہے کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے حکومت سے منظوری لیے بغیر چند لیفٹیننٹ جنرلز کو عہدوں میں توسیع دیدی۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ان توسیعات سے لاعلم تھے۔ زرداری نے اس معاملے پر کیانی سے اس بارے میں سوال کرنے کی تجاویز مسترد کردیں۔ حتیٰ کہ کیانی کو اپنی توسیع کے متعلق بھی علم نہیں تھا کہ یہ کس کی ہدایت پر کی گئی۔ چونکہ توسیع اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے دورہ پاکستان کے موقع پر ہوئی تھی اسلئے کئی لوگ یہ سمجھے کہ دونوں واقعات کا آپس میں تعلق ہے۔ فرحت اللہ بابر کے مطابق صدر زرداری سے میری جب بھی اس بارے میں بات چیت ہوئی تب صدر خاموش رہے۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی کیونکہ زرداری اکثر فیصلے بغیر مشاورت کے کرتے تھے۔ بعض اوقات تو بلاول بھی حیران ہوتے تھے۔ ہر مرتبہ زرداری اپنی پارٹی کے ایسے لوگوں کو بھروسہ کرنے کی تلقین کرتے تھے جو شکوک و شبہات میں مبتلا رہتے تھے۔ فرحت اللہ بابر لکھتے ہیں کہ جنرل کیانی ان افواہوں سے پریشان تھے کہ امریکی حکومت کی درخواست پر ان کی مدت ملازمت میں توسیع دی جا رہی ہے۔ مرحوم عارف نظامی نے بابر کو بتایا کہ کیانی نے انہیں ذاتی طور پر فون کرکے درخواست کی کہ ایسی رپورٹس شائع نہ کی جائیں۔ اس کے باوجود یہ معاملہ بڑے پیمانے پر زیر بحث رہا۔ توقعات کے مطابق، کلنٹن کا دورہ ختم ہونے کے فوراً بعد، کیانی کی توسیع کا باضابطہ طور پر اعلان کر دیا گیا۔ زرداری نے بابر کے ساتھ بات چیت میں اسے ایک جرات مندانہ فیصلہ قرار دیا، جبکہ اس وقت کے وزیر دفاع چوہدری احمد مختار نے بابر کو بتایا کہ وہ اس توسیع کے مخالف ہیں۔ برسوں بعد، عہدہ چھوڑنے کے بعد، زرداری نے پارٹی اجلاس میں بتایا کہ کیانی نے ابتدائی طور پر صرف 12 سے 18 ماہ کی توسیع مانگی تھی۔ زرداری نے کہا کہ انہوں نے کیانی کو بتایا کہ آرمی چیف کا عہدہ پولیس چیف کی طرح نہیں کہ انہیں ایک مرتبہ پھر توسیع دی جائے۔ زرداری نے کیانی کو بتایا کہ اس لیے انہیں مکمل تین سال کی توسیع دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ صادق سنجرانی سینیٹ کے چیئرمین کیسے بنے اس بات کو یاد کرتے ہوئے بابر لکھتے ہیں کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں حمایت کے بدلے ’’آزاد سینیٹرز‘‘ کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے امکان پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ آزاد سینیٹرز نے ابتدائی طور پر اتفاق کیا۔ جب بلاول نے پوچھا کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ شامل ہوں گے تو ’’مفاہمت کاروں‘‘ نے اپنے جواب سے سب کو دنگ کر دیا کہ کوئی گارنٹی نہیں۔ کسی نے تجویز دی کہ ’’آزاد سینیٹرز‘‘ کو قرآن پاک کی قسم کھانے کو کہا جائے کہ وہ اپنا وعدہ پورا کریں گے۔ زرداری نے اس خیال کو مسترد کر دیا اور بغیر کسی ضمانت کے ’’آزاد سینیٹرز‘‘ کی حمایت کا اعلان کیا۔ ایک اور موقع پر، زرداری نے نواز شریف کو فائدہ پہنچانے والی قانون سازی کا مقابلہ کرنے کا عزم کیا۔ نواز شریف کو پانامہ پیپرز کیس میں نا اہل قرار دیا جا چکا تھا اور اس کے بعد پارٹی عہدہ رکھنے سے بھی روک دیا گیا تھا۔ نون لیگ نے بطور پارٹی سربراہ ان کے دوبارہ انتخاب کی راہ ہموار کرنے کیلئے الیکشن ایکٹ 2017 منظور کر کے اس میں ترمیم کی۔ اس منظوری کے چند روز بعد ہی سینیٹ میں ایک پراسرار قرارداد منظر عام پر آئی۔ اس پر کسی بھی پارٹی کے دستخط نہیں تھے لیکن اسے کئی سینیٹرز کی حمایت حاصل تھی۔ سابق فاٹا سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر نے بابر کو بتایا کہ قرارداد کی کاپی انہیں اور فاٹا کے دیگر سینیٹرز کو ایک انٹیلی جنس افسر نے دی تھی۔ چند روز بعد زرداری نے زرداری ہاؤس میں پارٹی کا ہنگامی اجلاس بلایا جس میں انہوں نے نون لیگ کی جانب سے کی گئی ترمیم پر تنقید کی اور کہا کہ اسے ریورس ہونا چاہئے۔ رضا ربانی نے نشاندہی کی کہ چونکہ ترمیم کو تاحال صدارتی منظوری نہیں ملی، اس لیے اسے محض ایک قرارداد پاس کر کے منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ زرداری نے سوال کیا کہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ قانون کیخلاف قرارداد کیوں پیش نہیں کی جا سکتی جس پر ربانی نے جواب دیا کہ ایسا اقدام غیر موثر اور عجیب لگے گا۔ بابر نے یاد دہانی کرائی کہ فاٹا کے ایک سینیٹر نے انہیں قرارداد کی کاپی دکھائی۔ زرداری کو حیرت نہیں ہوئی۔ اس کے بجائے، انہوں نے کہا کہ ایک کاپی پیپلز پارٹی کے ایک سینیٹر کے پاس بھی تھی، جو ایک قابل اعتماد ہے۔