• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی پر خامہ فرسائی کے لئے کسی فرد یا گروپ نے کوئی ہدایت نامہ میرے ہاتھ میں نہیں پکڑایا نہ کسی نے کبھی بھی، کہیں بھی اور کسی بھی نوعیت کے دبائو سے کام لیا۔ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے مظلوم ترین ہونے، اس کی مرکزی قیادت اور اس کے کارکنوں کو موت کی وادیوں اور اترا و جھوٹ کے اندھیروں میں رکھنے کے بے دید اور بے رحم تسلسل نے قلم اٹھانے کی سچائی اور ناگزیت کا قائل کیا، خصوصاً 4؍اپریل 1979ء کی شب آنے تک اسلام اور روایات کے خود ساختہ مقبروں کی من مانی تعبیروں کے ہاتھوں، گزرے تقریباً ساڑھے گیارہ سو برسوں میں اجتماعی پیمانے پر جو کچھ ہوا، اس کی آئوٹ لائن البتہ پوری طرح ادراک میں آ گئی، انسانی محدودیت اپنی جگہ جس کے تحت بندہ غلطی یا خامی سے بچ نہیں سکتا۔ اس پس منظر میں یہ کوشش صرف برصغیر کی دھرتی پہ موجود جبلت کے صرف ایک نکتے پر مرتکز ہو جاتی ہے، سارا راز ہی آشکار نہیں ہوتا اپنی ساری پرتوں کی ایک کہکشاں میں لے جاتا ہے یعنی ذوالفقار علی بھٹو نے قریب قریب ساڑھے سات سو برس بیت جانے کے بعد ایک عام آدمی کے دل میں اس فراموش کردہ جرثومے کو دوبارہ نہایت طاقتور آن بان کے ساتھ کیوں زندہ کر دیا، یہ کہ میری اپنی ایک ذات ہے، میں خود ایک آکائی ہوں، میرا ایک اللہ کے علاوہ کوئی خالق نہیں، پھر مجھے صدیوں سے زیر نگیں مخلوق ہونے اور رہنے کی روایت میں کیوں دھکیلا گیا ہے؟ میں خالق کا عام آدمی ہوں تو سب عام آدمی ہیں، لہٰذا اس ایک اللہ کے علاوہ، کوئی دوسرا میرا آقا نہیں، جس طرح انسانی قوانین و ضوابط کی رو سے اوروں کا بھی یہ حق ہے بعینہٖ میرا ان پہ حق ہے، ہم ہر جہت سے برابر ہیں، مساواتی ہیں!
بس یہ تھا ذوالفقار علی بھٹو کا قصور، جو اس نے عام آدمی کے ذہن میں راسخ کر دیا، ملت اسلامیہ کے اتحاد کو آواز دی، افرو ایشیائی اقوام کی تیسری دنیا کو عالمی برادری کے برابر کی آکائی ہونے کا شعور بخشا، چنانچہ عالم تمام سے لے کر پاکستان تک ’’وہ‘‘ سب جمع ہوئے جنہیں ایک اللہ کی حاکمیت کی وہ تفسیراور عملیت کبھی بھی قبول نہیں ہو سکی جو انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلا کر آزادی و مساوات کی منزل سے ہم کنار و ہم آہنگ کر دے۔ ان طاقتوں نے بالآخر ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار کو سرفراز کر دینے کا موقع فراہم کیا، انہیں اطمینان ہو گیا مگر کہانی ختم نہیں شروع ہوئی، وہ عام آدمی ابھی تک پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ منسلک ہے، پیپلز پارٹی کے ساتھ جھگڑا صرف اسی صورت میں ختم ہو سکتا ہے جب یا تو عام آدمی کا انہیں آخری قہقہ سنائی دے جائے یا وہ اس کا پی پی کے ساتھ ذہنی رشتہ منقطع کرنے میں کامیاب ہو جائیں!
چنانچہ بات سابق صدر آصف علی زرداری کی جنرل راحیل شریف کو توسیع دینے سے متعلق ’’پراسرار‘‘ بیان تک ہی مختص نہیں، نہ یہ کسی ’’گریٹ گیم‘‘کا حصہ بننے کی کوئی تمنا ہے، نہ ذوالفقار مرزا کے ’’مسعود محمود‘‘ بن جانے کے خوف کی کسی ممکنہ پیش بندی کا شاخسانہ ہے۔ آصف علی زرداری کے قصور بنیادی ہیں، سب معاف کئے جا سکتے ہیں یا انہیں قصہ ماضی سمجھا جا سکتا ہے لیکن وہ ذوالفقار علی بھٹو کا داماد بھی ہے؟ یہ ’’گناہ‘‘ اسے بہرحال بھگتنا پڑے گا، چاہے وہ جنرل (ر) اشفاق کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع قبول بھی کرے مگر ’’میمو گیٹ‘‘ اسکینڈل نہیں رک سکتا تھا نہ دنیا کے تسلیم شدہ کاروباری آدمی منصور اعجاز کو پاکستان کا سب سے بڑا ’’محب وطن‘‘ ثابت کر کے آصف علی زرداری اور حسین حقانی کو ’’غدار‘‘ ثابت کرنے کی جدوجہد کو ترک کیا جا سکتا تھا۔
قید وبند کی صعوبتوں کا مقابلہ کرنے والے ڈاکٹر عاصم نے، عجب بات ہے اتنے ’’مفضوب شخص‘‘ کا ساتھ ہونے کے باعث مبتلائے مصیبت میں رہنے کے بعد بھی، باوجود جان چھڑانے کا راستہ اپنانے کے الٹا اس ادارے کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی رینجر) پر 500کروڑ ہرجانے کا دعویٰ کر دیا جو بقول ڈاکٹر صاحب ’’انہیں طوطے کی طرح بلوانا چاہتے تھے۔‘‘
اب آپ اسی مناظر میں برطانیہ میں دو بار ہائی کمشنر کے عہدے پر فائز رہنے والے واجد شمس الحسن کا حالیہ بیان ملاحظہ فرمایئے، یہ بیان ہمارے ہی اخبار میں شائع ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے:
’’برطانیہ میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے 4لاکھ 37ہزار پائونڈ اسٹرلنگ (6کروڑ 34روپے) مالیت کا چیک دفتر خارجہ کو واپس کر دیا ہے اور ان پر خفیہ فنڈز میں جعلسازی اور خورد برد کے حالیہ الزامات بے بنیاد ہیں تاہم سابق سفارت کار کا کہنا ہے کہ مذکورہ الزامات کے حوالے سے قومی احتساب بیورو(نیب) سے رابطہ کرنا باقی ہے۔ واجد شمس الحسن جو سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ہیں، ان کے خلاف پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ہدایات پر نیب تحقیقات کر رہا ہے۔ سابق ہائی کمشنر نے کہا کہ انہوں نے مذکورہ چیک فروری 1997ء میں دفتر خارجہ کو واپس کر دیا تھا، چیک کہاں گیا؟ اب یہ نیب ناکام ہے کہ تحقیقات کرے۔ انہوں نے کہا کہ چیک دفتر خارجہ اسلام آباد نیشنل بینک کے چیف اکائونٹس آفیسر کے حوالے کیا گیا جس کی نقل بھی دستیاب ہے۔ یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی نے خفیہ فنڈز واپس کیا ہو؟ جگہ کی قلت کے سبب باقی تفصیلی بیان چھوڑتے ہوئے ، فی الحال صرف اس جملے پر دعوت فکر دی جاتی ہے۔ ’’واجد شمس الحسن جو سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ہیں!‘‘
اب سنا ہے، پیپلز پارٹی میں ’’انہوں‘‘ نے فاورڈ بلاک تشکیل دے دیا ہے۔ ’’گینگ آف فور (چار کا ٹولہ) اور ’’پورس کے ہاتھیوں‘‘ کی کہانی ان کالموں میں جاری، لیکن وہی تنگی دامان کالم! سو اگلی نشست تک جناب واجد شمس الحسن کے سلسلے سمیت انتظار فرمایئے۔
تازہ ترین