1965ء کی توپوں کے گولوں سے کھڑکیوں کی طرح بجتی ہوئی ایک صبح تھی جب برطانوی نشریاتی ادارےنے کہا تھا بھارتی فوجیں لاہور میں داخل ہو گئیں۔ پاکستانیوں کی پُر اعتبار سماعتیں بے اعتباری کی دراڑوں سے بھر گئی تھیں ۔دراڑوں کے زخم بھر جانے کیلئے 53سال بہت ہوتے ہیں مگر نیتوں کے داغ تو سروں کے ساتھ جایا کرتے ہیں ۔غیر ملکی نشریاتی ادارےمسلسل انہی زخموں کو ہرا کرتے رہتے ہیں ۔ غلط بیانی کے چشمے پھوٹتے رہتے ہیں ۔امریکی صدر تک پاکستان کے خلاف جاری پروپیگنڈاکا حصہ بنتا رہتا ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بنتے ہی پاکستان پر الزام لگایا تھا گذشتہ15 برس میں 33 ارب ڈالر کی امداد لینے کے باوجودپاکستان نےامریکہ کو سوائے جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا اور ابھی تک ویسے ہی الزام دوہرائے جار ہے ہیں۔میں اس وقت کوئٹہ میں ایف سی ہیڈ کوارٹر سے ایکسی لینس ایوارڈ کی تقریب سے نکلا ہوں اور پھر اُسی طرح کے کسی الزام کی گونج سن رہا ہوں ۔بلوچستان میں دہشت گردی کی جو جنگ شروع کی گئی تھی۔جس کا ہدایت نامہ سمندروں کے اُس طرف سے آتی ہوئی ہواکی الیکٹرانک لہروں پر لکھا ہوتا تھا۔اس میں الحمدللہ پاکستان آرمی اور بلوچستان کے عوام فتح مند ہوچکے ہیں۔ابھی تھوڑی دیر پہلے کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ ’’الحمدللہ بلوچستان میں دہشت گردی دم توڑ چکی ہے اور یہاں اب امن کا دور دورہ ہے‘‘۔ ممکن ہے صدر ٹرمپ کو اس بات کی تکلیف بھی ہو۔
غیر ملکی ذرائع ابلاغ دہشت گردی کی اِن کاروائیوں کو ’’بلوچ قوم پرستی کی تحریک ‘‘ قرار دیتے رہے ۔دبے لفظوں میں اسے آزادبلوچستان کی تحریک بھی کہا گیا۔کشمیرکی آزادی کے مجاہدین تو انہیں ا بھی تک دہشت گرد نظر آتے ہیں، بھارتی فوجیوں کے تشّدد یا گولیوں سے چھلنی ہوئی کشمیریوں کی لاشیں دیکھ کر یہ لوگ اپنی آنکھوں پر نجانے کونسے رنگ کی عینک چڑھا لیتے ہیں کہ سچائی کامنظر ہی بدل جاتا ہے ۔وہاں کی فوجی ایجنسیوں کے اغوا کردہ کشمیریوں کی فہرستیں تو انہوں نے کبھی نہیں بنائیں۔عالمی میڈیا نےکشمیر ی عورتوں کی عصمت دری کی خبریں کبھی نہیں نشر کیں مگربلوچستان میں گم ہوجانے والے ایک ایک شخص کےلئے تڑپ تڑپ جاتا ہے۔بلوچستان میں دہشت گردی کی جنگ دو محاذوں پر لڑی گئی ۔ایک طرف طالبان تھےاور دوسرے دشمنوں کے ورغلائے ہوئے بلوچ۔چونکہ دونوں کو ایک ہی طرح کے لوگ سپورٹ کررہے تھےاس لئے اکثر معاملات میں یہ سارے دشمن ایک ہوچکے تھے۔مگر ایف سی کے اہلکاروں نے ہر وار کو اپنی چھاتی پر برداشت کیا، جانوں کی قربانیاں دیں اور بین الاقوامی دشمنوں کےہولناک اور خطرناک عزائم مٹی میں ملا دئیے ۔اور اس وقت صورت حال یہ ہےکہ بلوچستان میں امن کی فاختہ لہکتی ہوئی شاخِ زیتون پر آبیٹھی ہے۔بے شمار لوگ ہتھیار پھینک کر پھر قومی دھارے میں شامل ہوچکے ہیں اور سینکڑوں واپس آنا چاہتے ہیں ۔حکومت ِ بلوچستان نے اس حوالے سے باقاعدہ ایک پروگرام شروع کررکھا ہے ۔
وہ ممالک جو بلوچستان میں دخل اندازی کر رہے تھے ۔ وہ اپنی ناکامی پر جھنجھلا رہے ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا موجودہ بیان بھی اِ سی جھنجھلاہٹ کا نتیجہ ہے ۔امریکہ افغانستان میں جنگ ہار چکا ہے اُس نے جو کھربوں ڈالر وں کے بم افغانستان کے پہاڑوں پر گرائے تھے وہ بے کار گئے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ کو افغانستان کے پہاڑوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا ۔وہ تو پاکستان اور چین کے معاملات پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کےلئے وہاں تھا جس میں اسےناکامی ہوئی ،پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ جیت لی ،۔خارجہ پالیسی میں اتنی بہتری آئی کہ سعودیہ اور ایران دونوں دوستی کا دم بھر نے لگے۔ چین نے پندرہ ارب کا معاشی پیکج دےدیا ۔دبئی بھی پیچھے نہیں رہا۔ یعنی معاشی جنگ بھی جیتنے کے واضح امکانات ہیں ۔عمران خان کی حکومت دنیا میں پسندیدگی کی نظر سے د یکھی گئی ۔اللہ تعالی کاکرم ہوا اقتدار اسے ملاجومالی معاملات میں انتہائی امانتدار شخص ہے ۔اب دیکھنا ہے کہ ترقی کی رفتار کیسے تیز ہوگی ۔وہ لوگ جو اس کے ہاتھ پائوں ہیں ان میں کتنی اہلیت ہے ،وہ کتنے جلدی ملک کو ترقی کے شاہراہ پر ڈال سکتے ہیں ۔
عمران خان نے جو ڈونلڈ ٹرمپ کو ریکارڈ درست کرنے کا مشورہ دیا کہ’’نائن الیون حملوں میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا،اس کے باوجود ہم نے دہشت گردی کےخلاف امریکا کی جنگ میں ساتھ دیا۔ 75 ہزار پاکستانیوں نے جانیں قربان کیں۔اِس جنگ میں پاکستانی معیشت کو123 ارب ڈالرز سےزائد کا نقصان ہوا۔امریکا نے صرف 20 ارب ڈالر دئیے۔‘‘پاکستان اگر نیٹوکے کینٹینرز پر راہداری ٹیکس لگا دیتا تو امریکہ کو اس سے کہیں زیادہ رقم دینا پڑتی ۔غیر سنجیدہ امریکی صدر نے عمران خان کے جواب میں ٹویٹر پر لکھا کہ پاکستان نے اربوں ڈالر وصول کئے مگر ہمیں اسامہ بن لادن کے متعلق کچھ نہیں بتایا، دوسرے ممالک کی طرح پیسے لے کر پاکستان نے بھی کچھ نہیں کیا۔ ہم پاکستان کو مزید لاکھوں ڈالرز نہیں دیں گے۔
ٹرمپ اس بات سے صرفِ نظر کر رہے ہیں کہ یہ رقم امداد کی مد میں نہیں تھیبلکہدہشت گردی کے خلاف پاک فوج کے اخراجات کی ادائیگی کے لئے کولیشن اسپورٹ فنڈ سے متعلق تھی۔اگر امریکہ یہ رقم ادا نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکہ اب پاک فوج سے کسی طرح کا کام نہیں کرانا چاہتا یقیناً جب تک گذشتہ بل ادا نہیں ہونگے تو پاکستان آگے کیسے امریکہ کےلئے کوئی کام کرے گا۔ میرے خیال میں پیٹاگون اپنے صدر کو یہ رقم ادا کرنے پرمجبور کرے گا یا پھر امریکہ سنجیدگی کے ساتھ افغانستان سے واقعی اپنی فوجیں نکال لے جانے کا سوچ رہا ہے۔بہرحال امریکہ کےلئے کوئی تیسرا راستہ موجود نہیں ۔امریکہ کی ناراضی کا اظہار آئی ایم ایف کی طرف بھی سامنے آ گیا ہے اُس نے مطالبہ کیا ہے بجلی کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافہ ، روپے کی قدر میں کمی اور پاک چین مالی معاونت کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ لگتا ہے اب پاکستان کوآئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے انکار کرنا پڑے گا۔تھوڑے سے حالات میں مشکل بڑھ جائے گی مگرپاکستان کوئی لمیٹڈ کمپنی تھوڑی ہے کہ اُس کا دیوالیہ ہوجائے گا۔ہاں چین اور سعودیہ پر زیادہ انحصار کرنا پڑےگا۔