• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم کیلئے اسلامی مارگیج سسٹم لانے پر غور، انصار عباسی

اسلام آباد: معلوم ہوا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت اپنے نیا پاکستان ہائوسنگ پروجیکٹ کیلئے شریعہ مالیاتی اور بینکنگ ماڈل لانے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو مختلف لوگوں نے مشورہ دیا ہے کہ وہ ہائوسنگ پروجیکٹ کیلئے سود کی بنیاد پر چلنے والے روایتی مارگیج سسٹم سے گریز کریں کیونکہ اسلام میں اس کی ممانعت ہے اور اسے گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک ذریعے کے مطابق، ایک وفاقی وزیر نے بھی عمران خان سے کہا ہے کہ جب آپ مدینہ کی ریاست کا ماڈل بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں تو ایسی صورت میں سود / ربا کی بنیاد پر ہائوسنگ پروجیکٹ شروع کرنا ایک بڑی غلطی اور گناہِ کبیرہ ہوگا۔ وزیراعظم کے مشیر برائے میڈیا افتخار درانی نے رابطہ کرنے پر دی نیوز کو اس بات کی تصدیق کی کہ ہائوسنگ پروجیکٹ کیلئے شرعی اسلامی مارگیج آپشن پر بحث و مباحثہ اور غور و خوص جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ غریب اور پسماندہ افراد کیلئے حکومت اسلامی اخوت ماڈل لانے پر غور کر رہی ہے، جس پر پاکستان میں ایک نجی کمپنی عمل پیرا ہے اور کسی طرح کے سود میں ملوث نہیں۔ درانی نے کہا کہ اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ اخوت ماڈل کے تحت دس لاکھ گھر فنانس کیے جائیں۔ اس ماڈل کے تحت، ایک نجی کمپنی سود سے پاک ہائوسنگ قرضہ دے گی جو گھروں کی آرائش نو، کمروں، چھتوں، دیواروں وغیرہ کی تعمیر کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ یہ قرضہ ان افراد کو دیا جائے گا جو غریب ہیں اور ان کے پاس تھوڑی سی زمین یا پانچ مرلہ تک کا گھر ہے اور ان کے اہل خانہ کی تعداد 8؍ یا اس سے زیادہ ہے۔ درانی نے کہا کہ کچی آبادی کے گھروں کیلئے بھی نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم میں سود سے پاک آپشن دیا جائے گا۔ نچلے طبقے اور متوسط طبقے کیلئے، مارگیج کی بنیاد پر ہائوسنگ اسکیم متعارف کرائی جائے گی۔ یہ واضح نہیں کہ پوری نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم شرعی مالیاتی نظام کی بنیاد پر ہوگی یا روایتی اور اسلامک مارگیج کا ملاپ ہوگی۔ روایتی مارگیج سسٹم میں خریدار ادھار دینے والے سے رقم لیتا ہے جو سود سمیت واپس کی جاتی ہے۔ تاہم، شرعی اسلامی مارگیج کے متبادل اسلامی فنانس کے اصول، مشارکہ اور اجارہ، پر مبنی ہیں۔ مشارکہ جوائنٹ انٹرپرائز یا شراکت داری کے ڈھانچے پر قائم ہے جس میں شراکت دار منافع اور خسارے میں شراکت دار ہوتے ہیں۔ چونکہ اسلامی شرعی قوانین قرضہ کے اجراء میں سود کی اجازت نہیں دیتے اسلئے مشارکہ میں منصوبے میں مال خرچ کرنے والے شخص یا کمپنی (فنانسیئر) کو اصل منافع میں سے پہلے سے طے شدہ تناسب سے تھوڑے حصہ کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ تاہم، ادھار دینے والی روایتی کمپنی کے برعکس، فنانسیئر اس پروجیکٹ میں ہونے والے ممکنہ طور پر کسی بھی خسارے میں بھی شراکت دار ہوگا، جس کا تناسب بھی پہلے سے طے شدہ ہوگا۔ دوسری جانب اجارہ ایک ایسا معاہدہ ہے جو روایتی لیزنگ سے مماثلت رکھنے کی وجہ سے بہت مقبول ہے۔ اجارہ معاہدہ جات اسلامی بینکاری، پروجیکٹ فنانس اور ساتھ ہی سکوک میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اجارہ کنٹریکٹ میں ایک پارٹی کوئی بھی چیز خرید کر اسے صارف کو ایک مخصوص کرایے کے عوض دیتی ہے۔ کرایہ اور دیگر فیس پہلے سے طے کی جاتی ہیں اور اس چیز کی ملکیت کے حقوق وہ چیز لیز پر دینے والے کے پاس ہوتے ہیں۔ اجارہ کنٹریکٹ کی ایک مثال یہ ہے کہ اسلامی بینک کسی صارف کیلئے گھر خریدے اور اس میں انتظامی اخراجات شامل کر لے۔ اس کے بعد وہ صارف اس وقت تک کرایہ ادا کرتا رہے جب تک مکمل رقم ادا نہیں ہو جاتی، جس کے بعد گھر کی ملکیت صارف کے نام منتقل کر دی جاتی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین