• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تین باتیں تو واضح ہیں۔ اول یہ کہ نوازشریف آج نہیں توکل، ایک بارپھرجیل جائیں گے۔ دوم یہ کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے جیل جانے کے بارے فیصلہ بھی دسمبر میں ہوجائے گا اور سوم یہ کہ ان لیڈروں کے جیل جانے سے بھی ملکی معیشت پر کوئی مثبت اثر پڑے گا نہ عام آدمی کے حالات بہتر ہونگے کہ اسکی زندگی میں بھی کوئی اطمینان آسکے۔

اگرکوئی سمجھتا ہے کہ نوازشریف محض اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی وفات پر چپ ہیں تو یہ اسکی بھول ہے۔ واضح طور پر نظرآ رہا ہے کہ نوازشریف اپنی بیٹی مریم کے بہتر مستقبل کے لیے کوئی سودا کرچکے ہیں۔ وہ جیل جائیں گے اور بیٹی خاموش رہے گی یا پھرحکومت سے بیرون ملک جانے کی اجازت لینے کے بعد کچھ عرصے کے لیے مکمل طورپر نظروں سے اوجھل ہو جائے اور وقت آنےپر زبان کھولے۔ کچھ بھی بعید از قیاس نہیں۔ عمران خان سابق صدر آصف علی زرداری کوبھی جیل بھیجنے پر بضد ہیں مگر اس کے بعد کیا نوجوان بلاول بھٹوسندھ کو کنٹرول میں رکھ پائے گا؟چلیے یہ تو سیاسی معاملہ ہے،ان مسائل کی طرف آئیے جو ان سے بھی بڑے ہیں۔ ہمارے رہنما تو پہلے بھی جیل بھیجے جاتے رہے مگرکبھی زمین پھٹی نہ آسمان ٹوٹا۔ ہاں اقتدار کے کھیل میں اصل کھلاڑی کبھی سامنے آئے نہ ا ب ان کے سامنے آنے کی کوئی امید ہے کیونکہ جیل کی ڈیوڑھی اور اقتدار کی راہداریوں کے درمیان بھاگنے والے کسی اصل کردارکا نام لینے کو ابھی تک تیار ہیں نہ متحد۔ادھر حکومت کے پہلے سو دن کی کارکردگی معیشت کے محاذپر ناکامی، خارجہ امور میں جزوی کامیابی جبکہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپوزیشن سے جھگڑوں اور لعن طعن سے عبارت ہے۔ ’’سب کچھ سابق حکمرانوں کا کیا دھرا ہے‘‘کا منترا ، زیادہ دیر چلنے والا نہیں۔

وزیراعظم عمران خان کی کوششوں سے ملکی خزانے میں ڈالرز کی مصنوعی دستیابی تو کردی گئی ہے مگرکیا آئندہ سال بجٹ تک حکومت معاشی محاذ پربہتر کارکردگی دکھا پائے گی؟ فی الحال ایسا کچھ نہیں نظرآ رہا۔ اقتدار کے ایوانوں سے سرگوشیاں سننے میں آرہی ہیں کہ وزیرخزانہ اسد عمر کا سمجھدار متبادل ڈھونڈا جارہا ہے۔ پتہ نہیں کوئی ملے گا بھی یا نہیں تاہم حکومت کےایک ذمہ دار نے معیشت کا جن بوتل میں بند کرنے کے لیے چپکے چپکے بیرون ملک مفرور اسحاق ڈار سےبھی رابطہ کرلیا ہے۔ پتہ نہیں پہلے ہی اپنے کیسوں سے جلے کٹے اسحاق ڈار نے کوئی درست مشورہ بھی دیا یا ٹرخانے پر ہی اکتفا کردیا۔ملک کے اصل مسائل معیشت سے تو جڑے ہوئے ہیں مگر وہ معیشت سے بھی بڑے ہیں۔

وقت تیزی سے گزررہا ہے اور Financial Action Task Forceکی طرف سےدی گئی ہدایات پر عملدرآمد موثرانداز میں نہیں ہوپارہا۔ ابھی تک بین الاقوامی طور پر دہشت گردی کے الزامات کی حامل جماعتوں اور افراد کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کی جاسکی۔

پاکستان اب تک فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے 40میں سے 33 نکات پر مکمل عملدرآمد نہیں کرسکا۔ گو کہ حکومت کے دعوے مختلف ہیں مگرتمام اشارے بتارہے ہیں کہ آئندہ سال اکتوبر میں خدانخواستہ ہم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی بلیک لسٹ میں شامل ہوجائیں گے۔ جس سے عالمی سطح پرپاکستان پر تین فوری نتائج برآمد ہوںگے۔اول یہ کہ ہماری برآمدات کی رفتارانتہائی سست ہوجائے گی۔ سادہ الفاظ میں یہ کہ جو اشیا ہم پندرہ دن میں بیرون ممالک بھیج رہے ہیں وہ چھ چھ مہینوں تک نگرانی کے عمل سے گزرنے کے بعد اپنی منزل پر پہنچیں گی۔ ظاہر ہے اس سے بیرونی دنیا کے ساتھ پاکستان کے کاروبارپر انتہائی منفی اثر پڑے گا۔

دوم یہ کہ عالمی مالیاتی اداروں اور بینکنگ نظام کے ساتھ ہمارے معاملات اوربھی ابتر ہوجائیں گے۔ سب سے آخریہ کہ ہماری اسٹاک مارکیٹ بیٹھ جائے گی اور پاکستانی روپے کی قدر مزید کم ہوگی جس سے ملک میں مہنگائی کا طوفان ہی نہیں بلکہ زلزلہ بھی آجائے گا۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوجائے گی۔

ایسی صورت میں گرفتار کیے گئے لیڈر ہیرو بن جائیں گے اور ایوان اقتدار میں بیٹھے افراد ولن۔ گو گو اور نو نو کے نعرے عروج اختیار کرلیں گے۔ اس ساری صورتحال کے مرکز، پنجاب ، سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا پر الگ الگ اثرات مرتب ہونگے۔

اس سب سے بچنے کے لیے ملکی اداروں کے بارے میں مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے والوں کے لیے کسی واضح حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔

پشتون بھائی پہلے ہی افغان اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کے زخم خوردہ ہیں۔ ہمیں ان کے زخموں پر مرہم رکھنا ہوگا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی قیادت کوتو مقدمات کا سامنا ہے مگر پارٹی پر بھی نقب لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سنا ہے کچھ ارکان صوبائی اسمبلی پارٹی آصف زرداری کے جیل جانے کے بعد ممکنہ طور پر سامنے آئیںگے۔ ایم کیوایم کے پہلے ہی ٹکڑے کردئیے گئے ہیں۔ مگر کیا اصل ایم کیو ایم ختم ہوگئی ؟ جی نہیں وہ آج بھی مقامی آبادی میں پہلے سے زیادہ زوردار طریقے سے موجود ہے۔ صرف قیادت کا فقدان ہے۔ وقت بدلا تواس کا بھی کوئی حل نکل آئے گا۔ مگر پارٹیوں کے ساتھ ایسا سب کچھ مسائل کا خاتمہ نہیں ان میں اضافے کے مترادف ہوگا۔

اس سارے منظر نامے میں ایک حادثہ ساری صورتحال تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مشرف کا اقتدار افتخارچوہدری کی برخاستگی کے حکم نامے سے زوال پذیر ہوا۔ اگر معاشی حالات دگر گوں ہوگئے تو غیر روایتی سیاست کانعرہ لگانے والوں کو روایتی مشکل آن گھیرے گی۔ لیکن پنجاب میں انتہاپسندی اور سیاسی تقسیم، سندھ میں بڑھتی ہوئی نفرت اور خیبرپختو نخوامیں مرکز مخالف جذبات کہیں ہمیں کسی سنگینی سے ہی دوچارنہ کردیں۔ بلوچستان میں آبادی کم اور کنٹرول زیادہ ہے لہٰذا وہاں وہی کچھ ہوگا جو مرکز یا مرکزی طاقت چاہے گی۔

کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے تحفظات کو سچ ثابت کیا ہے۔ دہشت گردی کا جن سورہا ہے ، مرا نہیں۔ اگر خدانخواستہ منفی عناصر نے پڑوسی ممالک میں بھی کوئی کارروائی کی تو نتیجہ ہم سب کو بھگتنا پڑے گا۔ لہٰذا دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائی کے علاوہ ہمارےپاس کوئی چارہ نہیں۔

ذرا سوچئے کہ اس سارے منظر نامے میں بیان کیے گئے تمام مسائل پہلے سے بیمارریاست پر یکجا ہوکر حملہ آور ہوئے تو سال 2019 کامیابی کا سال ہوگا یا ابتری کا؟

تازہ ترین