• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شائرین رانا، ملتان … عکّاسی: عقیل چوہدری

ہماری ثقافتی روایات میں حجّام، جسے پُرانے وقتوں میں’’نائی‘‘ بھی کہا جاتا تھا، گھر کا اہم رُکن تصوّر کیا جاتا تھا۔ وہ یوں کہ بالوں کی کٹائی، داڑھی کی تراش خراش یا بچّے کے ختنے سے لے کر خاندانوں کو باہم ملانے تک، رشتے طے کرنے اور شادی بیاہ کی رسومات میں اس کردار کی اِک خاص اہمیت تھی۔ قیامِ پاکستان سے قبل اور بعد میں بھی کئی دہائیوں تک’’نائی‘‘ ان امور کی انجام دہی میں مصروف رہا۔ پُرانے دَور کے شادی بیاہ کا ایک دِل چسپ پہلو یہ تھا کہ جب کسی گھر میں بچّوں کو شادی کے بندھن سے باندھنا ہوتا، تو ’’نائی‘‘ نہ صرف پیغام رسانی کرتا، بلکہ دونوں جانب کی ذمّے داری بھی اٹھاتا( اور یہ رشتے پائیدار بھی ٹھہرتے)۔ ان تمام کاموں کے عوض اُس کے گھر سال بھر کا ا ناج اکٹھا ہو جاتا اور وہ چند روپے بھی جمع کرلیتا، مگر وقت بدلتے ہی گھر، گھر پِھرنے والا یہ کردار، مخصوص جگہ دُکان بنا کر اپنی دال روٹی کا بندوبست کرنے لگا اور پھر حجّام کی دُکان، سماجی رابطوں کی مضبوطی اور بحالی کا مرکز بن گئی۔

اگر مغرب پر نظر ڈالی جائے، تو وہاں بھی ماضی میں حجّام قریب قریب اسی طرح کے کام کرتے رہے ہیں۔ نیز، وہ زخموں کی سرجری، جونک کے ذریعے گندا خون نکالنے اور دانت نکالنے کا کام بھی کیا کرتے تھے،اسی لیے اُنہیں’’ باربر سرجن‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔حجّام کا اسی نوعیت کا کردار، پانچ ہزار قبلِ مسیح، مِصر میں بھی ملتا ہے، جہاں سے سیپ کے خول یا ایک قسم کے سخت نوکیلے پتھر سے بنائے گئے دھاری دار اوزار ملے ہیں، جو حجّام استعمال کیا کرتے تھے۔ مِصری ثقافت میں حجّام، ایک محترم شخصیت تصوّر کی جاتی۔اسی طرح، شمال وسطی امریکا کی قدیم مایا تہذیب اور اروکوی قبائل میں بھی حجّام، ایک فعال کردار کی صورت نظر آتا ہے۔ پھر یہ کہ آٹھویں صدی کے بحرِ شمال کے ڈاکو اور قدیم منگولیا میں داڑھی کی مخصوص انداز میں تراش خراش باقاعدہ ایک فن کی حیثیت رکھتی تھی اور اس کے ماہرین کو سماج میں امتیازی مقام حاصل تھا۔ یونانی، حجّام سے بال، ناخن کٹواتے اور داڑھی ترشواتے۔ روم میں حجّام کا پیشہ، یونان سے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے حجّام نہ صرف امیر، بلکہ خاصے اثرورسوخ کے بھی مالک بن گئے۔ انیس ویں صدی میں امریکا میں’’ باربر‘‘ یعنی حجّام کی جگہ’’ Chirotonsor ‘‘لفظ متعارف کروایا گیا۔ پھر اسے’’ ہیئر ڈریسر‘‘ کہا جانے لگا اور اس کے کام میں بھی جدّت آتی چلی گئی۔ اور اب سفر ہیئر ڈریسر سے آگے بڑھتے ہوئے’’ cosmetologist‘‘ تک آ پہنچا ہے۔اب حجّام کا کام محض بالوں کی روایتی تراش خراش تک محدود نہیں رہا، بلکہ اُن کی دُکانیں خواتین کے بیوٹی پارلرز کی مانند نظر آتی ہیں، جہاں ماہرینِ آرائش، مَردوں کی خُوب سے خُوب تر نظر آنے کی خواہش کو حقیقت کا رنگ دیتے ہیں۔ مَردانہ بیوٹی سیلونز (Men's Beauty Salons)کا رواج اس قدر فروغ پا رہا ہے کہ اب شاید ہی کوئی ایسا شہر ہو، جہاں مَردوں کو بناؤ سنگھار کی سہولتیں حاصل نہ ہوں۔ حجّام کی دُکانوں کو بیوٹی سیلون کی شکل دینے میں جہاں سوشل میڈیا نے کردار ادا کیا، وہیں ٹی وی چینلز کے مارننگ شوز کا کردار بھی کچھ کم اہم نہیں۔ ان شوز میں خواتین کے ساتھ، مَردوں کے بنائو سنگھار سے متعلق بھی خوب آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ پروگرامز میں شریک مَردوں نے خود کو خُوب صورت ملبوسات سے آراستہ کر رکھا ہوتا ہے، تو بال جدید فیشن کے مطابق سنوارے ہوتے ہیں، پھر یہ کہ چہرے کو پُرکشش بنانے کے لیے مخصوص میک اوور کر رکھا ہوتا ہے، جس سے اُن کی شخصیت میں نکھار آ جاتا ہے۔ خاص طور پر شادی بیاہ سے متعلق ٹی وی شوز اور ڈراموں وغیرہ میں خواتین کی طرح، مَردوں کو بھی’’ تیار‘‘ ہوتے دِکھایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مَردوں میں بھی اپنی شخصیت کو پُرکشش بنانے کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے اور مَردوں کا سیلون جانا بھی اسی قدر ضروری ہوچُکا ہے، جتنا کہ خواتین کا بیوٹی پارلرز جانا، جب کہ شادی بیاہ کے موقعے پر دُلہن کے ساتھ، دُلہا بھی فیشل سے لے کر میک اوور تک کے مراحل سے گزرتا ہے اور اب اُس کی’’ تیاری‘‘ بھی کئی گھنٹوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک زمانے میں حجّام کی دُکان میں چند اوزار، قینچی، کنگھی، پائوڈر، اُسترے وغیرہ ہی ملتے تھے، مگر اب ایک سے بڑھ کر ایک جدید آلات استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اب وہاں صرف بال ہی نہیں کاٹے جاتے، بلکہ کلینزنگ، فیشل، باڈی مساج، تھریڈنگ، ویکس اور میک اوور بھی ہوتا ہے۔

ماضی میں کچھ پیشے، چند خاندانوں سے منسوب تھے، تاہم موجودہ سیلونز نے اس روایت کو بھی مکمل طور پر بدل ڈالا ہے، کیوں کہ اب بڑے کاروباری خاندان، اداکار، ڈاکٹرز وغیرہ بھی مَردوں کے بیوٹی سیلون چلا رہے ہیں اور یہ کام ایک ایسے کاروبار کی شکل اختیار کرچُکا ہے، جس میں لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بڑھے ہیں، تو پیسا بھی خُوب کمایا جا رہا ہے کہ آج کل لوگ سب سے زیادہ رقم خود کو منفرد اور دِل کش بنانے پر صَرف کرتے ہیں۔ اگر مَردوں کے بال کٹوانے کے چارجز کی بات کریں، تو جو کام عام حجّام پچاس روپے میں کرتا ہے، وہی ان سیلونز میں تین سو سے تین ہزار روپے تک میں ہوتا ہے۔ ان سیلونز پر جہاں سروسز عمدگی سے فراہم کی جاتی ہیں، وہیں سیلونز کا ماحول بھی پُرسکون اور آرام دہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ٹی وی، میوزک کے ساتھ، جرائد کے مطالعے اور انٹرنیٹ کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے تاکہ انتظار کرتے ہوئے بوریت کا احساس نہ ہو۔ ایک معروف بیوٹی سیلون پر بہ طور مینجر کام کرنے والے، باسط رضا، المعروف جان نے کم عُمری ہی میں اس فن میں مہارت حاصل کرلی تھی۔ وہ ایک چھوٹے شہر سے میٹرک کرکے ملتان آیا، تو اُسے معلوم نہ تھا کہ اُس کا فیشن ڈیزائنر بننے کا خواب پورا بھی ہوسکے گا یا نہیں۔ باسط نے فیشن ڈیزائننگ کے ایک ادارے میں داخلہ لیا، مگر وسائل کی کم یابی کے باعث تیسرے سیمیسٹر کی فیس ادا نہ کرسکا اور اپنا خواب ادھورا چھوڑنا پڑا۔ وہ اپنے والدین اور بھائی، بہنوں کو یہ کہہ کر نکلا تھا کہ’’ کچھ بن کر ہی واپس آئوں گا‘‘، مگر اُسے اپنے خواب بِکھرتے محسوس ہوئے۔ دَورانِ تعلیم ایک معروف اسٹور پر ملازمت کرتا رہا، مگر چار ہزار روپے تن خواہ سے ضروری اخراجات بھی پورے نہ ہو پاتے، لہٰذا اُس نے فیشن ڈیزائننگ کا کورس درمیان ہی میں چھوڑ کر ملتان کے ایک مَردوں کے سیلون میں ملازمت حاصل کرلی، جہاں ماہانہ پندرہ ہزار روپے ملنے لگے۔ نیز، وہ ایک سال تک اس سیلون میں مختلف کام سیکھتا رہا۔ پھر کام میں مزید بہتری کے لیے لاہور کا رُخ کیا، جہاں اُسے ایک معروف سیلون کے مینی، پیڈی کیور سیکشن میں ملازمت مل گئی۔ مینی، پیڈی کیور میں مہارت کے بعد، ایک اور نامی گرامی سیلون میں کام کا آغاز کردیا، جہاں ڈیڑھ سال تک میک اوور سیکھا اور پھر ملتان واپس آگیا۔ آج کل مَردوں کے ایک بڑے سیلون میں بہ طور مینجر فرائض سرانجام دے کر پُرکشش تن خواہ حاصل کر رہا ہے۔ باسط نے انگریزی، لاہور کے بڑے سیلونز میں کام کے دَوران سیکھی۔ اُس کے مطابق’’ بڑے سیلون پر کام میں مہارت کے ساتھ، چرب زبانی بھی درکار ہوتی ہے۔‘‘ باسط عرف جان نے بتایا کہ’’ مَردوں کے سیلون میں خواتین پارلرز جیسا ہی رَش ہوتا ہے۔ مَردوں کے میک اَپ کو’’ ہائی لائٹس‘‘ کہا جاتا ہے۔ صرف میک اَپ ٹچ دینے کے پچیس سو سے پانچ ہزار روپے تک لے لیے جاتے ہیں۔‘‘ ملتان کے ایک معروف سیلون کے مالک، رانا وقاص کا کہنا ہے کہ’’ شہر میں جدید تیکنیک سے مزیّن سیلون کی کمی شدّت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ سو، مجھے سیلون بنانے کا خیال آیا تاکہ عوام کو معیاری کام مل سکے۔ میرے سیلون میں ہیئر کٹنگ، شیو سے لے کر فیشل، باڈی مساج تک ہوتا ہے۔ نیز، دُلہے بھی تیار کیے جاتے ہیں۔‘‘

مردانہ بیوٹی سیلون میں جہاں عوام کو بہترین سروسز فراہم کی جا رہی ہیں، وہیں نت نئے تجربات بھی ہو رہے ہیں۔ ایسے میں بالوں کی کٹنگ کے نت نئے اور دل چسپ انداز بھی سامنے آ رہے ہیں۔ بہاول پور سے تعلق رکھنے والے، شفقت راجپوت بھی ایک ایسے ہی منفرد ہیئر ڈریسر ہیں، جو فائر کٹنگ ،یعنی بالوں میں آگ لگا کر ہیئر اسٹائل بناتے ہیں۔ شفقت راجپوت نے دس سال کی عُمر میں خواتین کے بیوٹی پارلر سے مینی کیور، پیڈی کیور سے کام کا آغاز کیا۔ وہ اپنی ٹیچر، کرن کو دُعا دیتے ہیں کہ انھوں نے ہئیر کٹنگ میں مہارت اُن سے سیکھی۔ خواتین کا ہئیر کٹ کرتے کرتے بڑے ہوئے، تو اپنا ہیئر سیلون بنالیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مُلک بھر میں شہرت حاصل کرلی، کیوں کہ وہ نہ صرف آگ لگا کر بال کاٹتے ہیں، بلکہ بہ یک وقت دو سے چار قینچیاں بھی استعمال کرتے ہیں۔ شفقت کے مطابق،’’ آگ لگانا بہادری یا عقل مندی نہیں، بس ایک ہنر ہے، کیوں کہ آگ سے بال جل جانے اور جِلد کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے۔‘‘ وہ اپنے فن میں اتنے تاک ہیں کہ دوسرے شہروں کے لوگ بھی اُن کے گاہکوں میں شامل ہیں، حالاں کہ وہ بال کٹنگ کے دو ہزار روپے وصول کرتے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا’’ مجھے بیرونِ مُلک سیلون کھولنے کی بھی پیشکش کی گئی، مگر مَیں اپنے وطن میں خوش ہوں کہ یہ ہنر، مجھے اپنے وطن ہی نے دیا ہے، جو میرے لیے اعزاز ہے۔‘‘ منیر نامی حجّام اپنے آبائی پیشے سے وابستہ ہیں۔ اُنہوں نے یہ کام اپنے دادا اور والد سے سیکھا۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’ ہمارے علاقے، خاص طور پر دیہات میں نائی کو خاندان کا فرد مانا جاتا تھا۔ مختلف مواقع پر اُس سے مشاورت بھی کی جاتی تھی۔ تاہم، اب یہ روایت قریباً دَم توڑ چُکی ہے۔‘‘ وہ صبح سویرے دُکان کھول لیتے ہیں اور رات گئے تک دُکان کُھلی رہتی ہے، جہاں ہر قسم کے گاہک آتے ہیں۔ وہ گاہک کی جیب کے مطابق معاوضہ طے کرتے ہیں۔ اُن کے ہاں 50 روپے میں حجامت اور تین سو سے لے کر پانچ سو روپے تک میں فیشل کیا جاتا ہے۔ جب کہ دُلہے کی تیاری کے ایک ہزار سے تین ہزار روپے تک وصول کیے جاتے ہیں۔ منیر نے بتایا’’ گاہکوں میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے، کیوں کہ آج کل کے لڑکوں کو بننا، سنورنا بے حد پسند ہے‘‘۔

’’ معیاری پروڈکٹس، صاف ستھرے آلات کا استعمال ضروری ہے‘‘،ڈاکٹر خرّم اقبال ،ماہرِ امراضِ جِلد

مرد بھی بناؤ سنگھار میں کسی سے پیچھے نہیں
ڈاکٹر خرم اقبال

ڈاکٹر خرّم اقبال، ماہرِ امراضِ جِلد، کاسموٹو لوجسٹ، کنسلٹنٹ لیزر اینڈ ہیئر ٹرانسپلانٹ سرجن ہیں۔ ہم نے اُن سے مردانہ بیوٹی سیلونز کے بڑھتے رجحان پر بات کی، تو اُن کا کہنا تھا’’ آج کل لڑکیوں سے زیادہ، لڑکوں میں پُرکشش نظر آنے کا رحجان دیکھا جا رہا ہے، تاہم اگر جِلدی امراض کی بات کی جائے، تو بلوغت کی عُمر تک پہنچتے ہی لڑکوں کے چہروں پر بھی دانے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ نیز، لڑکیوں کی طرح، لڑکوں میں بھی رنگ گورا کرنے کی کریموں کا استعمال بڑھ گیا ہے، جن سے جِلد پتلی، سُرخ اور دانے دار ہو جاتی ہے۔ ان کریموں کو لگانے کے کچھ عرصے بعد تک تو سب اچھا لگ رہا ہوتا ہے، تاہم بعدازاں ان کے مضر اثرات چہرے پر نمودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لیے رنگ گورا کرنے والی کریموں سے گریز ہی کرنا چاہیے۔‘‘ اُنھوں نے مشورہ دیا کہ’’ مَرد سیلون ضرور جائیں کہ مساج سے تھکاوٹ اُترتی اور چہرے پر تازگی نمایاں ہوتی ہے، لیکن فیشل کے لیے معیاری مصنوعات کا استعمال یقینی بنائیں۔ جب کہ کلینزنگ کروانا بہتر ہے، کیوں کہ مَردوں کو دھوپ میں زیادہ نکلنا ہوتا ہے۔ اس لیے جب بھی باہر سے آئیں، تو کوشش کریں کہ چہرے کو صابن سے ضرور دھوئیں تاکہ جِلد صاف رہے۔ اسی طرح حسّاس اور خشک جلد والے موئسچرائزنگ کریم اورخشکی نہ کرنے والے صابن کا استعمال کریں۔ گھر سے باہر رہنے کی وجہ سے مَردوں کا رنگ سیاہ پڑنا شروع ہو جاتا ہے، جس سے بچائو کے لیے دھوپ میں کم سے کم نکلیں اور اگر باہر جانا ہی ہو، تو سر پر ٹوپی پہنیں، آنکھوں پر چشمہ لگائیں۔ اگر جِلد خشک یا حسّاس ہے، تو سَن بلاک لگائیں اور اگر جلد چِکنی ہے، تو ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق، جِلد چکنا نہ کرنے والا سن بلاک لگائیں۔ نیز، بیوٹی سیلون میں استعمال ہونے والے آلات کی صفائی کا خاص اہتمام ہونا چاہیے۔ سروسز دینے والوں کے ہاتھ اچھی طرح دھلوائے جائیں، کیوں کہ اگر ہاتھ نہ دھوئے جائیں، تو وائرس پھیلنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ عمومی طور پر جِلدی امراض تبھی پھیلتے ہیں، جب ہاتھ ایک سے زائد افراد پر استعمال کیے جائیں۔ اسی طرح نوجوان شیونگ کریم یا جیل معیاری ہی استعمال کریں۔ علاوہ ازیں، الٹی شیو نہیں کرنی چاہیے کہ اس سے بال اندر رہ جاتے ہیں اور پھر دانے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی کہ آفٹر شیو کئی لوگوں کی جِلد کو سوٹ نہیں کرتا، تو یہ بات بھی مدّ ِ نظر رکھی جائے‘‘۔ ڈاکٹر خرّم اقبال نے بیوٹی سیلونز سے لاحق ہونے والے امراض سے متعلق بتایا’’ بالوں کی ری بونڈنگ "Rebonding" یعنی سیدھے کروانے والے مرد، بیش تر اوقات بال گرنے کی شکایت لے کر آتے ہیں، کیوں کہ یہ عمل کروانے کے ہفتے، دس دن بعد ہی بال گرنا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر بالوں کو دوبارہ اُگانے کے لیے پانچ سے چھے ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے۔‘‘ اُنہوں نے مزید بتایا کہ’’ جب لڑکے بلوغت کو پہنچتے ہیں، تو اُن کی جِلد سخت ہونے لگتی ہے۔ ویسے زیادہ تر نوجوانوں کی جِلد چِکنی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے کیل مہاسے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان دانوں کو ختم کرنے کے لیے اگر آغاز ہی میں علاج کروالیا جائے تاکہ آگے چل کر مسائل پیدا نہ ہوتے۔‘‘ جِلد تر وتازہ رکھنے کے لیے کسی تجویز کی درخواست پر ڈاکٹر خرّم اقبال نے کہا’’ جِلد کی ترو تازگی کے لیے معیاری، متوازن خوراک استعمال کی جائے۔ موسم کی مناسبت سے مالٹے، کینو، سیب، انار، تربوز، خربوزے، دودھ اور پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں اور سب سے اہم یہ کہ سبزیاں ضرور کھائیں۔‘‘

تازہ ترین