• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جناب عطاء الحق قاسمی کی کتاب ’’سفر نامے‘‘ کی تقریب رونمائی اسلام آباد میں منعقد ہوئی ۔ محترم عرفان صدیقی ، ڈاکٹر انعام الحق جاوید ، ڈاکٹر نجیبہ عارف ،ڈاکٹر سائرہ علوی ، محمد حمید شاہد اور محبوب ظفر نے ان کی شخصیت اور فن پر سیر حاصل گفتگو کی ۔ اس موقع پرراقم نے قاسمی صاحب کی شخصیت پر جو بے ترتیب سے چند الفاظ عرض کئے ، وہ حاضر ہیں ۔ ’’ عطاء الحق قاسمی کے ساتھ میرا عقیدت کا رشتہ اس دور سے قائم ہے ، جب مجھے بہت سی حقیقتوں کا علم نہیں تھا۔
عطاء الحق قاسمی کے ساتھ میری یہ یکطرفہ محبت 2008ء میں دو طرفہ میں تبدیل ہوئی ، جب میں معاصر میں کالم کاری کر رہا تھا ۔ تب ارشاد احمد حقانی مرحوم نے مجھے ایک خط لکھا ۔ آپ نے کمال مہربانی سے میری تحریروں کی تعریف و توصیف کر کے حوصلہ افزائی فرمائی ۔ ان کے ساتھ نیازمندی کا رشتہ قائم ہوا تو اکثر فون کر کے میرے کالموں میں اغلاط کی نشاندہی کرتے ہوئے رہنمائی فرماتے کہ میں کس طرح اپنے اسلوب تحریر کو بہتر بنا سکتا ہوں ۔ ایک دن حقانی صاحب کہنے لگے کہ بیٹا! میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تم سنجیدہ تحریر کے مقابلے میں طنز و مزاح زیادہ بہتر لکھ سکتے ہو ، لہذا میں تمہیں عطاء الحق قاسمی کو ریفر کر رہاہوں ، انہیں ڈاک کے ذریعے اپنے چند کالم بھیج دو اور ان سے رہنمائی لو۔ دراصل مرحوم کو میرے بارے میں وہم ہو گیا تھا کہ میں فکاحیہ کالم بھی لکھ سکتا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ میری تو قاسمی صاحب سے شناسائی نہیں ، کیا آپ میری سفارش کر دیں گے ؟ بولے کہ ہر گز نہیں اور اس کی ضرورت بھی نہیں ، بس تم انہیں اپنے کالم بھیجو اور انتظار کرو۔ تاہم مجھے کوئی انتظار نہیں کرنا پڑا۔ ڈاک ارسال کرنے کے دوسرے ہی دن قاسمی صاحب کا فون آ گیا ۔لہجے میں وہ محبت اور بے تکلفی تھی کہ لگا ، جیسے ہم سالوں سے باہمی الفت کے رشتے میں پروئے ہوئے ہیں ۔ حوصلہ افزائی کی غرض سے اتنے کھلے دل سے میری تحریروں کی تعریف کی کہ میں شرمندہ ہو گیا۔چونکہ لکھنے پڑھنے کی لَت تو اسکول کے زمانے ہی سے پڑ چکی تھی ، اور جیسا کہ عرض کیا کہ میں قاسمی صاحب کی تخلیقات کا مداح بلکہ عاشق تھا ۔تاہم میں سوچتا تھا کہ اتنا بڑا آدمی ہے ، ضرور متکبر اور خود پسندہوگا۔ مگر ان سے باتوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ چلا تو تعجب ہوا کہ ان کا بے تکلف حلقہ رفاقت صاحبانِ اقتدار سے لے کر مجھ ایسے بے نوائوں تک پھیلا ہوا ہے اور ایک جہاں ان کی بیکراں الفت کی برکھا میں جل تھل ہے ۔ گویا وہ جتنا بڑا دماغ رکھتے ہیں اتنے ہی بڑے دل کے مالک بھی ہیں ۔ ان کے اندرکوئی اعلیٰ ظرف انسان چھپ کر نہیں بیٹھا بلکہ ان کے افکار و کردار سے پورے جاہ و جلا ل کے ساتھ ہویدا ہیں ۔
جناب عطاء الحق قاسمی جو قبل ازیں میرے ’’غائبانہ استاد‘‘ کا کردار ادا کر رہے تھے ، اب جو ’’حاضر استاد‘‘ ہوئے تو پڑھنے لکھنے کا مزہ ہی آ گیا۔ ان کا پہلا سبق یہ تھا کہ جو بات دل کہے ، وہ لکھ دو اور خوف فساد خلق سے کوئی بات مت چھوڑو۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے قلم پکڑنا ہی قاسمی صاحب نے سکھایا۔آپ جہاں طویل عرصے سے قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، وہاں انہوں نے مجھ ایسے ادنیٰ اور کج فہم لکھاریوں کا محدود ذہنی اُفق بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ان کی محفل نشینی کا مزہ ہی کچھ اور ہے ۔ زندہ دلی فقط ان کی کتابوں ،سفر ناموں ، کالموں ، اشعار اور ڈراموں ہی میں نہیں ، تصنع اور بناوٹ سے پاک اورزندگی کی توانائیوں سے بھرپور ان کی گفتگو سے بھی عیاں ہے ۔ اگروہ سدا بہار اور سدا جوان رہنے کے ہنر پر دسترس رکھتے ہیں تو اسے دوسروں کو سکھانے میں بھی بخل سے کام نہیں لیتے ۔
عطاء الحق قاسمی گنجینہ علم و ہنر سے مالا مال اور ندرت خیال سے ثمر بار اس عہد کا جید دانشور ، بیدار و فعال مفکر ،خیر کی قدروں کا پیکر ، روشن خیال ،درویش صفت ،شفیق استاد ،بے ریا اور کھرا شخص ہے ۔ آج کی انتہا پسندی ، تنگ نظری اور علم دشمنی کے مہیب سایوں میں بھی علم و ادب اور فنون لطیفہ کا جہاں ان جیسے دانشوروں کے دم سے تاباں ہے ۔ قاسمی صاحب نصیبے کے وہ سکندر ہیں کہ جہاں انہوں نے اپنے علمی وا دبی مقام سے عوام اور خواص کی خالص محبتیں سمیٹی ہیں ، وہاں سفارتوں اور متعدد ادبی و ثقافتی اداروں کو اپنی سربراہی سے بھی سرفراز کیا ہے ۔ آج الحمراء کے درودیوار اُداس ہیں ۔ اب جب کوئی ’’مریض‘‘ اس در حاجت روا پر جاتا ہے تو یہ درو دیوار اسے تاسف سے بتاتے ہیں کہ …وہ جو بیچتے تھے دوائے دل ، وہ دکان اپنی بڑھا گئے …ہمارے یہ فخر اطبائے زماں الحمراء لاہور سے اپنی دکان بڑھا کر اسلام آبا دپی ٹی وی ہیڈ کوارٹر میں لے آئے ہیں ۔ تاہم بیچیں گے یہاں بھی دوائے دل ہی کہ اس کے علاوہ انہیں کوئی کام ہی نہیں آتا۔ اس افتخار طب کو توہنر ہی ایک آتا ہے کہ ’’ازما بجز حکایت مہرو وفا مپرس ‘‘ مراد یہ ہے کہ وہ اس نئی دکان میں بھی مال وہی پرانا ہی بیچیں گے کہ :
دشمن بھی جو چاہے تو میری چھائوں میں بیٹھے
میں اک گھنا پیڑ سرِ راہ گزر ہوں
مجھے یقین ہے کہ ان کی کثیر الصفات شخصیت کی عالمانہ تمکنت ،د انشورانہ وجاہت ،قائدانہ بصیرت ،ساحرانہ خطابت اور ذوق لطیف کی بدولت اگر پی ٹی وی نے چند سال ان کی صحبت میں رچائو پایا تووہ مجھ ایسے بے شمار طالب علموں کی طرح ’’جمال ہم نشیں در من اثر کرد، وگرنہ من خاکم کہ ہستم‘‘ کی مثال ہو جائے گا۔ میں اپنی بات ایک شعر پرختم کرتا ہوں جو عطاء الحق قاسمی کی شخصیت کا مکمل احاطہ کرتا ہے کہ :
میں میٹھے پانیوں کا سمندر تھا ، اب بھی ہوں
سب نے بقدر ظرف پیا ، میرا کیا گیا
تازہ ترین