یہ لطیفہ جہاں تک مجھے یاد ہے،مصر کے حکمراں انور سادات سے منسوب تھا۔ کہا گیا کہ وہ کہیں جا رہے تھے جب ایک چوراہے سے پہلے ان کے ڈرائیور نے پوچھا کہ سر، کدھر جانا ہے؟ سر نے ڈرائیور کو حکم دیا کہ وہ بائیں جانب مڑنے کا اشارہ دے اور پھر سیدھی جانب مڑ جائے۔ پتہ نہیں یہ لطیفہ انور سادات کی سیاست کے کس پہلو پر ایک طنز تھا۔ ایک تشریح تو یہ ہو سکتی ہے کہ وہ بائیں بازو کی سیاست کے پردے میں دائیں بازو کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ لیڈر کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ ہے۔ اور یہ بھی کہ عوام اپنے قائد کی سیاست پر پورا بھروسہ نہیں کر سکتے۔ آپ جو چاہیں سمجھیں اور یہ بھی کہہ دیں کہ چوراہے پر تو یوٹرن کی سہولت بھی ہوتی ہے لیکن یہ تو آپ جان گئے کہ مجھے یہ لطیفہ کیوں یاد آیا۔ یہ وہ ہفتہ ہے کہ جب وزیر اعظم عمران خان کی نئی حکومت نے اپنے پہلے 100دن مکمل کئے ہیں اور میڈیا میں یہ اودھم مچاہے کہ حکومت نے کتنے وعدے پورے کئے۔ کتنے عہد توڑے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آخر یہ حکومت جا کدھر رہی ہے۔ اس کی سمت کیا ہے۔ کسی بھی حکومت کے پہلے 100دنوں کی کارکردگی کے جائزے کی ایک سیاسی روایت ہے۔ عمران خان نے تو خود اپنےپہلے 100دنوں کے پروگرام کا باقاعدہ اعلان کیا تھا اور یوں ان تبصروں کا جواز فراہم کیا تھا جو زور شور سے کئے جا رہے ہیں۔ ویسے سیاست دان اپنی کہی ہوئی بات سے انحراف کرنےکے عادی ہو جاتے ہیں اور عمران خان تو اس فن میں بھی شاید کوئی عالمی کپ جیت سکتے ہیں۔ یہ یاد رکھنا بھی مناسب ہے کہ نئی حکومت کے پہلے 100دنوں کے حساب کی روایت امریکہ کے صدر فرینکلن روز و یلٹ کے انتخاب سے پڑی جب مارچ 1933میں انہوں نے اپنا عہدہ سنبھالا تو ملک معاشی انحطاط کے شکنجے میں تھا۔ امریکہ نے اپنی تاریخ میں کبھی ایسی معاشی بدحالی نہیں دیکھی تھی۔ روز ویلٹ نے کانگریس کا ایک خصوصی اجلاس بلایا اور پہلے 100دنوں میں 15 اہم قوانین پاس کروائے۔ نئے منصوبوں اور خیالات کی ایک پوری لہر اٹھتی ہوئی دکھائی دی۔ اپنی حلف برداری کے موقع پر انہوں نے جو تقریر کی اس نے قوم کے مورال کو سہارا دیا۔ اس کا ایک جملہ تو بہت مشہور ہوا اور ضرب المثل بن گیا۔ اس کا ترجمہ میں کچھ یوں کرونگا کہ ’’وہ واحد چیز جس سے ہمیں ڈرنا چاہئے وہ خود ڈر ہے‘‘۔
میں اس وقت عمران خان کی حکومت کے پہلے 100دنوں پر اپنا تبصرہ پیش نہیں کر رہا۔ میری نظر میں اس سے کہیں زیادہ اہم اس حکومت کا یہ کارنامہ ہے کہ بدھ کے دن نارووال میں وزیر اعظم نے کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ یوں تو اس راہداری کا تعلق صرف سکھ برادری سے ہو گا لیکن بنیادی طور پر یہ پیش قدمی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی ایک تمثیل ہے۔ ان تعلقات کی صحیح سمت کا تعین بار بار کیا جاتا رہا ہے۔ وہ یہ کہ ان دونوں ملکوں کی کثیر آبادی کی خوشحالی کا دارومدار ہی امن اور دوستی پر ہے لیکن یہ دونوں ملک امن کی سمت میں جانے کا عہد تو بار بار کرتے ہیں اور کبھی کبھی اپنا قبلہ بھی درست کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی ادھر ادھر مڑ جاتے ہیں۔ دونوں ملکوں کی قیادتیں کئی بار یوٹرن لے چکی ہیں اور یہ وہ یوٹرن تھے جس سے رہنمائوں کی فراست نہیں بلکہ ان کی کم ہمتی اور سیاسی مصلحت کی عکاسی ہوتی ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ سیدھا ہے اور دکھائی دے رہا ہے۔ جیسے کوئی راہداری ہو۔ کوئی شاہراہ ہو۔ کوئی پل ہو یا کوئی دروازہ ہو لیکن بار بار ان دونوں ملکوں کی حکومتیں اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر راستہ تلاش کرنےکی کوشش میں کسی کھائی میں گر جاتی ہیں۔ کسی دیوار سے ٹکرا جاتی ہیں۔ جنوبی ایشیا کئی معنوں میں دنیا کے سب سے پسماندہ اور شورش زدہ علاقوں میں سے ایک ہے اور اس کے دو بڑے ملکوں نے خود کو ان ہتھیاروں سے لیس کر رکھا ہے جو ناقابل تصور تباہی پھیلا سکتے ہیں ۔ گویا ان کا اجتماعی ذہن خود کو ہلاک کرنے کے درپے ہے۔ شاید وہ انہیں خطرات کی چاپ سن کر کئی بار مذاکرات کی میز پر بھی بیٹھ چکے ہیں۔ تب بھی خبر نہیں کہ کس کی آستین میں کیا چھپا ہوتا ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو شملہ معاہدہ بھی نظر آتا ہے کہ جو ایک مجبوری بن گیا تھا لیکن جب اس وقت کے ہندوستان کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی ایک بس میں بیٹھ کر لاہور آئے او رمینار پاکستان کے قدموں میں کھڑے ہو کر انہوں نے پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا تو یوں لگا کہ تاریخ اپنا صفحہ پلٹ رہی ہے یہ فروری 1999کی بات ہے۔ لیکن موسم بہار کے آتے ہی کارگل نے اپنے گل کھلائے اور سارا چمن تاراج ہوتا دکھائی دیا۔ اتفاق سےوا جپائی اور نواز شریف کی تاریخ پیدائش ایک ہی ہے۔ وہی جو قائد اعظم کی تاریخ پیدائش بھی ہے۔ یہ ایک مقبول تاریخ پیدائش ہے کیونکہ انور سادات کی بھی یہی ہے۔ جولائی 2001میں جب صدر پرویز مشرف وزیر اعظم واجپائی سے ملنے آگرہ گئے تو ایک معاہدہ تیار تھا لیکن اس پر دستخط ہونے کی نوبت نہیں آئی۔
جنوری 2007میں اس وقت کے ہندوستان کے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے تو یہ تجویزتک دے دی کہ سرحد یں کھول دی جائیں۔ ان کا خواب تھا کہ کسی دن کوئی ناشتہ امرتسر میں کرے۔ لنچ لاہور میں کھائے اور اس کا ڈنر کابل میں ہو۔
اور اب ہم نے کرتار پور راہداری کے سنگ ِبنیاد رکھنے کی تقریب کو دیکھ کر ایک بار پھر امید کا ایک چراغ روشن کیا ہے۔ اس تقریب کا جوش و خروش شاید زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ ہندوستان کی حکومت ابھی مذاکرات پر آمادہ نہیں ہے اور سارک کانفرنس کیلئے پاکستان آنے سے بھی انکاری ہے۔ پھر بھی، نوجوت سنگھ سدھو نے خوب سماں باندھا اور وزیر اعظم عمران خان نے ایک بہت اچھی تقریر کی۔ جب انہوں نے یہ کہا کہ آج حکومت، فوج، سیاسی رہنما اور باقی سارے ادارے ایک صفحے پر ہیں تو ممکن ہے کہ آپ کو سابق وزیر اعظم نواز شریف یاد آئے ہوں۔ وہ بھی ہندوستان سے اچھے تعلقات اور خاص طور پر تجارت کے خواہاں تھے۔ تب ان پر یہ الزام تھا کہ وہ ’’مودی کے یار‘‘ ہیں۔ ہمارے ملک میں غداری اور وطن سے محبت کی پہچان سیاسی موسم کے ساتھ بدلتی رہی ہے۔ پھر بھی عمران خان نے سب سے زیادہ منطقی بات یہ کی کہ ماضی سیکھنے کیلئے ہوتا ہے،رہنے کیلئے نہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ ہمیں اپنی جائے رہائش تبدیل کرنا ہو گی اور وہی سوال ہمارا دامن پکڑے رہے گا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ عمران خان کی حکومت نہیں بلکہ پاکستان کدھر جا رہا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)