• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی شخص کو بے نقاب کرنے کا یقینی طریقہ اس سے دشمنی پیدا کرنا نہیں بلکہ اسے بااختیار بنانا ہے۔

(امریکی مدبر،ابراہم لنکن)

قیادت کا جوہر یہ ہے کہ آپ کے پاس وژن ہونا چاہئے وگرنہ بے مقصد ڈھول بجانے سے کیا حاصل۔

(امریکی مصنف تھیوڈر مارٹن ہیز برگ)

سب سے پہلے تو مجھے یہ اعتراف کر لینے دیں کہ میں نو آبادیاتی نظام سے مرعوب زدہ ایک دیسی پاکستانی ہوں جسے آپ غلامانہ ذہنیت کا طعنہ بھی دے سکتے ہیں۔ میں ایک ایسے دیسی قائد کا پیروکار ہوں جو بذات خود ولایت سے بیحد متاثر ہیں، ان کی زندگی کا بیشتر وقت ولایت میں بسر ہوا، آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، آج بھی ان کے فرزند مغربی ماحول میں پرورش پا رہے ہیں۔ یہ عظیم قائد مغربی معاشرے سے اس حد تک متاثرہیں کہ اٹھتے بیٹھتے یورپی ممالک کی درخشندہ روایات و اقدار کی مثالیں دیا کرتے ہیں کہ سویڈن کا وزیراعظم بائیسکل پر اپنے دفتر آتا ہے، برطانیہ کا وزیراعظم دو کمروں کے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہتا ہے، یورپی ممالک میں لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ وغیرہ، وغیرہ۔

ہمارے عظیم المرتبت قائد کا سب سے نمایاں وصف یہ ہے کہ جب ترنگ میں آتے ہیں تو لگی لپٹی رکھے بغیر بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ چند روز قبل انہوں نے بھینس کی اولادِ نرینہ سے جنسی امتیاز کے خلاف آواز اٹھائی اور مُرغبانی کی طرف توجہ دلائی تو سیاسی مخالفین نے خوب بھد اُڑائی۔ ان سیاسی مخالفین المعروف پٹواریوں کو دندان شکن جواب دینے کے لئے تاویل ڈھونڈنے کی ضرورت پیش آئی تو میرے قائد نے تمام دیسی تمثیلات رَد کر دیں۔ بات کا بتنگڑ بناتے پٹواریوں کو یہ کہہ کر بھی چپ کروایا جا سکتا تھا کہ مُرغبانی اور کٹا پال اسکیم کوئی ’’خیالِ عمران‘‘ نہیں بلکہ ہر حکومت ایسے منصوبوں سے غربت مٹانے کا دعویٰ کرتی رہی ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں یو ایس ایڈ کے تعاون سے یہ پروگرام لانچ کیا گیا اور شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے طالبات کو مرغیاں پالنے کے لئے دیسی چوزے مفت فراہم کرنے کی مہم شروع کی، جو آج بھی جاری ہے۔ پنجاب کے محکمہ لائیو اسٹاک کی جانب سے آج بھی کٹوں کی افزائش اور پرورش کے لئے وظیفہ دیا جا رہا ہے لیکن ان دیسی تاویلات کو درخور اعتناء نہ سمجھتے ہوئے میرے عظیم قائد نے بدیسی ارب پتی بل گیٹس کی رائے کو معتبر خیال کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کو غلامانہ ذہنیت کا طعنہ دیا تو میں اپنے قائد کی بصیرت اور وژن پر عش عش کئے بغیر نہ رہ سکا۔

میرے قائد نے حلف اٹھاتے ہی کہہ دیا تھا کہ حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں، گھبرانا نہیں ہے۔ مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا، کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں، بے روزگاری بڑھ رہی ہے، ملکی معیشت کی کشتی مسلسل ہچکولے لے رہی ہے، اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود بڑھا کر 10فیصد کر دی گئی ہے، ڈالر کی پرواز دن دن بلند تر ہوتی چلی جا رہی ہے لیکن میں نے گھبراہٹ کو آس پاس نہیں پھٹکنے دیا کیونکہ میرے قائد نے کہا ہے کہ گھبرانا نہیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کئے جانے کا خطرہ سروں پر منڈلا رہا ہے لیکن میں بالکل نہیں گھبرایا اور اپنے قائد کے فرمودات کا دفاع کرنے کے لئے ڈٹ کر کھڑا ہوں۔ میرے قائد لاہور تشریف لائے تو انہوں نے ایک اور جرأتمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے حکم دیا کہ پنجاب کے گورنر ہائوس کی دیواریں گرا دی جائیں۔ آپس کی بات تو یہ ہے کہ اس حکم نامے پر مجھے تھوڑی بہت گھبراہٹ ہوئی اور میں نے سوچا کہ اہم ترین قومی ایشوز کو نمٹانے کے بجائے نان ایشوز پر وقت کیوں ضائع کیا جا رہا ہے؟ اور پھر سوال تو یہ بھی ہے کہ گورنر ہائوس کی دیواریں گرانے سے عوام کو کیا فائدہ ہو گا؟پختہ دیواریں بنانے پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہوں گے، اب اگر یہ دیواریں گرا کر آہنی جنگلہ لگایا جائے گا تو اس پر مزید کروڑوں روپے خرچ ہوں گے اور ممکن ہے چند ماہ بعد سیکورٹی کے پیش نظر پھر سے یہ فصیلیں کھڑی کرنا پڑیں۔ لیکن قائد کا قول یاد آیا کہ گھبرانا نہیں ہے تو میں نے یہ اندیشہ ہائے دور دراز جھٹک دیئے اور کسی پٹواری نے سوال کیا کہ گورنر ہائوس کی دیواریں کیوں گرا رہے ہو بھائی؟ تو میں نے برجستہ کہا:

سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ

جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے، مٹا دو

گھبرانا نہیں ہے، ہم نے نیا پاکستان بنانا ہے اور اتنی سی بات تو آپ سب کو معلوم ہو گی کہ تعمیر سے پہلے تخریب کا مرحلہ آتا ہے۔ پرانی عمارت کو گرایا جاتا ہے اور پھر نئی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا جاتا ہے۔ میرے قائد بے مقصد ڈھول بجانے کے قائل نہیں بلکہ انتہائی وژنری انسان ہیں۔ قصور تو ان بدخواہوں کا ہے جنہوں نے میرے قائد کو بے نقاب کرنے لئے انہیں اختیارات سونپ دیئے اور اب ان کی تقریریں بھی براہِ راست دکھاتے ہیں تاکہ لوگ ان تقریروں میں سے کیڑے نکال سکیں۔ ابراہم لنکن نے سچ کہا تھا، کسی سے دشمنی ہو اور اسے بے نقاب کرنا مقصود ہو تو اسے اقتدار اور اختیار سونپ دو۔

اور آخر میں ایک لطیفہ نما غیر سیاسی واقعہ ملاحظہ فرمائیں جس کا اس کالم سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک خاتون گلوکارہ پشاور میں میوزیکل شو کے دوران گا رہی تھیں کہ کسی مشتعل شخص نے بندوق نکال لی اور اسٹیج پر چڑھ آیا، گلوکارہ گھبرا گئیں،اس بندوق بردار نے تسلی دیتے ہوئے کہا، باجی تم گائو، تم تو ہماری بہن ہو، میں تو اس خبیث کو ڈھونڈ رہا ہوں جو تمہیں یہاں لیکر آیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین