• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسداد تجاوزات، حکومت پالیسی واضح کرے ، ٹائم فریم دے

اسلام آباد (احمد نورانی) حکام ملک بھر میں جاری انسداد تجاوزات مہم کو بدنام کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ اور نئی حکو مت کی جانب سے تمام غیر قانونی تجاوزات کے خلاف مثبت اقدامات کو سبوتاژ کر کے صورتحال سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ انسداد تجاوزات مہم کے دوران غیر قانونی تعمیرات کو گرانے کی بجائے افسران نے قانونی اراضی پر قانونی کے مالکان اور ان پر کاروبار کرنے والوں کو ہراساں اور بلیک میل کرنا شروع کردیا ہے۔ تحریک انصاف حکومت کی سرمایہ کاری اور روزگار کے مو اقع پیدا کرنے کی پالیسی کے برخلاف کاروبار اور ر وزگار کو فروغ دینے کے بجائے اسے تباہ کیا جارہاہے اور ایسا اسلام آباد میں سی ڈی اے کے تحت بھی ہورہا ہے جو وزیراعظم کی زیر نگرانی کام کرتا ہے۔اگرچہ سی ڈی اے نے اس حوالے سے بات نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے سی ڈی اے علی نواز اعوان نے اس امر سے اتفاق کیا کہ ایکشن حکومتی زمین پر قابض لوگوں کے خلاف لیا جانا چاہیے نہ کہ پرائیوٹ بزنس مالکان کے خلاف، تاوقت یہ کہ حکومت اس بزنس کے حوالے سے کسی پالیسی پر پہنچے۔ ایسے وقت میں جب غیر قانونی تجاوزات کے خلاف مہم زور و شور سے جاری تھی، مفاد پرست بابوؤں نے قانونی کاروبار کو بھی تباہ کرنا شروع کردیا ہے جس کا نتیجہ ٹیکس اور آمدنی میں شدید کٹوتی کی صورت میں نکلے گا ، جبکہ نوکریاں پیدا کرنے کی بجائے پہلے سے روزگار پر لگے لوگ بھی بے روزگار ہو جائیں گئے۔ گو کہ وزیراعظم عمران خان نے کراچی میں جاری انسداد تجاوزات آپریشن پر نظرثانی کی بات کی ہے لیکن ملک کے دیگر حصوں خصوصاً اسلام آباد میں صورتحال ہر دن گزرنے کے ساتھ بگڑتی جارہی ہے اور بابو لوگ ایسی صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے درپے ہیں جبکہ نئی حکومت نے صدق دل کے ساتھ ہر طرح کی تجاوزات ہٹانے کیلئے مہم شروع کی۔ بابو لوگ جو کچھ کر رہے ہیں وہ دلچسپ ہے۔ حکومتی زمینوں پر قبضہ چھڑانے کیلئے مہم چلانے کے تھوڑے عرصے بعد (جس سے یہ لوگ بھی غیرقانونی آمدنی حاصل کر رہے تھے) ، بابو لوگوں نے حکومت کو بے وقوف بنانا شروع کردیا ہے اور آپریشن کا رخ قانونی کاروبار کی جانب موڑ دیا ہے جو کہ قانونی زمینوں پر چل رہا ہے۔ اس حوالے سے بابو لوگ چھوٹی چھوٹی بے ضابطگیوں اور نئے قوانین کے متعارف کرانے کا سہارا لیتے ہیں تاکہ مالکان کو عمارت کے مکمل طور پر انہدام سے ڈرا یا دھمکایا جا سکے۔ سی ڈی اے بوجوہ گزشتہ 6؍ دہائیوں سے تعمیراتی پالیسی متعارف نہیں کراسکی ہے جن میں شادی ہال، اسکول اور گیسٹ ہائوسز کی بھی تعمیر شامل ہے۔ گزشتہ مارچ میں سپریم کورٹ نے اس صورتحال کا نوٹس لیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سی ڈی اے جو بابو لوگوں کیلئے پیسہ بنانے کی مشین سمجھا جاتا ہے، ساٹھ سالوں میں شادی ہالوں کی تعمیر کی پالیسی تک متعارف نہ کراسکی، اور جو ایک پالیسی متعارف کرائی گئی وہ بھی مارچ میں سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کے بعد۔ اسکول، گیسٹ ہاوسز، شادی ہال بڑی آبادیوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ضروری ہیں اور آج دارلحکومت کی آبادی بیس لاکھ سے زائد ہے۔ اس سال مارچ سے قبل سی ڈی اے اس مد میں تعمیرات کی اجازت دیتی رہی۔ تاہم پالیسی نہ ہونے کو جواز بناتے ہوئے انہیں ریگولرائز نہیں کیا گیا۔ شہریوں نے بھاری سرمایہ کاری کی۔ اب متعلقہ افسران سپریم کورٹ کے فیصلے کا غلط حوالہ دیکر انہیں ہراساں کررہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے 26؍ جون 2018ء کو دیئے گئے اپنے فیصلے میں ان عمارات اور کاروبار کو پالیسی اور ضوابط و قواعد کے مطابق طے شدہ فیس لے کر ریگولرائز کرنے کا حکم دیا تھا لیکن سی ڈی اے کا بلڈنگ کنٹرول شعبہ مالکان اور کاروبار کرنے والوں کو انہدام کے لئے سات دن کے نوٹس جاری کررہا ہے جو قانونی اور نجی اراضی پر قائم ہیں۔سپریم کورٹ نے 26جون 2018کو دئے گئے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ سی ڈی اے عدالتی نوٹس لینے تک کوئی پالیسی وضع نہ کرسکی، پیش کئے گئے دلائل پر غور کرنے کے بعد تمام شادی ہالز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ریگولرائزیشن کی مد میں فیس ادا کریں اور انہوں نے ایسا کرنے کی حامی بھر لی ہے، اور انکے وکیل کی طرف سے بھی ایسا ہی قبول کیا گیا ہے، لہذا وہ ریگولرائزیشن فیس ادا کریں اور سی ڈی اے کے ضوابط کی پاسداری کریں، جس میں بلڈنگ پلان شامل ہے۔ اگر تعمیر کا کوئی حصہ پلان سے ہٹ کر ہے اور اسے پلان میں شامل کیا جاسکتا ہے تو اس کی فیس ادا کرنی ہوگی بصورت دیگر اس حصے کو جو ضوابط کے خلاف ہے، منہدم کرنا ہوگا۔ تاہم، اگر عمارت کا کوئی بھی حصہ ریگولرائز نہیں ہوسکتا، تو پوری عمارت کو منہدم کرنا پڑے گا۔ اس سے قبل عدالت کی جانب سے وفاقی محتسب پر مشتمل ایک کمیشن نے سی ڈی اے کی قوت فیصلہ پر سنجیدہ سوالات اٹھائے تھے، اور سفارش کی تھی کہ ان نئے قوانین اور ضوابط پر تمام اسٹیک ہولڈر کی مشاورت سے نظر ثانی کی جائے ۔ جلد بازی میں سی ڈی اے کے بلڈنگ کنٹرول سیکشن نے ظاہری وجوہ کی بنیاد پر وفاقی دارلحکومت میں قائم تمام شادی ہال کی عمارتوں کے مکمل انہدام کے نوٹس جاری کردئے ۔بندہ حیران ہوتا ہے کہ اگر ایک قانونی کاروبار سالوں سے پرائیوٹ کمرشل زمین پر چل رہا ہے اور اچانک سے ایک نیا قانون یا پالیسی متعارف کرادی جاتی ہے، کیا حکام کاروبار کرنیوالے سے پوچھیں گے کہ وہ نئے قانون کی پاسداری کرے، یا زیادہ سے زیادہ کاروبار بند کردے، یا یہ کہ وہ اس عمارت کے انہدام تک چلے جائیں گے جو کہ قانونی طور پر حاصل کی گئی زمین پر قائم ہے۔ کیا اس طرح کسی عمارت کو ڈھا دینا انسداد تجاوزات مہم کا حصہ شمار ہوگا،یا شہریوں کو حراساں کر کے پیسہ کمانے کا ذریعہ؟ بنیادی نکتہ جو بابو لوگوں کی موجودہ صورتحال میں پیسے کی حوس سے متعلق ہے وہ یہ کہ عدالتی احکامات کے مطابق بجائے کسی کاروبار کو ریگولرائز کرنے کے بابو لوگ شہریوں کو عمارتوں کے مکمل انہدام کا نوٹس جاری کر رہے ہیں تاکہ دیگر مقاصد حاصل کئے جاسکیں۔ اسلام آباد کے ماسٹر پلان کے مطابق یہ شہر پانچ زون میں تقسیم ہے۔ اس کے مطابق زون نمبر 4کے علاوہ تمام زونز میں تعمیرات پر پابندی تھی۔ 2014میں سی ڈی اے نے ایک نیا ضابطہ کار متعارف کرایا اور اس زون میں بھی بعض شرائط کے تحت تعمیر کی اجازت دے دی۔ 2014سے قبل جب کوئی شہری زون نمبر 4میں تعمیر کی اجازت کیلئے سی ڈی اے سے رابطہ کرتا تو حکام کہتے کہ اس زون کے حوالے سے کوئی قانون نہیں لہذا کوئی مداخلت نہیں کرے گا، اور زمین کا مالک اپنی مرضی سے کام کرسکتا ہے۔ اگر مسئلہ زمین کے ضابطوں کے خلاف استعمال کا ہے تو تعمیرات کے خلاف سب سے زیادہ سخت پابندی زون 3میں عائد کی گئی تھی جس میں بنی گالہ بھی شامل ہے اور جسے ریگولرائز کیا جارہا ہے۔ لہذا بنیادی طور پر کوئی پالیسی ہے ہی نہیں، اگر ضوابط کے خلاف زمین کے استعمال پر انہدام کی پالیسی کا سوال ہے تو وہ سب کیلئے یکساں ہونی چاہیے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سی ڈی اے زون نمبر 3میں ضوابط کے خلاف زمین کے استعمال کی اجازت دے کر غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ عمارت کو ریگولرائز کرےجبکہ زون نمبر 4میں ایسی ہی عمارتوں کو مہندم کردے؟ سی ڈی اے حکام عمارتوں کے مکمل انہدام جیسے اقداما ت سے کتنا پیسہ بنانا چاہتے ہیں؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ کروڑوں شہریوں کو خدمات اور سہولتیں فراہم کرنے والے کاروبار اور خدمات کے لئے کوئی پالیسی نہیں ہے تو پہلے اسے وضع کیا جائے۔ جس کے بغیر کئے جانے والے آپریشن پر خود سوالات اٹھتے ہیں۔ سی ڈی اے اس معاملےمیں مہر بہ لب ہے۔ جب اس معاملے میں بلڈنگ کنٹرول شعبے کے سربراہ فیصل ندیم سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے سوالات کے جوابات دینے سے گریز کیا تاہم سی ڈی اے پر وزیراعظم کے خصوصی معاون ور اسلام آباد سے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی علی نواز اعوان نے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں حکومتوں نے اس بارے میں پالیسی متعارف نہیں کرائی۔ اگر نجی اراضی پر جائز کاروبار کو کسی سرکاری محکمے نے نوٹس جاری کئے ہیں تو حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم صورتحال سے نمٹنے کی کوشش کررہے ہیں اور باقاعدہ پالیسی لائی جائے گی۔ وزیراعظم عمران خان اسلام آباد کے ماسٹر پلان کی منظوری دے چکے ہیں جس کے بعد ریگولیشن پالیسی لائی جائے گی۔ علی نواز نے کہا کہ سی ڈی اے پالیسی ریگولیشن کے بغیر گیسٹ ہائوسز کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے۔ ویزوں اور اپنے مسائل کے حل کیلئے آنے والے اوسطاً 22؍ ہزار افراد ان گیسٹ ہائوسز میں قیام کرتے ہیں۔وزیراعظم کے معاون خصوصی علی اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تمام غیرقانونی تجاوزات کے خاتمے جبکہ کاروبار کو ریگولرائز کرنے کے حوالے سے پالیسی وضع کرنے کا حکم دیا ہے۔ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور جلد ہی اسلام آباد کیلئے نظر ثانی شدہ ماسٹر پلان لے کر آئیں گےتاکہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔

تازہ ترین