• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی معیشت کو درپیش سنگین مسائل میں سے ایک مسئلہ ایسا ہے، جس کا بنیادی سبب ہمارا سماجی رویہ ہے۔ جس تاجر یا صنعتکار کا کاروبار زیادہ منافع بخش ہوتا ہے، وہ لوگوں کی نظروں میں آ جاتا ہے اور معاندانہ و مخاصمانہ رویوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ رویہ انتہائی خطرناک ہے اور اسکے معیشت پر انتہائی منفی اثرات پڑتے ہیں۔ شاید اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے اگلے روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تاجروں اور صنعت کاروں کو منافع ملنے کا موقع ملنا چاہئے۔ میں بنیادی طور پر ترقی پسند سوچ کا آدمی ہوں۔ میں سوشلزم کا حامی رہا ہوں اور اب بھی ہوں۔ میں آج بھی کارل مارکس کی کتاب ’’داس کیپٹل‘‘ (سرمایہ) کے نظریہ قدرِ زائد کو درست مانتا ہوں۔ منافع کی صورت میں سرمایہ دراصل محنت کشوں کی محنت کی قدر زائد ہے لیکن چین کے تجربے نے یہ ثابت کیا ہے کہ سوشلزم کسی ایک ملک میں دنیا سے الگ تھلگ رہ کر نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے پوری دنیا میں حالات وقت کیساتھ ساتھ پیدا ہوتے جائینگے۔ آج چین میں نظامِ معیشت کو ’’چینی ضرورت کے مطابق سوشلزم‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کی 19ویں کانگریس کی رپورٹ کے حیرت انگیز سائنسی جدلیاتی تجزیے میں اس نظام کی تشریح کی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین پرانی سرمایہ دارانہ اور عالمی سامراجی طاقتوں کیلئے نہ صرف چیلنج بن گیا ہے بلکہ دنیا کے سب سے زیادہ امیر ترین لوگ چین میں رہتے ہیں اور ان کی تعداد اور امارت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ چین کے تاجر، صنعت کار اور سرمایہ کار اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے ملک بلکہ پوری دنیا سے منافع کما رہے ہیں۔ وہاں سوشلزم ہونے کے باوجود منافع کمانے والے بزنس مین سے سماجی رویہ مخاصمانہ یا معاندانہ نہیں ہے۔ چین کے کاروباری طبقے کو سماجی تحفظ اور حکومتی پالیسیوں کی حمایت حاصل ہے لہٰذا وہ اپنا سرمایہ صرف چین میں ہی رکھتے ہیں۔ بیرون ملک سرمایہ کاری سے جو انہیں منافع حاصل ہوتا ہے، وہ بھی چین میں واپس لے آتے ہیں۔ چین میں بیرونی تاجروں اور سرمایہ کاروں کے لئے کوئی گنجائش ہی پیدا نہیں ہو رہی۔ چین اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام اپنا چکا ہے لیکن اسے مارکسی اصطلاح میں ’’قومی سرمایہ داری‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مارکس اور لینن کے نزدیک قومی سرمایہ داری اپنے جوہر میں عالمی سرمایہ داری اور سامراج مخالف ہے۔ چین میں تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو حکومتی پالیسیوں اور مثبت سماجی رویوں کے ذریعے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ انہیں کرپٹ اور لٹیرا نہیں کہا جاتا۔ چین کے عوام اور حکومت کو اس امر کا ادراک ہے کہ لوگ کاروبار منافع کیلئے کرتے ہیں۔ اگر منافع نہیں ہو گا تو کاروبار نہیں ہو گا۔ جائز منافع کیلئے قانون اور پالیسیوں کا فریم ورک موجود ہے۔قومی سرمایہ داری کے نظریے کا ادراک ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے بہتر طور پر کیا ہے۔ ملائیشیا پاکستان جیسا ملک ہے۔ مہاتیر نے تو اپنے ملک میں چین کی سرمایہ کاری کو روک دیا ہے اور پہلے سے وہاں کام کرنیوالے چین کے سرمایہ کاروں کو بہت حد تک نکال دیا ہے۔ مہاتیر عہدِ جدید کے کامیاب ترین سیاستدان ہیں۔ انہوں نے پہلے بھی ملائیشیا کو بحرانی کیفیت سے نکالا۔ اب دوسری دفعہ 82سال کی عمر میں ملائیشیا کو ریسکیو کرنے کیلئے آئے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ اگر چین کے سرمایہ کار بڑے سرمائے کیساتھ ان کے ملک میں آئینگے تو ملائیشیا کے لوگوں کو تجارت اور صنعت کاری کا موقع نہیں ملے گا اور بالآخر ایک وقت ایسا آئیگا، جب ملائیشیا پر چین کے لوگ قبضہ کرلیں گے اور ملائیشیا چین کی نو آبادی (کالونی) بن جائیگا۔ مہاتیر نے نہ صرف اپنے ملک کے کاروباری طبقے کو بیرونی کاروباری لوگوں سے تحفظ دیا بلکہ اپنے ملک میں تاجر دوست پالیسیاں بھی بنائیں۔ ملائیشیا کا سماجی رویہ بھی اپنے تاجروں اور صنعتکاروں کیلئے مخاصمانہ اور معاندانہ نہیں ہے۔

پاکستان میں قومی سرمایہ داری کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ شاید اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ تجارت اور صنعت کاری کے نام پر صرف اشرافیہ کو نوازا گیا۔ ظاہر ہے کہ وہ نہ تو کاروبار کر سکتے تھے اور نہ ہی صنعتیں چلا سکتے تھے۔ میں آج بھی اس بات کا قائل ہوں کہ بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں صنعتوں کو قومیانے کا عمل بہت حد تک درست تھا کیونکہ وہ صنعت کار قومی سرمایہ دار نہیں تھے بلکہ بعد میں بے شمار لوگ جائز کاروبار کے ذریعے ابھر کر سامنے آئے لیکن انہیں اس ملک میں تحفظ نہیں ملا۔ محلے اور گلی کے ’’بھائی‘‘ سے لیکر اعلیٰ سرکاری عمال اور حکمرانوں تک نے انہیں بلیک میل کیا، انکے جائز کاموں کی فائلیں روک دی جاتیں۔ انہیں اس سے بچنے کیلئے ’’کرپشن‘‘ کرنا پڑی اور لین دین کا عمل شروع کیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ لوگوں نے ناجائز طریقے سے پیسہ نہیں کمایا بلکہ یہاں جائز طریقے سے پیسے کمانے والا بھی عذاب میں ہوتا ہے۔ پاکستان سے سرمایہ قانونی یا غیر قانونی طریقے سے اسلئے باہر چلا گیا کہ سرمایہ دار یہاں نہ محفوظ ہیں اور نہ ہی اس کی عزت ہے۔ بیرونِ ملک منتقل ہونے والا سارا سرمایہ ناجائز طریقے سے نہیں کمایا گیا۔ عدم تحفظ، بے یقینی، دہشت گردی، جائز طریقے سے کاروبار کا ماحول نہ ہونے کی وجہ سے وہ لوگ بھی اپنا سرمایہ باہر لے گئے، جو اس ملک کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ آج پاکستان نے ایک طرف اپنی معیشت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھی ہوئی ہے اور دوسری طرف اس سے نکلنے کیلئے چین کے پاس معیشت گروی رکھنے کی حکمت عملی کو انقلابی تصور کیا جا رہا ہے۔ جو کام چین کے سرمایہ کار کر رہے ہیں، وہ پاکستان کے سرمایہ کار بھی کر سکتے تھے۔ چینی سرمایہ کار پاکستان میں اب تک 25ارب ڈالرز سے زیادہ سرمایہ کاری کر چکے ہیں لیکن ایک بھی ڈالر پاکستان کے اسٹیٹ بینک میں نہیں آیا۔ انہوں نے مشینری اور افرادی قوت بھی چین سے حاصل کی، ٹیکنالوجی اورکنسلٹنٹ بھی چینی تھے۔ اس طرح انکی سرمایہ کاری واپس چین چلی گئی۔ضروری ہے کہ سرمایہ داروں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ انکے ساتھ توہین آمیز اور مخاصمانہ رویہ ترک کیا جائے۔ انہیں سرکاری اور غیر سرکاری بااثر افراد کی بلیک میلنگ سے بچایا جائے۔ انہیں اس رویے سے بھی تحفظ دیا جائے کہ وہ جتنے زیادہ دولتمند ہیں، اتنا انہیں دبائو کا شکار بنایا جائیگا۔ اس رویے کو دراصل ان (CRON) سرمایہ داروں نے جنم دیا، جو قومی سرمایہ داری کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں اور بیرونی طاقتوں کے ہاتھ گروی معیشت کو اپنی سیاست و طاقت کی میخ تصور کرتے ہیں۔

تازہ ترین