• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی حقوق کے کارکنوں کا لبرل آوازوں کو مضبوط کرنے کا مطالبہ

واشنگٹن (واجد علی سید)امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اور عالمی تنہائی بلاشبہ پاکستان کے لیے سخت خطرے کا باعث ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستانی حکام اس حقیقت سے انکار کررہےہیں۔اس بات کا اظہار انہوں نے’’ انتخابات کے بعد پاکستان‘‘ کے عنوان سے منعقدہ دوروزہ کانفرنس میں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ متعدد معروف پاکستانی جن کی رائے پاکستانی پالیسیوں کے خلاف ہےاور وہ مختلف ممالک میں رہائش پذیر ہیں ، یہاں جمع ہوئے ہیں تاکہ پاکستان میں جمہوریت ، انسانی حقوق اور تکثیریت پسند نظریے کی حمایت کرسکیں۔کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے حسین حقانی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اختلاف رائے رکھنے والوں سے سختی کی جارہی ہے ، جس سے نہ ہی ملک کے معاشی مسائل ختم ہوں گے اور نہ ہی اس سے ملک کے مثبت تشخص سے متعلق حکومتی موقف کو کوئی فائدہ پہنچے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ملک کے مثبت تشخص کو اجاگر کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ درست تاثر قائم کیا جائے ، دہشت گردی کے سائے ختم کیے جائیں ، بیرونی انحصار میں کمی اور جمہوری کمی کو ختم کیا جائے۔دو روزہ کانفرنس کا اختتام کل ہوگا جس میں امریکی رکن کانگریس بریڈ شیرمین جو کہ خارجہ امور کی ہائوس کمیٹی برائے ضمنی کمیٹی ایشیاءکے اعزازی چیئرمین ہیں ، خطاب کریں گے۔کانفرنس کا انعقاد سائوتھ ایشینز اگینسٹ ٹیررازم اینڈ فور ہومن رائٹس(ساتھ)نے کیا تھا، جس میں میزبانی حسین حقانی اور امریکی نژاد کالم نگار ڈاکٹر محمد تقی کررہے ہیں۔اس سے قبل ساتھ کانفرنس کا انعقاد 2016اور2017میں لندن میں ہوا تھا۔رواں برس کانفرنس کے شرکامیں کمی آئی ہےکیوں کہ اس کے پاکستانی شرکاءپر حکام نے شرکت کرنے سے پابندی عائد کردی ہے۔کچھ روز قبل پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم)کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو پشاور ایئرپورٹ پر روک لیا گیا تھا۔انہوں نے کانفرنس منتظمین کو بتایا تھا کہ حکومت نے انہیں کانفرنس میں شرکت سے روک دیا ہے۔ساتھ نے اپنے اعلامیہ میں کہا تھا کہ جمہوریت پسند پاکستانی، جس میں آزاد خیال، بلوچ، سندھی ، پشتون، سرائیکی اور مہاجر قوم پرست ، عمران خان کے وزیر اعظم بننے کوآمرانہ طرز حکومتکے طور پر دیکھ رہے ہیں۔اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ اجلاس میں ہمیں امید ہے کہ اس طرح کے سوالات اٹھائے گئے جیسا کہ 2018انتخابات کے بعد پاکستان کہا کھڑا ہے، دہشت گردوں اور دہشتگرد گروہوں کے پاکستان میں ہونے کے کیا اثرات ہوں گےاور روشن خیال نظریات اور کمزور ہوتی اصلاحی آوازوں کو کس طرح مضبوط کیا جاسکتا ہے۔ڈاکٹر محمد تقی کا کہنا تھا کہ آزادی پسند پاکستانیوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہےتاکہ دانش وروں اور سیاسی مباحثے کے لیے جگہ بنائی جاسکے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی پریس کو باندھا ہوا ہے، الیکٹرانک میڈیا کو جھکنے پر مجبور کیا گیا ہے، صحافیوں کو ہراسا ں کیا جارہا ہےاور سیاسی جماعتوں کو جھکنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آمرانہ طرز حکومت کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی۔

تازہ ترین