• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقبوضہ کشمیر تاحال نہ صرف قابض بھارتی فوجوں کی بربریت کی تصویر بنا نظر آرہا ہے بلکہ بھارتی ریاستی مشینری کے ہاتھوں قتل و غارت، انسانی حقوق کی پامالی اور ظلم و ستم کے نت نئے طریقوں کی ایجاد نے 1947ء سے عالمی ضمیر کے لئے چیلنج بنے رہنے والے اس مسئلے کی سنگینی کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں اس کا جلد حل کیا جانا دنیا اور خطے کے استحکام کی ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ کشمیری عوام کا قصور یہ ہے کہ 1947ء میں برٹش انڈیا کی تقسیم کے ہر پالیسی اصول کے اعتبار سے پاکستان کا حصہ بننے والی ریاست جموں و کشمیر میں نئی دہلی کی طرف سے غیرقانونی طور پر فوجیں اتارے جانے کے جارحانہ قدم کی انہوں نے بھرپور مزاحمت کرکے کشمیر کے ایک حصے کو آزاد کرالیا اور جب سری نگر کی آزادی کا مرحلہ بھی صاف نظر آنے لگا تو بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اپنی فوجوں کو ہتھیار ڈالنے کی خفت سے بچانے کے لئے اقوام متحدہ میں گئے اور وعدہ کیا کہ عالمی ادارے کی نگرانی میں منعقد ہونے والے اس ریفرنڈم کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرلیں گے جس کے ذریعے کشمیری عوام کو اپنے ووٹ کے ذریعے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنا ہے۔ نئی دہلی بعد میں اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اپنے وعدوں سے نہ صرف پھر گیا بلکہ مقبوضہ علاقے میں مزید بھاری فوجیں تعینات کرکے کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق مانگنے سے روکنے کے لئے بہیمیت ،درندگی اور ریاستی دہشت گردی کا ہر حربہ آزما رہا ہے۔ مظلوم مگر پرعزم کشمیریوں کی چوتھی نسل تک پہنچی ہوئی آزادی کے لئے دی گئی قربانیوں کا یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ 15؍دسمبر کو ضلع پلوامہ میں بھارتی فوج کی براہ راست فائرنگ سے ایک درجن سے زیادہ افراد کی شہادت اور سیکڑوں کے زخمی و اپاہج ہوجانے کے بعد 17؍دسمبر کو یوم سوگ کی ہڑتال کے دوران آرمی ہیڈ کوارٹر پر احتجاجی مارچ میں مزید وحشیانہ فائرنگ ہوئی، میر واعظ عمر فاروق اور یٰسین ملک سمیت حریت فورم اور دیگر تنظیموں کے رہنما گرفتار کرلئے گئے جبکہ وادی کے کئی شہر کرفیو کی زد میں ہیں۔ یہ ایسی صورت حال ہے جس میں تنازع کشمیر کے فریق اور کشمیری عوام کی اکثریت سے اخوت کا رشتہ رکھنے والے پاکستانیوں کے لئے لاتعلق رہنا ممکن نہیں۔ قومی اسمبلی کی متفقہ قرارداد، پاک فوج کے ترجمان کے بیان، سینٹ کی مجلس قائمہ برائے داخلہ کے ردعمل، آزاد کشمیر کے صدر مسعود خاں، دیگر رہنمائوں اور عوامی حلقوں کی آوازوں کا لب لباب یہ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے اور کشمیری عوام کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کریں۔ یہی آوازیں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹوں، آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس (OIC)کے سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے بیان، استنبول میں پارلیمینٹیرینز برائے القدس کے نام سے منعقدہ عالمی کانفرنس سمیت متعدد فورموں سے سنائی دے رہی ہے اور ہر اس مقام پر بلند ہورہی ہے جہاں کشمیری عوام موجود ہیں۔ پاکستان کی ہر حکومت عالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کراتی رہی ہے کہ کئی جنگوں کا سبب بننے والے مسئلہ کشمیر کا حل عالمی امن اور خطے کی ترقی کی ناگزیر ضرورت ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے پاک بھارت مکالمے کے لئے کی گئی حالیہ پیش کشوں کا نتیجہ جنوبی ایشیا کے بٹوارے کا فیصلہ کرنے والی کانگریسی اور مسلم لیگی قیادت کے تصور کے مطابق بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں امریکہ اور کینیڈا جیسا تعاون پیدا ہونے کی صورت میں ظاہر ہو۔ جس طرح جرمنی و فرانس نے ’’الیزے معاہدے‘‘ کے ذریعے دریائے رائن کو ’’رقابت‘‘ کی بجائے ’’دوستی‘‘ کی علامت بنالیا، نئی دہلی اور اسلام آباد بھی مسئلہ کشمیر پرامن طور پر حل کرکے اپنے عوام کو امن و خوشحالی کا تحفہ دیں۔ یہ کام بظاہر مشکل سہی مگر دونوں ملکوں کے فہمیدہ طبقے رائے عامہ منظم کرتے رہیں تو ایک نہ ایک روز یہ منزل سر ہو ہی جائے گی۔

تازہ ترین