• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک غیرملکی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے رہنے والے دنیا کے اداس ترین لوگوں میں چوتھے نمبر پر آ گئے ہیں۔ اس میں دنیا کے لیے کوئی خبر ہو تو ہو، ہمارے لیے تو یہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے۔ پاکستان کے کسی شہر میں کسی سڑک پر نکل جایئے، مجال ہے جو کسی چہرے پر مسکراہٹ نظر آئے، کسی کوچے کا رخ کیجئے، ممکن نہیں کہ کوئی نوجوان قہقہہ سماعت میں رس گھولے۔ کبھی لاہور میں قیوم نظر کا خارا شگاف قہقہہ گورنمنٹ کالج لاہور کے کیفے سے پاک ٹی ہاؤس تک گونجتا تھا اور کچھ دور شیزان ریستوران سے سردار صادق کا قہقہہ گویا اس مصرع طرح پر گرہ لگاتا تھا۔صبح سویرے لیڈی سائیکلوں پر سوار پری چہرہ لوگوں کے کھلکھلاتے پرے پنجاب یونیورسٹی کی طرف جاتے دکھائی دیتے تھے۔ پھر اس شہر میں ایک شاعر اترا۔ سدا رہے نام اس کا پیارا، ناصر کاظمی کہلاتا تھا۔ انبالے کی روشنی تھا۔ اداسی کے اسباب تو کچھ بعد میں سامنے آئے، وہ تو اچھے دنوں ہی سے کچھ ایسے شعر کہتا آ رہا تھا۔
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
اور پھر
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
خود اداس رہتا تھا اور دوسروں کے لیے یہ تجویز تھی
مت ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں
60 ء کی دہائی میں سیاسی بیان بازی کی ہوا چلی تو ایک روز ناصر انتظار حسین کے پاس پہنچے۔ انتظار حسین مشرق میں لاہور نامہ لکھا کرتے تھے۔ فرمائش کی کہ آج میرا بیان بھی شائع کر دیں۔ انتظار نے کہا ۔ فرمائیے۔ آپ کیا بیان دینا چاہتے ہیں۔ ناصر نے دھویں کا مرغولہ اڑاتے ہوئے کہا، ” لکھو، معروف غزل گو شاعر ناصر کاظمی نے بیان دیا ہے کہ آج میں اداس ہوں“۔ انتظار نے ہکا بکا ہو کر کہا مگر صاحب آپ کے بیان میں خبریت کہاں ہے؟انتظار ٹھہرے افسانہ نویس، شاعر کی طرزیں کیاجانیں۔ شاعر نے تو 58 ء کے موسم خزاں ہی میں خبر دے دی تھی۔
ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
جس بستی کے شاعر اداس ہو جائیں، جہاں گائیک خاموش ہو جائیں، جہاں پرندے ہجرت کر جائیں، جہاں بچے ہنسنا بھول جائیں، وہاں گلیوں میں دھوپ تعزیت کرنے اترتی ہے۔ یہ دیس ہمیشہ سے تو ایسا اداس نہیں تھا۔ شور تھا اس مکاں میں کیا کیا کچھ۔ بہت بعد میں فیض نے بھی تو یاد دلایا تھا۔
گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے
یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
ثقہ لوگ قہقہے کو ابتذال سے تعبیر کرتے ہیں۔ جو ثقاہت کو ثقافت میں بدلنا چاہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ قہقہہ تو تسلیم کا اشارہ ہے، امید کا استعارہ ہے، تحفظ کا نشان ہے۔ جہاں سے قہقہہ اٹھ جائے وہاں میر انیس جیسے بابصیرت سوچ میں پڑجاتے ہیں۔
یہ بے سبب نہیں سُونے گھروں کے سناٹے
اور جو سبب ڈھونڈنے نکلیں تو فہرست نہیں، دفتر تیار ہوگا۔ لیاقت علی، حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹواور نواز شریف کی صورت میں امیدوں کی جو فصل کھیت رہی، وہ الگ ہے۔ اداسی کے اس نسخے میں ایوب، یحییٰ، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے اجزاء شامل کرلیں، تین آئین مثلہ کیے گئے، وطن دولخت ہوا، بھابھڑا سے ڈھاکہ تک، سائٹ کراچی سے لیاقت باغ تک، کالونی ملز سے ہشت نگر تک، پکا قلعہ سے کھجی گراؤنڈ تک، ڈیرہ بگٹی کی پہاڑیوں سے چہار باغ سوات تک
پتیاں روتی ہیں، سر پیٹتی ہیں
قتل گل عام ہوا ہے اب تک
اور پھر یہ بھی تو دیکھیں حالیہ انسانی تاریخ میں پاکستان جیسے کتنے ایسے ملک ملیں گے جہاں کے بہترین ذہنوں نے تین نسلوں سے انسانی وقار، جمہوریت اور شہریت کی مساوات کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں لیکن آئے روز حکم ہوتا ہے، ”اٹھاؤ پتھر اور چڑھو پھر سے پہاڑ کی چوٹی پر“۔
اداسی کا ایک پہلو تو اس آگہی سے بھی جنم لیتا ہے کہ اسی دنیا میں ”ایسے معمورے بھی ہیں، خوشحال ہے خلقت جن کی“۔جہاں علم کے چشمے بہتے ہیں، جہاں کارخانوں میں پہیہ گھومتا ہے، جہاں حکمران عوام کی مرضی سے چنے جاتے ہیں اور اپنے ہم وطنوں کی بہبود کیلئے سرگرداں رہتے ہیں، جہاں سڑکوں پر کوئی بچیوں کے لباس پر اعتراض کا یارا نہیں رکھتا، جہاں لکھنے والے کا قلم آزاد ہے، مصور کا مو قلم خشک نہیں ہوا اور ساز کے تار سُرمیں ہیں۔ ہماری اداسی محض غربت کا سوال نہیں۔ یہ وسائل کی قلت سے بھی جنم نہیں لیتی۔ ہماری اداسی ہمارے الجھاؤ سے نکلی ہے۔ ہماری معاشرت کی سمت طے نہیں ہوئی، ہماری سیاست میں نشان منزل کا تعین نہیں ہوا، ہم نے مل جل کر رہنے کیلئے ضروری خطوط نہیں کھینچے۔ ہماری اداسی انہونی کے خوف کا نام ہے۔ ہم نے سوچ پر پہرے لگا رکھے ہیں اور ہم ایک مسیحا کے انتظار میں ہیں۔ جو قومیں مسیحا کے انتظار میں رہتی ہیں وہ بالآخر تھک کر اداس ہو جاتی ہیں اور پھر یہ اداسی ٹھہر جاتی ہے۔
تازہ ترین