• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومیں بحرانوں سے نبرد آزما ہو سکتی ہیں، آفات اور حادثات کے صدموں سے نکل سکتی ہیں، جنگوں کی تباہ کاریوں کے بعد اپنی تعمیر نو کر سکتی ہیں اور مشکلات اور رکاوٹوں کو عبور کر سکتی ہیں بشرطیکہ ان کی امیدیں دم نہ توڑیں کیونکہ قوموں کے لئے مایوسی سے نکلنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ مایوسی ابتری کو بڑھاوا دینے والی ہولناک طاقت کا نام ہے۔ مایوسی ایک دلدل ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کو دیکھ کر نجانے کیوں خلیل جبران کی نظم ’’قابل رحم ہے وہ قوم!‘‘ بار بار زبان اور قلم کی نوک پر آ جاتی ہے۔ میں حقیقت کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ بقول شخصے ہم اپنے احساس چھپانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری آنکھیں سب کچھ بتا رہی ہیں۔

شاید اسی بات کا ادراک کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باوجوہ بار بار ایک نئے قومی بیانیے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ آرمی چیف سائبر وار کے ایک عامل کی بھی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اگلے روز انہوں نے نیول اکیڈمی کراچی میں پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ابھی ہم خود پر مسلط جنگ کی دہشت گردی اور تباہی سے نکلے نہیں کہ گمراہیوں کا شوشہ اٹھ گیا ہے۔ اس بار بھی پہلے کی طرح خطرے کے اہم کردار کچھ اپنے ہی نکل آئے۔ نفرت، نسل پرستی یا فرقہ پرستی سے اندھے اور سوشل میڈیا کی زد میں آئے ہوئے کچھ لڑکے لڑکیاں اس خطرناک بیانیے کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان حملوں اور خطروں کے جواب میں زیادہ بہتر بیانیہ لانے کی ضرورت ہے۔ آرمی چیف کی اس بات پر توجہ دینے کی فوری ضرورت ہے۔ نیا بیانیہ صرف سیاسی جماعتیں ہی رائج کر سکتی ہیں۔ یہ اسی صورت میں بن سکتا ہے، جب سیاسی جماعتوں کے پاس نظریہ اور کردار ہو گا۔ اس وقت صورتحال بہت مایوس کن ہے۔ جس مقام پر آج پاکستان کے عوام کو پہنچادیا گیا ہے وہاں سے ایک گہری کھائی کی طرف ڈھلان شروع ہوتی ہے اور لوگوں میں اتنی سکت نہیں ہے کہ اوپر کی طرف جا سکیں۔ طاقت اور سکت ملتی ہے امید اور یقین سے۔ جن قوموں میں امید سلامت اور یقین باقی رہتا ہے، ان قوموں کی ایک سیاسی اپچ ہوتی ہے۔ ان کی ایک سمت ہوتی ہے۔ ان کا ایک نظریہ ہوتا ہے اور وہ اپنی جدوجہد ترک نہیں کرتیں۔ پاکستانی قوم آج ان سب خصوصیات سے محروم ہے۔ پاکستان کے لوگوں کی اس وقت جو سماجی، سیاسی اور نفسیاتی کیفیت ہے، وہ اس نظام کا بنیادی خاصا ہے، جو جبر و استحصال پر قائم ہے۔ 1960ء کی دہائی میں جمہوریت، سیاسی آزادیوں اور بنیادی حقوق کی جس جدوجہد کا پاکستان کےعوام نے آغاز کیا تھا، اس کے جواب میں یہاں وہ قہر نازل ہوا، جو شاید پاکستان جیسے کسی اور ترقی پذیر ملک میں نازل نہیں ہوا ہو گا۔ 1980ء کی دہائی کی ابتدا میں جو دہشت گردی شروع ہوئی، وہ آج تک جاری ہے۔ 2001ء تک دہشت گرد نامعلوم تھے۔ 2001ء میں امریکہ نے نائن الیون کے واقعہ کے بعد جب دہشت گردی کو انتہا پسندوں کے کھاتے میں ڈالنا شروع کیا تو اچانک انتہا پسند تنظیمیں خود کار طریقے سے وجود میں آتی گئیں لیکن پاکستان میں یہ انتہا پسند بھی سامنے نہ آ سکے۔ پاکستان کے عوام کی سیاسی جدوجہد کو غیر مؤثر بنانے کے لئے پاکستان کو عالمی طاقتوں کی جنگ میں بے رحمی کے ساتھ دھکیل دیا گیا۔ بے چارے پاکستان کے عوام کہاں تک مقابلہ کرتے۔ عوام کی بات کرنے والے سیاستدانوں کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ انکے رہنمائوں نے مصلحت اور کرپشن کا راستہ اختیار کیا۔ آج نہ سیاست کسی کے ہاتھ میں ہے اور نہ معیشت کسی کے کنٹرول میں۔ دہشت گردی، صدمات، مہنگائی، غربت، سیاسی تحریکوں کی عدم موجودگی، بلکانائزیشن (BALKANIZATION) یعنی تقسیم در تقسیم نے لوگوں کو ناامید ی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔تحریکِ پاکستان اور اس کے نتیجے میں قیام پاکستان نے لوگوں میں امید اور یقین کی ایسی طاقت پیدا کی تھی کہ پاکستان کی اس وقت کی قیادت عالمی طاقتوں سے نہ صرف برابری کی بنیاد پر بات کرتی تھی بلکہ وہ دنیا کو یہ باور بھی کراتی تھی کہ وہ کسی سے ڈکٹیشن نہیں لے گی۔ دنیا کو بھی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ نئی مملکت بہت بڑی طاقت بن سکتی ہے۔ اس لئے ابتدا میں ہی پاکستان کے لوگوں سے امید اور یقین چھیننے اور پاکستان میں سیاست کو ختم کرنے کے منصوبے پر عمل شروع ہو گیا۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو اس منصوبے کا شکار بنایا گیا اور باقی سیاستدانوں کو احتساب کے نام پر سیاست سے باہر رکھنے کی کوشش کی گئی۔ 1960ء کے عشرے میں پاکستان کے عوام بین الاقوامی طاقتوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کے اس منصوبے کے خلاف تھے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی مقبول ترین سیاسی جماعتیں بن کر ابھریں۔ یہیں سے پاکستان کے عوام سے ایک نئی بھرپور جنگ کا آغاز ہوا۔ بھٹو موجودہ پاکستان کے عوام کی امید تھے۔ انہیں ’’عبرت کا نشان‘‘ بنا کر لوگوں کو قومی صدمے سے دوچار کیا گیا۔ لوگوں کی سوچ اور نظریات کا توڑ کرنے کے لئے طاقتور حلقوں کا سیاسی بیانیہ رائج کرنے کی جارحانہ کوششیں شروع ہوئیں۔ اس دوران بھی پاکستان میں تحریک بحالیٔ جمہوریت چلی اور اس خطے کی تاریخ کی سب سے بڑی مزاحمتی تحریک بن گئی۔ اس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز ہوا۔ سرد جنگ کے عہد کا خاتمہ ہوا اور دنیا میں نیو امریکی ورلڈ آرڈر نافذ ہوا، جس سے مزاحمت کی عالمی تحریکیں کمزور ہوئیں۔ ان حالات میں بھی پاکستان کے عوام کا اپنا سیاسی بیانیہ موجود رہا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی صورت میں ایک امید باقی رہی۔ طاقتور حلقوں نے اپنی سیاسی جماعتوں کو مضبوط کرنا شروع کیا اور اپنا بیانیہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ رائج کیا۔ پہلے یہ بیانیہ تھا کہ پیپلز پارٹی ملک کے لئے خطرہ ہے۔ میاں محمد نواز شریف کی صورت میں جب ایک اور سیاستدان اپنی حیثیت منوا چکا تو لوگوں نے انہیں متبادل کے طور پر مجبوراً تسلیم کر لیا اور ان سے امیدیں وابستہ کر لیں۔ آمر پاکستان کو عالمی طاقتوں کی جنگ میں جھونک چکے تھے۔ دہشت گردی کی نئی لہر نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اسی اثناء میں 27دسمبر 2007ء کا سانحہ رونما ہوا اور بے نظیر بھٹو شہید ہو گئیں۔ میاں محمد نواز شریف بھی اپنی پشت پناہی کرنے والوں کے کیمپ سے باہر آئے تو ’’سیاستدان کرپٹ‘‘ کا بیانیہ رائج کیا گیا۔ چونکہ سیاسی تحریکیں تقریباً کمزور ہو چکی تھیں لہٰذا لوگوں نے عمران خان سے امیدیں وابستہ کر لیں۔ ان کا منطقی انجام بھی نظر آ رہا ہے کیونکہ وہ نہ تو کسی سامراج یا آمریت مخالف تحریک کے نتیجے میں آگے آئے ہیں اور نہ ہی ان کا ایسا سیاسی بیانیہ ہے جو قوم کو مایوسی سے نکال کر کوئی سمت دکھا سکے۔ المیہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی سیاست کے بجائے پیسے سے مقابلہ کرنے کی راہ پر گامزن رہی۔ وہ بھی مؤثر سیاسی بیانیہ نہیں دے سکی۔ ماضی میں سیاسی جماعتوں کی ترجمانی کرنے والے اعلیٰ کردار اور اعلیٰ دانش کے لوگ ہوتے تھے، جن کی بات میں اثر اور گہرائی ہوتی تھی۔ اب تو سیاسی جماعتوں کی ترجمانی کرنے والوں کا وہ معیار ہی نہیں، جو عوام کو مایوسی سے نکالنے والا بیانیہ دے سکے۔ اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اب جو بیانیہ بالآخر رائج کیا گیا ہے، وہ مایوسی اور بالکانائزیشن سے لوگوں کو نہیں روک پا رہا۔

تازہ ترین