• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ وطنِ عزیز میں شعبۂ تعلیم ایک منظم کاروبار کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ مختلف ادوار میں حکومتی سطح پر تعلیمی شعبے سے برتی جانے والی غفلت سے سرکاری اسکولوں کا معیار پست ہوتا گیا جس کے نتیجے میں پرائیویٹ اسکولوں کی ایسی اجارہ داری قائم ہوئی کہ اب نجی انتظامیہ کی طرف سے من مانی فیسیں وصولنے، کتابیں، یونیفارم مہنگے داموں فروخت کرنے کی شکایات عام ہو گئی ہیں۔ مہنگی فیسوں کے باب میں عدلیہ کے نوٹس لینے سے طلبہ کے والدین کی کچھ حد تک اشک شوئی ہوئی ہے لیکن نجی اسکولوں سے متعلق دیگر شکایات کے ازالے کیلئے بھی ایسی ہی توجہ درکار ہو گی۔ اس ضمن میں ’’جیو نیوز اسپیشل‘‘ پروگرام میں عوامی نوعیت کے اس موضوع کو زیر بحث لانا یقیناً ایک خوش آئند کوشش ہے۔ پروگرام میں یہ افسوسناک انکشاف کیا گیا کہ نجی اسکولز اور بعض بک شاپس کے گٹھ جوڑ کے باعث طالبعلموں کو مہنگی کتابیں خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ کراچی بکس ایسوسی ایشن کے نمائندے کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ اسکول والدین پر شرط عائد کرتے ہیں کہ نصابی کتابیں، کاپیاں مخصوص دکانوں سے لی جائیں جبکہ یہی کتب عام بک شاپس سے ساٹھ فیصد سستی ملتی ہیں۔ اس رجحان سے طلبہ کے والدین کا مالی استحصال تو ہو ہی رہا ہے وہیں دوسری طرف حکومتی انتظامیہ کی طرف سے مختلف شہروں میں قائم کتابوں کے مرکز‘ اردو بازار کے عام دکانداروں کی فروخت میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔ ضروری ہو گیا ہے کہ اسکولوں کی مخصوص شاپس کے ذریعے مہنگی کتابیں بیچنے اور ناجائز منافع کمانے پر پابندی لگائی جائے۔ اسی طرح ’’جیو نیوز اسپیشل‘‘ میں اس شکایت کا بھی منظر عام پر آنا کہ عدالت عظمیٰ کے فیسوں میں ناجائز اضافہ ختم کرنے کے حالیہ فیصلے اور جون‘ جولائی کی فیس میں سے ایک ماہ کی فیس واپس یا ایڈجسٹ کرنے کے احکامات پر عملدرآمد میں ابھی تک اکثر نجی اسکول ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں، قابل افسوس ہے۔ عدلیہ کے احکامات پر عمل کیلئے وزارتِ تعلیم کو متحرک کردار ادا کرنا ہو گا، یہ حکومت کی ہی ذمہ داری ہے کہ تعلیمی شعبے کو کاروبار بنانے والوں کے خلاف ایکشن لے۔

تازہ ترین