• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام انتخابات میں صوبے کے عوام نے پی ٹی آئی کوایک اور موقع فراہم کیا٭ ہارون بلور، اسرار اللہ گنڈا پور، ایس پی طاہر داوڑ اور مولانا سمیع الحق کی شہادت نے شہریوں کو مغموم کردیا٭پشاور میٹرو بس منصوبہ مکمل نہ ہوسکا

2018ء میں جہاں مُلک میں دیگر کہیں اہم واقعات رونما ہوئے، وہیں ’’الیکشن ایئر‘‘ ہونے کے ناتے بھی یہ سال کافی اہمیت کا حامل تھا۔ گزشتہ برس مُلک کے دوسرے صوبوں کی طرح صوبہ خیبر پختون خوا بھی سیاسی سرگرمیوں، دہشت گردی کے واقعات اور انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کی وجہ سے مُلکی و غیر مُلکی ذرایع ابلاغ کی توجّہ کا مرکز بنا رہا۔صوبے میں سب سے بڑی تبدیلی یہ دیکھی گئی کہ عام انتخابات 2018ء میں خیبر پختون خوا کے عوام نے اپنی روایت کے برخلاف صوبے میں 5برس تک برسرِ اقتدار رہنے والی جماعت، پاکستان تحریکِ انصاف کو پہلے سے زیادہ ووٹ دے کر ایک مرتبہ پھر مسندِ اقتدار تک پہنچایا۔ گرچہ انتخابات میں شکست کھانے والی جماعتوں نے اس الیکشن کو ’’سلیکشن‘‘ قرار دیا، لیکن درحقیقت خیبر پختون خوا کے عوام نے پی ٹی آئی کی حکومت کی کارکردگی جانچتے ہوئے اُسے اپنی پالیسیز جاری رکھنے کے لیے ایک اور موقع فراہم کیا۔ 25جولائی 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات سے قبل خیبر پختون خوا میں دو انتخابی امیدواروں کو خود کُش دھماکوں میں نشانہ بنایا گیا۔ 10جولائی کو عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی ترجمان اورپشاور کے حلقےپی کے، 78سے انتخابی امیدوار، ہارون بشیر بلور ایک خود کُش حملے میں شہید ہو ئے۔ وہ پشاور کے علاقے، یکہ توت میں منعقدہ انتخابی جلسے میں پہنچے ہی تھے کہ وہاں پہلے سے موجود خود کُش بم بار نے گلے ملتے ہوئے خود کو دھماکے سے اُڑا لیا۔ خیال رہے کہ 1970ء میں سیاست کا آغاز کرنے کے بعد بلور خاندان ایسے کئی سانحات سے دو چار ہوا۔ 1997ء میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما، حاجی غلام احمد بلور کے اکلوتے صاحب زادے، شبّیر احمد بلور کو انتخابی مُہم کے دوران فائرنگ کر کے شہید کیا گیا اور 22دسمبر 2012ء کو بشیر بلور چھٹے خود کُش حملے میں شہید ہوئے۔ بشیر بلور کی وفات کے بعد ان کے جواں سال صاحب زادے، عثمان بلور دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے چل بسے۔ تاہم، ہارون بلور کی شہادت کے باوجود اے این پی نے انتخابات کا بائیکاٹ کر کے میدان کُھلا چھوڑنے کی بہ جائے عام انتخابات میں بھرپور حصّہ لینے کا اعلان کیا اور بعد ازاں مذکورہ نشست پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں ہارون بلور کی بیوہ، ثمر ہارون بلور نے کام یابی حاصل کی۔ دوسری جانب عام انتخابات سے محض 3روز قبل 22جولائی کو پاکستان تحریکِ انصاف کے امیدوار اور سابق صوبائی وزیر، سردار اکرام اللہ گنڈاپور ڈیرہ اسمٰعیل خان میں ایک خود کُش حملے میں شہید ہو گئے۔ وہ 4برس تک خیبر پختون خوا کے وزیرِ زراعت رہے۔ وہ اپنے مخصوص ’’کائو بوائے‘‘ اسٹائل کی وجہ سے صوبے بَھر میں کافی مشہور تھے۔ اس سے قبل16اکتوبر 2013ء کو ان کے بھائی اور سابق وزیرِ خزانہ و قانون، سردار اسرار اللہ خان گنڈا پور کو شہید کر دیا گیا تھا۔ سردار اکرام اللہ گنڈا پور کی شہادت کے نتیجے میں خالی ہونے والی نشست، پی کے99پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں ان کے صاحب زادے، آغاز گنڈا پور کام یاب ہو کر اسمبلی میں پہنچے۔

25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں صوبے میں پہلے سے زیادہ اکثریت ملنے پر پاکستان تحریکِ انصاف نے دھوم دھام سے جَشن منایا اور اسے اپنی بہترین کارکردگی کا نتیجہ قرار دیا۔ تاہم، شکست کھانے والی جماعتوں نے اس کام یابی کو ’’کسی اور کی مہربانی‘‘ کا نتیجہ قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب 14اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی اپنی چھوڑی ہوئی دو صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھی، تو اپوزیشن نے اسے اپنے مؤقف کی تصدیق قرار دیا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو 14اکتوبر کو سوات کی دونوں صوبائی نشستوں اور بنّوں کی ایک قومی نشست پر شکست کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ پی کے، 78پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں بھی اے این پی نے کام یابی حاصل کی۔ ابھی اے این پی کی فتح کی گونج باقی تھی کہ محض ایک ہفتے بعد ہی گورنر خیبر پختون خوا، شاہ فرمان کی چھوڑی ہوئی نشست، پی کے71پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں ایک بڑا اپ سیٹ سامنے آیا اور اے این پی ہی کے ایک امیدوار نے گورنر خیبر پختون خوا کے بھائی اور پاکستان تحریکِ انصاف کے امیدوار، ذوالفقار خان کو شکست سے دو چار کر دیا۔ یوں صوبے میں جس طرح پہلی مرتبہ کسی سیاسی جماعت کو مسلسل دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا، اُسی طرح پہلی بار ایسا ہوا کہ کوئی صوبائی حکومت برسرِ اقتدار آنے کے محض دو ماہ کے اندر ہی عوامی تائید و حمایت سے ہاتھ دھو بیٹھی ہو۔ نیز، ہماری انتخابی تاریخ بھی اس اَمر کی گواہی دیتی ہے کہ حُکم ران جماعتیں ضمنی انتخابات میں نہ صرف اپنی چھوڑی ہوئی نشستیں دوبارہ حاصل کر لیتی ہیں، بلکہ دیگر جماعتوں کی خالی کردہ نشستیں بھی اپنے نام کرنے میں کام یاب ہو جاتی ہیں۔

صوبائی اسمبلی کی 10خالی نشستوں میں سے9پر 14اکتوبر کو اور ایک پر21اکتوبر کو ضمنی انتخابات ہوئے۔ صوبے کی حُکم راں جماعت نے 10میں سے 6نشستوں پر کام یابی حاصل کی۔ البتہ اسے اپنی خالی کردہ سوات کی2اور پشاور کی ایک نشست پر شکست کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ اے این پی بھی مردان کی اپنی خالی کردہ نشست برقرار نہ رکھ سکی۔ ضمنی انتخابات کے دوران اے این پی سب سے زیادہ فائدے میں رہی کہ اسے 3نشستوں پر کام یابی ملی، جب کہ سوات کی ایک نشست مسلم لیگ (نون) کے حصّے میں آئی۔ گرچہ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے اپنی 4نشستیں کھو دیں، لیکن اس کے باوجود بھی حُکم راں جماعت 124رُکنی صوبائی اسمبلی میں 82ارکان کے ساتھ ایوان کی سب سے بڑی جماعت ہے اور اسے 5آزاد اور مسلم لیگ (قاف) کے ایک رُکن کی حمایت کے ساتھ ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔ صوبے میں نئی حکومت قائم ہونے کے بعد سے اب تک صوبائی اسمبلی کا صرف ایک سیشن ہوا ہے، جس میں صوبائی حکومت نے نومبر سے جون تک کا بجٹ پیش کیا۔ اس بجٹ سے اس لیے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی گئی تھیں اور نہ ہی عوام کو زیادہ ریلیف ملا کہ یہ رواں مالی سال کے باقی ماندہ 8ماہ کا بجٹ تھا اور ایک تہائی عرصے کا بجٹ نگراں صوبائی حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔ بجٹ پیش کرنے کا مرحلہ ماہرِ معیشت اور صوبائی وزیرِ خزانہ، تیمور سلیم جھگڑا کی پہلی آزمایش تھی، جس پر وہ پورےاُترے اور انہوں نے ہر اعتراض کا مدلّل جواب دے کر اپوزیشن کو لاجواب کر دیا۔

گرچہ عام انتخابات میں شکست کے بعد ایم ایم اے کے سربراہ، مولانا فضل الرحمان نے حُکم راں جماعت کے خلاف تلخ لب و لہجہ اپنایا، لیکن ایوان میں حزبِ اختلاف کا اصل کردار اے این پی ہی ادا کرتی رہی۔ دوسری جانب انتخابات کے بعد صوبے میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) پر جمود سا طاری ہو گیا اور جمعیت علمائے اسلام (فے) میں اندرونی اختلافات سامنے آئے۔ گرچہ جےیو آئی (فے) نےان پر قابو پانے کے لیے انٹرا پارٹی الیکشن کا آغاز کیا،لیکن سینیٹ کے انتخابات میں صوبائی امیر کی شکست کے بعد پیدا ہونے والی دُوریاں برقرار رہیںاور پہلی بار صوبائی ناظمِ انتخابات سے لے کر ان کے معاونین اور ضلعی ناظمینِ انتخابات تک پر اعتراضات سامنے آتے رہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ تاہم، اے این پی نے منظّم انداز میں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں، جس کا پھل اسے ضمنی انتخابات میں کام یابی کی صورت میں ملا۔

پشاور میں جاری میٹروبس کا منصوبہ گزشتہ برس بھی مکمل نہ ہو سکااور شہری گردوغبار میں اَٹے رہے۔ صوبے کے سابق وزیرِاعلیٰ، پرویز خٹک نے اکتوبر 2017ء میں اس منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے ناقابلِ یقین حد تک حیرت انگیز دعویٰ کیا تھا کہ یہ پراجیکٹ 6ماہ کی ریکارڈ مدّت میں مکمل ہو گا اور مارچ 2018ء میں اس کا باقاعدہ افتتاح کیا جائے گا، لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا اور ساتھ ہی منصوبے کی لاگت میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس منصوبے کا ابتدائی تخمینہ 49ارب روپے لگایا گیا تھا، جو 67ارب روپے تک جا پہنچا اور اس کی قومی اقتصادی کائونسل نے منظوری بھی دے دی۔ سو، امید ہے کہ رواں برس یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔ تاہم، اس موقعے پر روپے کی قدر میں گراوٹ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپوزیشن نے مستقبل میں اس منصوبے کی لاگت مزید بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا۔

2018 ء کے دوران خیبر پختون خوا میں امن و امان کی صورتِ حال گزشتہ برسوں کی نسبت بہتر رہی۔ تاہم، دہشت گردی کے کچھ بڑے واقعات بھی رونما ہوئے اور دوسری جانب سیکوریٹی اداروں کی جانب سے دہشت گردوں کی پکڑ دھکڑ بھی جاری رہی۔ 3جنوری کو کائونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ، ہزارہ ڈویژن نے تحریکِ طالبان پاکستان کے 2دہشت گردوں، محمّد نواز اور عزیز اللہ کو ضلع بٹ گرام سے گرفتار کرلیا۔ ان دونوں دہشت گردوں نے افغانستان کے علاقے، کُنّڑ میںدہشت گردی کی تربیت حاصل کی تھی اور دہشت گردی کے کئی واقعات میں مطلوب تھے۔ 22جنوری کو بارہویں جماعت کے طالب علم، فہیم اشرف نے توہینِ رسالتﷺ کے جھوٹے الزام میں اسلامیہ کالج، چارسدّہ کے پرنسپل، سریر خان کو قتل کر دیا۔ مذکورہ طالب علم فیض آباد میں ہونے والے تحریکِ لبّیک کے دھرنے میں شرکت کی وجہ سے 3روز تک کالج سے غیر حاضر رہا تھا۔ 23جنوری کو ہنگو کے علاقے، اسپن ٹل میں ڈرون حملے میں حقّانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے3جنگ جُو مارے گئے۔ 3فروری کو سوات کے علاقے، کبل میں واقع آرمی کیمپ کے قریب خود کُش حملے میں پاک فوج کے 11اہل کار شہید، جب کہ 13زخمی ہوگئے ۔ اس حملے کی ذمّے داری ٹی ٹی پی نے قبول کی۔ حملے کے وقت پاک آرمی کے اہل کار گرائونڈ میں والی بال کھیل رہے تھے۔ 4فروری کو جماعتِ اسلامی کے مقامی رہنما، ملک طفیل بنّوں کے علاقے، مغل خیل میں گولی لگنے سے جاں بحق ہو گئے۔ 9فروری کو پشاور کے علاقے، دِیر کالونی میں موٹر سائیکل میں نصب دھماکا خیز مواد پھٹنے سے پراوِنشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر، محمد شکیل سمیت 3شہری زخمی ہو گئے۔ 28مارچ کو پشاور رِنگ روڈ پر خواجہ سرا، دانیال عُرف چُٹکی سمیت 2افراد نا معلوم ملزمان کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے۔ 30مارچ کو ڈیرہ اسمٰعیل خان کی تحصیل، کولاچی میں دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں 3پولیس اہل کار جاں بحق اور 4زخمی ہوگئے۔ دہشت گرد ڈی پی او، زاہد اللہ کو نشانہ بنانا چاہتے تھے، لیکن وہ محفوظ رہے۔ 3مئی کو جانی خیل، بنّوں میں بم دھماکے کے نتیجے میں 3سیکوریٹی اہل کار زخمی ہوئے۔ 29مئی کو ٹارگٹ کلنگ کے واقعے میں سماجی کارکُن اور سِکھ کمیونٹی کے سربراہ، چرن جیت سنگھ کو اسکیم چوک، کوہاٹ روڈ پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ 7جون کو لوئر دِیر کے علاقے، میدان سرکل میں پولیس وین پر دھماکے سے ایس ایچ او، بخت مُنیر خان ڈرائیور سمیت دم توڑ گئے، جب کہ اس واقعے میں ایک راہ گیر بھی جاں بحق ہوا۔ 27اکتوبر کی رات 8بجے اسلام آباد سے ایس پی رُورل خیبرپختون خوا، طاہر داوڑ کو اغوا کیا گیا۔ اغوا کے چند روز بعد ان کے موبائل فون نمبر سے اہلِ خانہ کو انگریزی میں یہ ایس ایم ایس موصول ہوا کہ وہ جہلم کے پاس ایک مقام پر موجود ہیں اور چند روز میں گھر واپس آجائیں گے، مگر ان کے اہلِ خانہ کا کہنا تھا کہ اُنہیں طاہر داوڑ کے موبائل فون سے ایس ایم ایس موصول ضرور ہوا تھا، لیکن وہ اُن کا لکھا ہوا نہیں تھا، کیوں کہ وہ ہمیشہ اردو میں ایس ایم ایس بھیجتے تھے۔ بعد ازاں، اغوا کے 17روز بعد ان کی لاش ننگرہار، افغانستان سے ملی، جہاں انہیں شہید کیا گیا تھا۔ 2نومبر کو جمعیت علمائے اسلام (سین) کے سربراہ، مولانا سمیع الحق کو راول پنڈی میں ان کی رہائش گاہ پر نامعلوم افراد نے چُھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا اور انہیں اکوڑہ خٹک میں اپنے والد، عبدالحق کے پہلو میں سپردِ خاک کیا گیا۔ پولیس کے مطابق، مولانا سمیع الحق کے سینے، گردن، پیٹ، ماتھے اور کندھے پر 10سے 12زخم آئے تھے۔ مولانا سمیع الحق کے صاحب زادے، حامد الحق نے لاش کا پوسٹ مارٹم کروانے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ پوسٹ مارٹم کروانےیا نہ کروانے کا فیصلہ کرنا ان کا شرعی حق ہے۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ عموماً مولانا سمیع الحق کے معتمدِ خاص اور ایک سیکوریٹی گارڈ ہمیشہ اُن کے ساتھ رہتے تھے، لیکن جس وقت یہ واقعہ ہوا، تو تب ان میں سے کوئی ایک بھی اُن کے پاس موجود نہیں تھا، جب کہ حملہ آور کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل ہوا۔ گرچہ مولانا سمیع الحق جس رہائشی اسکیم میں مقیم تھے، اُس میں جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں، لیکن تادمِ تحریر پولیس کو ان کیمروں کی فوٹیجز نہیں مل سکیں اور مولانا سمیع الحق کے قاتلوں کی تلاش بھی ابھی جاری ہے۔ دوسری جانب ایس پی طاہر داوڑ کے اغوا کے بعد افغانستان اور مولانا سمیع الحق کی اُن کے گھر میں قتل جیسے دل خراش واقعات نے سیکوریٹی اداروں کی کارکردگی پر بھی کئی سوالیہ نشانات لگا دیے۔ 

تازہ ترین