• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدّتوں سے یہی عالم، نہ توقع، نہ اُمّید…

 ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا تھرکول پاور پروجیکٹ ساڑھے چار ارب روپے سے زائد رقم لگنے کے باوجود بجلی کا ایک یونٹ بھی پیدا نہ کرسکا٭ ایف آئی اے اور نیب کی کارروائیوں نے سندھ کی فضا کو سارا سال گرمائے رکھا

بظاہر2018ء ملک کے لیے تبدیلی کا سال تھا، پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ اقتدار کے کھیل میں کئی عشروں سے اپنی جگہ بنائے رکھنے والی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (نواز) اور پاکستان پیپلزپارٹی کو اقتدار کے ’’وفاقی کیک‘‘ میں کوئی حصہ نہ مل سکا۔ مسلم لیگ تو پنجاب کی صوبائی حکومت سے بھی محروم ہو گئی، البتہ پیپلزپارٹی نے اپنے آبائی صوبے ’’سندھ‘‘ میں قدم جمائے رکھے۔ گویا سندھ تبدیلی کی دوڑ میں شامل نہ ہو سکا۔ تبدیلی آئی تو صرف اتنی کہ مسلم لیگ کے مقرر کردہ گورنر محمد زبیر کو جانا پڑا اور تحریک انصاف کے عمران اسماعیل سندھ کے گورنر بن گئے۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری عام انتخابات سے پانچ ماہ قبل ہی اعلان کر چکے تھے کہ مراد علی شاہ ہی آئندہ وزیراعلیٰ ہوں گے، لہٰذا عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ آیا تو مراد علی شاہ دوبارہ سندھ کے وزیراعلیٰ بن گئے۔

2018ء کے دوران چند اہم معاملات نے سندھ کو اپنی گرفت میں لیے رکھا جن میں سندھ حکومت اور سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے درمیان اختلافات، کراچی میں جعلی پولیس مقابلے، رائو انوار کا معاملہ، واٹر کمیشن کے احکامات، عام انتخابات کا انعقاد، متحدہ قومی موومنٹ کی پی آئی بی اور بہادرآباد کے دھڑوں میں تقسیم، سپریم کورٹ کے حکم پر کراچی میں تجاوزات کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی، چینی قونصلیٹ پر حملہ، ایم کیو ایم (پاکستان) کے سابق رکنِ قومی اسمبلی سیّد علی رضا عابدی کا قتل سرفہرست ہیں۔ سال کا آغاز ہوا تو آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اور سندھ حکومت کے مابین کشمکش سال گزشتہ کی طرح عروج پر تھی۔ اے ڈی خواجہ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئی تھیں مگر حکومت سندھ نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا رکھا تھا، وجہ یہ تھی کہ اے ڈی خواجہ نے سندھ پولیس میں تبادلوں اور تعیناتیوں پر سیاسی دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ صورتحال پی پی پی کی صوبائی قیادت اور قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کے لیے ناقابل قبول تھی، جو اپنے اپنے حلقوں میں اپنی پسند کے پولیس افسران کا تقرر چاہتے تھے۔ عدالت کے حکم پر اپنے عہدے پر واپس آنے کے بعد اے ڈی خواجہ کے موقف میں مزید سختی آ گئی اور ان کے بعض اقدامات سندھ کی ایک اعلیٰ شخصیت کی مزید ناراضی کا سبب بنے لہٰذا حکومت سندھ نے انہیں ہٹانے کا ایک قانونی نکتہ نکال ہی لیا، حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کو بتایا کہ آئی جی کی پوسٹ گریڈ بائیس کی ہے، جب کہ اے ڈی خواجہ گریڈ اکیس کے افسر ہیں لہٰذا آئی جی کی پوسٹ پر گریڈ بائیس کے کسی افسر کا تقرر ہونا چاہئے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حکومت سندھ کا یہ موقف درست تسلیم کر لیا۔ چیف سیکرٹری سندھ کی جانب سے وفاقی حکومت کو لکھے گئے خط میں آئی جی سندھ کے عہدے کے لیے تین نام تجویز کیے گئے تاہم وفاقی حکومت نے سمری مسترد کر دی۔ دوبارہ سمری بھیجی گئی، جس میں پہلے کی طرح سردار عبدالمجید دستی کا نام شامل تھا۔ 10جنوری کو وفاقی کابینہ نے سردار عبدالمجید دستی کو نیا آئی جی مقرر کرنے کی منظوری دے دی۔ مگر سپریم کورٹ نے وفاق کو قدم اٹھانے سے روک دیا۔ عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ آئی جی کی تقرری کا معاملہ عدالت کے فیصلے سے مشروط ہو گا۔ عدالت کے اس فیصلے نے ایک بار پھر سندھ حکومت کے ہاتھ باندھ دیئے، لیکن عام انتخابات سے تین ماہ قبل چاروں صوبوں میں نگراں حکومتوں کا قیام عمل میں آیا اور سندھ کے ایک سابق چیف سیکرٹری فضل الرحمٰن سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ بنے، تو الیکشن کمیشن کے حکم پر چاروں صوبوں کے آئی جیز تبدیل کر دیئے گئے، اس طرح سندھ حکومت کی اے ڈی خواجہ سے جان چھوٹ گئی۔ ان کی جگہ امجد جاوید سلیمی کو آئی جی سندھ مقرر کیا گیا پھر ستمبر میں نئی وفاقی حکومت نے ان کا تبادلہ کر کے کلیم امام کو سندھ کا آئی جی لگا دیا۔

تھر میں غذائی قلت، بیماریوں اور دیگر اسباب کی بناء پر بچوں کی ہلاکت کا سلسلہ2018ء میں بھی گزشتہ برسوں کی طرح جاری رہا۔ ہر روز بچوں کی ہلاکت کی خبریں میڈیا کی سرخیاں بنتی رہیں، گرچہ ’’سیاہ سونے‘‘ کی دولت سے مالامال خطے میں بڑے پیمانے پر اقتصادی سرگرمیاں بھی جاری رہیں، مگر بچوں کی ہلاکتوں میں کمی نہ آ سکی اور سال کے اختتام تک تقریباً چھے سو بچوں کی اموات کی خبریں سامنے آئیں۔حکومتِ سندھ کی جانب سے اپریل کے مہینے سے جون تک خشک سالی اور قحط سے متاثرہ تھری باشندوں کے لیے مفت گندم فراہم کی گئی۔ اس پروگرام کے تحت ہر خاندان کو100کلو گندم دی گئی۔ اس کے علاوہ وزیراعلیٰ کی جانب سے تھر کے اسپتالوں کو12ایمبولینسز کا تحفہ بھی دیا گیا۔ چیف منسٹر ہائوس میں منعقدہ ایک اجلاس میں ’’تھر فائونڈیشن‘‘ کے قیام کی منظوری دی گئی۔ اس فائونڈیشن کے قیام کا مقصد اس علاقے میں تعلیم، صحت، واٹر سپلائی اور دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ تھر ہی کے حوالے سے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے کوئلے سے بجلی بنانے کے منصوبے کا سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تو کئی ہوش رُبا انکشافات ہوئے۔ اس منصوبے پر اب تک ساڑھے چار ارب روپے سے زائد رقم خرچ کی جا چکی ہے، مگر اب تک ایک یونٹ بجلی بھی پیدا نہیں ہوئی۔ سپریم کورٹ نے اس منصوبے میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی تحقیقات نیب کے حوالے کر دی ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس فیصل عرب نے دورانِ سماعت کہا کہ منصوبہ دو سال سے بند تھا، لیکن کروڑوں روپے کی خریداری جاری تھی۔ خدشہ ہے کہ پہلے کے چار ارب روپے بھی منصوبے پر نہیں لگے ہوں گے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے یہ بھی انکشاف کیا کہ تھر کول پلانٹ جیسے بڑے منصوبے کے لیے صرف تین چوکیدار تھے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لوگ منصوبے کی جگہ سے سامان تک اٹھا کر لے گئے ہیں۔

سندھ میں اعلیٰ افسروں کے خلاف نیب کی اعلیٰ پیمانے پر کارروائیوں نے صوبے کے سیاسی اور انتظامی حلقوں کو پورا سال لرزہ براندام رکھا۔ اس پس منظر میں 24فروری کو سندھ سیکرٹریٹ میں آتشزدگی کا واقعہ خاصا پراسرار تھا۔ آگ لگنے سے مختلف محکموں کے دفاتر کو شدید نقصان پہنچا اور ریکارڈ جل گیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے آتشزدگی کو ایک سازش قرار دیا۔ فنکشنل مسلم لیگ کی رکن صوبائی اسمبلی نصرت سحر عباسی نے اس واقعے پر تحریک التوا جمع کروائی، جس میں کہا گیا تھا کہ تعطیل کے روز سندھ سیکرٹریٹ میں آگ لگنے کی تحقیقات کروائی جائیں اور اصل حقائق سامنے لائے جائیں۔ نیب کی جانب سے حکومت سندھ کے مختلف محکموں پر چھاپے مارنے، ریکارڈ چیک کرنے اور افسران کی گرفتاری کا سلسلہ تقریباً پورے سال جاری رہا۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سب سے زیادہ زد میں آئی۔ ایف آئی اے نے بھی بڑی تیزی دکھائی۔ نیب حکام، ایڈووکیٹ جنرل کے کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے دفاتر میں غیرقانونی بھرتیوں کے خلاف بھی تحقیقات میں مصروف رہے۔ سابق وزیر بلدیات جام شورو خان نے اپنی گرفتاری کے پیش نظر سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت منظور کروا لی۔ ان کا موقف تھا کہ نیب ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنا کر ہراساں کر رہا ہے۔ ان کا گلستان جوہر کراچی کے62پلاٹس کی نیلامی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق ان پلاٹس کی مارکیٹ قیمت75ہزار روپے فی گز تھی، جو33ہزار روپے فی گز میں نیلام کر دیئے گئے۔ ان پلاٹس کی غیرقانونی نیلامی کے الزام میں کے ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل ناصر عباس پہلے ہی گرفتار ہیں۔ ایک اور کارروائی میں نیب نے سیکرٹری بلدیات کے ذاتی معاون رمضان سولنگی کے گھر سے تین کروڑ روپے کی پاکستانی اور غیرملکی کرنسی برآمد کی۔ اس کے علاوہ اٹھارہ لاکھ روپے کے پرائز بانڈ، سونا اور قیمتی گھڑیاں بھی برآمد کی گئیں۔نیب نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور ریونیو ڈپارٹمنٹ کے افسران کی ملی بھگت سے بحریہ ٹائون کو خلاف ضابطہ اراضی کی الاٹمنٹ کی تحقیقات جاری رکھیں، جن سے ظاہر ہوا کہ 12156 ایکڑ اراضی پر غیرقانونی قبضہ ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ میں مقدمہ بھی زیرسماعت ہے اور عدالت نے بحریہ ٹائون کو خریداروں سے پلاٹس کی رقم وصول کرنے سے روک دیا ہے۔

2018ء میں جہاں گنے کے کاشت کاروں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری رہا، وہاں اساتذہ بھی سال بھر احتجاج کرتے رہے، ان میں این ٹی ایس پاس اساتذہ، سندھ پروفیسر اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن، سندھی لینگویج ٹیچرز، کنٹریکٹ پر بھرتی ہونے والے، برطرف کیے جانے والے اور تنخواہوں سے محرومی کے خلاف آواز اٹھانے والے اساتذہ شامل تھے۔ احتجاج کا یہ سلسلہ2017ء سے جاری تھا، جو2018ء میں بھی جاری رہا۔ اساتذہ کے مطالبات کے حوالے سے پیپلزپارٹی کی حکومت میں تعلیم کا محکمہ سنبھالنے والے وزراء پیر مظہرالحق، نثار کھوڑو اور جام مہتاب دھیر کے الگ الگ اور متضاد موقف سامنے آئے جس سے صوبائی حکومت کی کارکردگی کا پول کھل گیا۔

2018ء کے اختتام پر وزیر تعلیم سیّد سردار علی شاہ کی ہدایت پر امتحان پاس کرنے والے تمام اساتذہ کو مستقل کر دیا گیا، ان میں حیدرآباد ریجن کے2650، کراچی1341، لاڑکانہ کے2327، میرپورخاص کے2052، شہید بے نظیر آباد کے1464اور سکھر ریجن کے1946اساتذہ شامل ہیں۔ مستقل کیے جانے والے تمام کیڈرز این ٹی ایس، پی ایس ٹی، جے ایس ٹی اور ایچ ایس ٹی کے اساتذہ ساڑھے چودہ ہزار سے زائد ہیں۔ اس سے قبل جنوری میں وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پر پچیس سال مکمل کرنے والے گریڈ سات کے تقریباً پندرہ ہزار پرائمری ٹیچرز کو گریڈ سولہ میں ترقی دینے کا نوٹی فکیشن جاری ہوا تھا۔

تعلیم ہی کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت سندھ اسمبلی سے جامعات کے ترمیمی بل کی منظوری تھی، جس کے تحت سندھ کی چوبیس سرکاری جامعات کا کنٹرول وزیراعلیٰ سندھ کو حاصل ہو گیا ہے۔ قبل ازیں یہ ترمیمی بل سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے اعتراض لگا کر اسمبلی سیکرٹریٹ کو واپس بھیج دیا تھا، جسے سندھ اسمبلی سے دوبارہ منظور کیا گیا۔ اس بل کی منظوری پر حزب اختلاف کے ارکان اور جامعات کے اساتذہ کا بھرپور احتجاج دیکھنے میں آیا، اساتذہ تنظیموں نے یوم سیاہ منایا۔ ان کا موقف ہے کہ اس طرح وزیراعلیٰ کو چانسلرز اور وائس چانسلرز کی تقرری سمیت داخلہ پالیسیز اور دیگر اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ سال رخصت ہوتے ہوتے وزیراعلیٰ نے سندھ کی چھے جامعات میں اپنی کابینہ کے ارکان کا بہ طور پرو وائس چانسلر تقرر کر دیا ہے۔ وزیراعلیٰ کے اس اقدام سے ان خدشات کو تقویت ملی ہے کہ سرکاری جامعات کی خودمختاری رفتہ رفتہ ختم ہو جائے گی اور اس علمی اور تحقیقی فضا کا خاتمہ ہو جائے گا، جو معاشرے کو آگے لے جانے کا سبب بنتی ہے۔

کوئی مانے یا نہ مانے سندھ، پاکستان کا واحد صوبہ ہے، جہاں راتوں رات غریبوں کے نصیب بدل گئے ہیں۔ وہ بیٹھے بٹھائے کروڑ پتی ہی نہیں، ارب پتی ہو گئے۔ لیکن یہ بات اور ہے کہ وہ ایک روپیا بھی اپنی ذات پر خرچ نہ کر سکے۔ یہ معاملہ ان جعلی بینک اکائونٹس کا ہے، جو فالودے والے، مرغی فروش، رکشہ ڈرائیور اور دیگر کے ناموں پر تھے اور جن میں اربوں روپے کا لین دین ہوا، ایسے بینک اکائونٹس ملک کے دوسرے شہروں میں بھی پکڑے گئے، کسی کے نام فیکٹری نکلی، تو کوئی درجنوں قیمتی کاروں کا مالک نکلا، لیکن ان خبروں میں سندھ سب سے نمایاں رہا۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ29بینک اکائونٹس کی تحقیقات کی جا چکی ہے۔ ایف آئی اے کی استدعا پر سپریم کورٹ نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنا دی ہے، اس کیس میں آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور ضمانت پر ہیں، جب کہ ان کے قریبی ساتھی حسین لوائی، انور مجید اور ان کے صاحبزادے زیرحراست ہیں۔ یہ اہم کیس ان دنوں سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ جے آئی ٹی کی جانب سے اب تک تین تحقیقاتی رپورٹس سپریم کورٹ میں پیش کی جا چکی ہیں جن کی تفصیلات صیغہ راز میں رکھی گئی ہیں۔ اس کیس کی سماعت کے دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ اومنی گروپ کی جانب سے بطور ضمانت رکھوائی گئی چینی کی66لاکھ بوریاں غائب ہیں یا مارکیٹ میں فروخت کر دی گئی ہیں، اس طرح بینکوں کو تقریباً ساڑھے گیارہ ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔

سال بھر کے دوران منظرعام پر آنے والی کرپشن کی یہ داستانیں جہاں صوبے میں گڈ گورنینس کی نفی کرتی ہیں، وہاں ان سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بحیرہ عرب کے کنارے واقع صوبہ سندھ میں ایک دوسرا سمندر بھی ہے، جو بحیرہ عرب سے زیادہ ٹھاٹھیں مارتا ہے، جس کی موجوں کی بلندی دیکھ کر ہوش اڑ جاتے ہیں۔ یہ سمندر جس کا فی الوقت کوئی نام نہیں، مگر لوگ اسے ’’کرپشن کا سمندر‘‘ کہتے ہیں اور زیرِلب یہ مصرع دہراتے ہیں ؎

ٰہمیں تو اپنوں نے لوٹا، غیروں میں کہاں دَم تھا

تازہ ترین