• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نون لیگ کے قلمی خدمت گارچند نشستوں پر نون لیگ کی فتح کا ابھی تک لفظی جشن منارہے ہیں۔ لفظوں کی آتش بازی جاری ہے ۔ ابلاغ کے ہر ڈھول پر بیانات تھاپ کی طرح بج رہے ہیں۔ شور بپا ہے کہ دیکھا لوگوں نے نون لیگ کو ووٹ دیئے ہیں۔ فتح کے نشے میں بدمست لوگوں کو کون سمجھائے کہ لوگ بیچارے کیا کرتے،انہیں دو میں سے کسی ایک حکومت کا انتخاب کرنا تھا۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک تو وہ حکومت ہے جو ان پر بجلی بند کر سکتی تھی سو اس نے بند کر رکھی ہے، جو ان کے مال یعنی روپے کی قیمت گرا سکتی تھی سو اس نے گرا رکھی ہے، جوکاروں اور بسوں سے گیس اور موٹر سائیکلوں سے پیٹرول چھین سکتی ہے اس نے چھین رکھا ہے،جو ان کی قومی غیرت کو نیلام کر سکتی تھی اور اس نے نیلام کر دی ہے۔
دوسری حکومت وہ ہے جو ان سے روٹی چھینی مگر فاقوں سے بچانے کے لئے سرکاری تندور لگوا دیئے ہیں۔ اپنا ننگ چھپانے کیلئے سارے صوبے کو ننگا کیا مگر اپنے لباس کی کترن ضرور لوگوں میں تقسیم کر دی۔ لوگوں کے سروں سے چھتیں تو اتار لیں مگر پھٹے پرانے شامیانے ضرور لگوا دیئے۔ ”ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی دوسری مالیے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی “ مگر باقی انگلیاں سلامت رہنے دیں ۔ اگرچہ اس کے دور میں دہقان کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے دھجیاں ہوگئی ۔ اس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے ہیں ، اس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے گئے ہیں مگر اس سے سانس لینے کا حق نہیں چھینا گیا۔ ایسی صورتحال میں یقینا اسی دوسری حکومت کا ہی حق بنتا تھا کہ اسے ووٹ دیئے جائیں۔ مہنگائی سے گھبرائے ہوئے عوام خوفزدہ تھے کہ کہیں اہلِ اقتدار ناراض ہو کر سرکاری تندوروں سے ملنے والے چند ناپاک نوالے چھین ہی نہ لیں ۔ وہ بدن ڈھانپنے کیلئے جو اپنے لباس کی کترن گلی کوچوں میں تقسیم کرتی ہے غریب عوام کہیں اس سے ہی محروم نہ ہو جائے۔ وہ جو سر چھپانے کیلئے پھٹے پرانے تمبو فراہم کر دیتی ہے کہیں کھلے آسمان کے حوالے ہی نہ کردے ۔ تھانیدار، تحصیل دار اور پٹوارکے دارکہیں دارورسن والی’ دار‘ نہ بنا دے۔ سو قلمی خدمت گاروں کو فتح کے لفظی جشن مناتے رہنا چاہئے۔
عوام کس کے ساتھ ہیں اِس بات کا فیصلہ اُس وقت ہوگا جب یہ دونوں حکومتیں ختم ہوجائیں گی، اخلاقاً تو انہیں ابھی تک ختم ہوجانا چاہئے تھا مگر نون لیگ مسلسل کوشش میں ہے کہ جب تک اس کے وہ پروجیکٹ مکمل نہیں ہوتے جو اس نے لاہور شہر میں شروع کر رکھے ہیں، اقتدار کی باگیں اس کے ہاتھ میں رہیں۔ میں نون لیگ کے دانشوروں پر حیران ہوں کہ پورے صوبے کے تمام ترقیاتی فنڈ لاہور کے ایسے پروجیکٹ پر خرچ کرا دیئے ہیں جسے خود اہل لاہور حیرت اور پریشانی سے دیکھ رہے ہیں۔ بیس پچیس میل لمبا وہ پل جس نے تمام لاہور شہر کی سڑکیں برباد کر دی ہیں۔ وہ بس ایک روٹ کیلئے بنایا جا رہا ہے اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ لوگ اپنی کاروں اور اپنے موٹرسائیکلوں کو چھوڑ کر اس بس پر سفر کیا کریں گے۔ چلیں یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ کچھ لوگ وہ بسیں استعمال کریں گے مگر سوال پیدا ہوتا ہے ان سے اترنے کے بعد کیا آگے پیدل اپنی منزل تک جایا کریں گے یا رکشے کا کرایہ بھی جیب میں ڈال کر نون لیگ کی بسوں پر سفر کیا کریں گے ۔ نون لیگ کا خیال ہے کہ اس پروجیکٹ کے مکمل ہوجانے پر اہل لاہور انہیں ووٹ دیں گے ۔ یہ بالکل ایسا خیال ہے جیسے جب فرانس کی ملکہ کو کہا گیا کہ لوگوں کے پاس کھانے کو روٹی نہیں تو اس نے سوچا بلکہ کہہ دیاکہ لوگ کیک کیوں نہیں کھا لیتے۔
اب ایک فکر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے دماغوں میں مسلسل واہمہ بنتی جارہی ہے کہ اگر نگران حکومت نے تین ماہ کے اندر الیکشن نہ کرائے توکیا ہوگا خدانخواستہ اگر یہ تین ماہ چھ ماہ میں یا سال میں اس لئے بدل جاتے ہیں کہ پہلے یہ طے کر لیا جائے کہ الیکشن لڑنے کا حق کس کس کو حاصل ہے تو وہ کیا کریں گے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس سب اقتدار میں رہنے والے گھوڑے ہیں جو عوام کا مزاج بدلتا دیکھ کر سرپٹ دوڑ پڑتے ہیں۔ ذرا سی دیر میں یہ سارے گھوڑے عمران خان کے اصطبل میں گھاس چرتے ہوئے دکھائی دینے لگیں گے یا اصطبل کے دروازے پر ہنہنا رہے ہوں گے اور وہ قلمی خدمت گار جن کی نوازشات کی زنجیروں سے بندھے ہوئے ہیں ان کے بارے میں بھی وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان سے زیادہ طوطا چشم مخلوق قدوسِ ذوالجلال نے زمین پر پیدا ہی نہیں کی۔ اس کا تجربہ دونوں حکومتی پارٹیوں کو کئی مرتبہ ہوچکا ہے۔
پھر ایک خطرہ بھی ان کے کانوں میں سائرن کی طرح بجنے لگا ہے کہ یہ جو طاہر القادری ریاست بچانے کیلئے آرہے ہیں وہ کہیں اپنا وزن عمران خان کے پلڑے میں تو نہیں ڈال دیں گے چونکہ نون لیگ کے لیڈروں کے کسی زمانے میں طاہر القادری، مرشد رہے ہیں اس لئے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پچاس لاکھ لوگوں کو اپنے جلسے میں جمع کرلینا ان کے لئے زیادہ مشکل کام نہیں،انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان میں ستر فیصدآبادی جس عقیدے کے لوگوں کی ہے، طاہر القادری اس عقیدے کے سب سے بڑے عالم دین ہیں۔ یہ خوف بھی ہے کہ کہیں جماعت اسلامی مجلس عمل کا حصہ بننے کی بجائے عمران خان کے ساتھ نہ مل جائے پھر جو الطاف حسین ہیں وہ بھی سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے سخت مخالف ہیں،امکان اس بات کا بھی ہے کہ وہ بھی عمران خان کی حمایت کا اعلان کر سکتے ہیں اور سب سے بڑا خدشہ تو یہ ہے کہ کہیں لوگ یہ سوچنے تو نہیں لگ جائیں گے کہ ووٹ کا اصلی حقدار کون ہے۔ یقینا نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی یہ پریشانیاں حقائق کے خاصے قریب ہیں۔
جہاں تک الیکشن کا سوال ہے تو نگران حکومت کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ غیر جانبدارانہ انتخابات تین ماہ میں کرا سکے۔ اسے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جو لوگ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔کیا آئینی طور پر الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں ۔کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ انہی چوروں اور لٹیروں کو الیکشن میں حصہ لینے کیلئے کھلا چھوڑا جا رہا ہے جس کی اجازت آئینِ پاکستان کسی صورت میں بھی نہیں دیتا اور یہ فیصلے یقینا عدلیہ کو کرنے ہوں گے کہ کس کو الیکشن کی اجازت ہے اور کسے نہیں ہے ۔کس نے غلط گوشوارے جمع کرائے ہیں ۔کس کے خلاف کرپشن کے ایسے خوفناک مقدمات ہیں جن کے فیصلوں سے پہلے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ کیا جو امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں ان کا دامن ہر طرح کی کرپشن، جھوٹ اور دھوکہ دہی سے پاک ہے یا نہیں۔کیا ماضی میں انہوں نے کوئی ایسا عمل تو نہیں کیا جو نظریہٴ پاکستان سے متصادم ہو۔کیا انتخابی حلقوں کی تقسیم کے کسی مخصوص امیدوار یا پارٹی کا مفاد سامنے رکھتے ہوئے تو نہیں کی گئی، کیا کسی پارٹی کی سابق حکومت نے اپنی پروجیکشن کیلئے عوامی وسائل کا استعمال تو نہیں کیا۔ سو ایسی صورت میں تین ماہ کے اندر الیکشن مکمل ہوجانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں سوعدالت عظمیٰ نگراں حکومت کا دورانیہ بڑھا بھی سکتی ہے۔
تازہ ترین