• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے خالق و مالکِ حقیقی کے بزرگ وبرتر نام سے، دنیا و آخرت میں بمعہ اپنے اور اپنے اہل وعیال کی عافیت کا طلبگار ہوتے ہوئے نئے سال کو خوش آمدید! جملہ انسانیت، اہل وطن اور قارئین کو مبارک باد، ساتھ ہی ان سب کے لئے بھی سلامتی و خیر کی دعا!

آئیے سب سے پہلے اپنی صدی میں زمینی سیارے کے نارمل اچھے انسان نیلسن منڈیلا کو یاد کریں آپ کی روح سکینت اور بالیدگی محسوس کرے گی۔پاکستان اور عالم اسلام کی بی بی بے نظیر شہید کو بھی نہ بھولیں، انہوں نے مردوں اور مذہبی جنونیوں کی دنیا میں جرات بے مثالی دکھائی۔اس کے ساتھ ہی پاکستان سمیت دنیا بھر کے مظلوموں، بے گناہ مقتولوں، بھوکے ننگوں، بیماروں کے لئے ہمدردی، شفا اور مغفرت کی آرزو کیجئے!اس موقع پر لاہور ہی کے نہیں پاکستان کے ادبی محقق اور شاعر ناصر زیدی کے لئے مکمل صحت یابی کی عرضداشت کو اپنی دعائوں میں شامل کیجئے اور شکریہ ادا کریں بیدار سرمدی جیسے معروف ادبی قلمکار کا جنہوں نے چند روز قبل ناصر زیدی کی خدمات کا تذکرہ کیا، یاد دلایا اور اہل اقتدار و رسوخ کو ان کی جانب توجہ دینے کے فریضہ سے آگاہ کیا۔اپنے اور ناصر زیدی کے مشترکہ دوست عطاءالحق قاسمی کو اس موقع پر قاسمی ہی کے ایک شعری تحاطب میں ناصر زیدی کے لئے لکھے گئے ایک مصرعے کی یاددہانی ’’ناصر ہے پرانا یارجانی‘‘

اور عطاء الحق قاسمی کو یاد کرنا بھی ہمارا سب کا اولین فرض بنتا ہے جس کے ادبی استحقاق و مقام کو حاسدوں، کم ظرفوں اور ذہنی مفلسوں نے داغدار کرنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور ناکام رہے !

لفظ کی تخلیقی سلطنت میں’’عطائی شہ جہانی‘‘کی وراثت بزبان اردو اس کے فرزند ارجمند یاسر پیرزادہ اور بزبان انگریزی علی قاسمی کو ارزاں ہوئی ۔اے اصحاب ادب !جب کسی کے مقدر کا ستارہ جگمگانے کا اعلان طے کرلے اس وقت اپنی روحوں کو جلن اور بدگمانی کے کثیف بخارات سے بچانا چاہئے یہ اسی جہاں میں اپنے لئے جہنم دیکھنے کا سودا ہے !

اور ساتھ ہی مجیب الرحمن شامی اور سہیل وڑائچ جیسے متوازن فکر دانشوروں کے لئے ایک ایک لفظ خراج تحسین و احترام کا ،جنہوں نے الیکٹرونک میڈیا کی نفیس پرستانہ سرخ آندھیو ںمیں توازان، تہذیب اور شائستگی کے چراغ مستقلاً جلا رکھے ہیں۔

پاکستان سمیت ایسے تمام ممالک کے لئے نجات کی صدا بلند کریں :۔

1۔جن کے دریچوں سے درآنے والی بے برکت ہوائوں نے ان ملکوں کی فضائوں کو مسموم کر دیا۔

2۔تمام غلام ملکوں اور ان کے غلام عوام کی آزادی کی امید باندھنے میں دعائیہ انداز سےاستدعاہو کر خاموش مناجات میں مصروف ہو جائیں۔

اب تھوڑی دیر کے لئے آنسو بہائیں اور یاد کریں :

’’ونی‘‘ اور ’’کاروکاری ‘‘ جیسے کاروبار کرنے والے شرمندہ انسانیت کو اور بلوچستان کی ان بے کس و بے بس عورتوں کو جنہیں زندہ دفن کر دیا گیا۔

اس راندہ انسانیت سردار کو جس نے اس واقعہ پر متکبرانہ ہرزہ سرائی سے کام لیا تاکہ قدرت کا جوش غضب میں آئے۔بلوچستان اور دوسرے صوبوں کے ہر نوع کے مسنگ پرسنز،مذہبی جنونیت کے ہلاک شدگان، طالبان کےساتھ جنگ میں شہید ہونے و الے رکھوالوں کی یادوں کے چراغ جلائے رکھنے میں کوتاہی نہ ہونے پائے۔اس موقع پر ایک لفظ مغفرت ہمارے ہم پیشہ قلم مزدور ضیا ساجد مرحوم کے لئے بھی لازم ہے اس کے ان تمام شب روز پر حرف افسوس جن میں اس کی قلم مزدوری کا استحصال کیا گیا۔

1-اگر میں آگے بڑھ سکوں تب میں یہ بھی کہوں گا :

’’آئیے پورا دن خاموش رہ کر سوگ منائیں ان ہزاروں مظلوم فلسطینیوں کے لہو کا، اس غیر ملکی رپورٹر کے لئے دعائے مغفرت جس نے فلسطینیوں کے قتل عام پر احتجاج کے لئے اسرائیلی بلڈوزر کے نیچے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔

2-اور ہمیشہ کی خاموشی اس عراقی بچی کے لئے جسے امریکی فوجیوں نے تاراج کرنے کے بعد زندہ جلا ڈالا۔ایک خاموشی ان ہزاروں لاکھوں ہلاک شدگان افریقیوں ، افغانوں اور دیگر قومیتوں کے افراد کے نام جنہوں نے اپنی قبر یں سمندر سے بھی زیادہ گہرائی میں دیکھیں۔ظلم و شکاوت کی شکار ان باقیات کو جاننے کے لئے ان کا کوئی ڈی این اے ٹیسٹ ہو گا نہ انہیں پہچاننے کے لئے ان کے دانتوں کا کوئی ریکارڈ چیک کیا جائے گا۔

ایک خاموشی پاکستان کے مذہبی جنونیوں کے لئے انہوں نے مسلمانوں کو فرقہ وارانہ اختلافات کے ہاتھوں ایک دوسرے سے قتل کروایا، انہوں نے سوات، وزیرستان اور جہاں کہیں ان کا بس چلا اپنی خودساختہ تعبیروں کے مطابق سوگ کے لئے خون کی فصلیں کاشت کیں ۔اس خاموشی میںمستقبل کے اس نتیجے کو بھی شامل کر لیں کہ پاکستان کی ایسی ساری دینی اور مذہبی جماعتوں کے افکار بالآخر زندگی کے بلیک ہولز میں گم ہو جائیں گے صرف قدرتی قوانین زندگی ہی کو بقا مل سکے گی۔نئے سال کی آمد پر چند اور افکار کے بغیر چارہ نہیں مثلاً ایک لفظ موجودہ جمہوری نظام کے حامیوں کے لئے جنہوں نے عوام کے حقِ ووٹ کی خاطر 70برس سے زائد جدوجہد کی انہیں اس سوال کے جواب کی اذیت کا سامنا رہا کیا ووٹ کا تسلسل انہیں باعزت زندگی کی نعمت دلا سکے گا؟

چلتے چلتے ایک بار پھر پاکستان کے ان تمام سرمایہ دار حکمران خاندانوں کے ان افراد اور کرداروں پرپھٹکار برساتے جائیں جنہوں نے پاکستان اور پاکستانیوں کی قیمت پر کروڑوں کی پر تعیش گاڑیاں خریدیں،ان کے خون پسینے کی کمائیوں پر لاپروائی سے تبریٰ کرتے ہوئے غیر ملکی دورے کئے ، ہیلی کاپٹروں پر سیلابوں اور مہنگائی کے عذابوں کا نظارے کے موافق جائزہ لیکر پاکستانی عوام کی کھلی اور ننگی بے عزتی کے ’’سوئمبر‘‘رچاتے رہے !

اور سیاسی میدان میں بلال بھٹو زرداری کا وجود ایک تاریخی ساعت رہے گی بلاول کے نظریاتی افکار کی جھلکیوں پر خاندان شہید اس کے نواسے کے لئے ایک خاموش دعائیہ مراقبہ!

اور یہ کہ قائد اعظم کا جو پاکستان ہوتا اس میں مذہب سوفیصد ذاتی معاملہ رہتا پاکستانی مسلمان اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ ساتھ زندگی کی تمام رنگینیوں سے بھی بھرپور ہوتے ۔

اور آخر میں نئے سال پر خوشیوں کے لئے دست بہ دعارہتے ہوئے واویلا گروں سے آزادی کی دعا جن کی زبانیں اخلاقیات کا قبرستان ہیں!

تازہ ترین