• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مِرے عیسیٰ دَم، مِرے بے پروا، نہ علاج سے میرے ہاتھ اٹھا…

صحت، اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور ہرشخص کابنیادی، فطری حق ہے، جب کہ اس ضمن میں سب زیادہ ذمّے داری ریاست اور حکومتی ارکان پرعائد ہوتی ہے، کیوں کہ وہ اپنے انتخاب کے وقت عوام کی صحت وسلامتی اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی کا حلف اٹھاتے ہیں۔ پاکستان میں شعبۂ صحت پہلے وفاق کے زیرِانتظام تھا، تاہم اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ ذمّے داری صوبوں کو تفویض کرنے کے بعد سے ملک میں صحت کے حوالے سے مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔گزشتہ سال کے تناظر میں دیکھا جائے، تو 2018ء میں بھی کوئی خاطر خواہ تبدیلی نظرنہیں آئی۔ مسلم لیگ (نون) کی حکومت نے دعوے تو بہت کیے، مگر عملاً کچھ نہیں ہوا اور پھر2018ء چوں کہ انتخابات کا سال تھا، لہٰذا چاروں صوبوں کے وزرائے صحت بھی اپنے انتخابی حلقوں میں مصروفیات کے باعث کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھاسکے۔ تاہم، اس سال کی اہم بات یہ رہی کہ چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس میاں ثاقب نثار نے صحت کے شعبے کے مسائل حل کرنے میں خصوصی دل چسپی لی۔ انہوں نے ملک بھر کے کئی نجی و سرکاری اسپتالوں کے اچانک دورے کیے، جن میں لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ سمیت دیگر شہر بھی شامل ہیں۔ اپنے دورے کے دوران انہوں نے موقعے ہی پر فوری کارروائی کے کئی احکامات بھی جاری کیے۔ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کے دورے کے موقعے پر انہوں نے انسٹی ٹیوٹ کے بورڈ آف گورنرز تحلیل کرکے پروفیسر ڈاکٹر جواد ساجد خان، سابق نگراں وزیرِ صحت کو اس کا انتظام سنبھالنے کا حکم دے دیا۔ بعدازاں، تحقیقات کے بعد اس سال ملک میں شعبۂ صحت کا سب سے بڑا اسکینڈل ’’پی کے ایل آئی اسکینڈل ‘‘ہی کی صورت سامنے آیا۔ مذکورہ منصوبے پر 34ارب روپےخرچ کیے گئے، مگر نتیجہ صفر رہا۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس، ’’پی کے ایل آئی کے کیس‘‘ کی سماعت خودکررہےہیں اور تا حال یہ کیس عدالت میں ہے۔ اس حوالے سے جب سپریم کورٹ میں بیس ہزار صفحات پر مشتمل بے ضابطگیوں کی رپورٹ پیش کی گئی،تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے نیب کو حکم دیا کہ ذمّے داران کو ملک سے باہر نہ جانے دیا جائے۔ واضح رہے کہ اس ادارے میں ڈاکٹرز کو دی جانے والی تن خواہیں، پاکستان کے تمام سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز سے کہیں زیادہ ہیں۔ اسی طرح چیف جسٹس نے پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کا بورڈ آف گورنرز بھی تحلیل کر دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ بورڈ کا صرف ایک ہی اجلاس ہوسکاتھا اور اس دوران اس کے خلاف متعدد شکایات موصول ہونے پر عدالتِ عظمیٰ نے اسے تحلیل کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ چیف جسٹس نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل ہیلتھ کو اپ گریڈ کرنے کے لیے کمیٹی بھی بنائی، مگر اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آسکے اور نہ ہی اسپتال اپ گریڈ ہوسکا۔ چیف جسٹس نے کئی پرائیویٹ اسپتالوں میں بھی چھاپے مارے، خصوصاً لاہور کے ایک بڑے اسپتال کے مہنگے علاج پر شدید اعتراض کیا اور اس کے مالکان کی سخت سرزنش کی۔

دوسری جانب گزشتہ برس لاہور اور کراچی میں مختلف افراد سوائن فلو میں مبتلا ہوئے۔ لاہور کے لگ بھگ34اسپتالوں میں سوائن فلو کے مریض داخل ہوئے، جن میںسے متعددجاں بر نہ ہوسکے، جب کہ کئی ڈاکٹرز بھی مرض کا شکار ہوگئے۔ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے پورےسال اتائی ڈاکٹرز کے خلاف مہم جاری رکھی۔ ہزاروں جعلی ڈاکٹرز کے خلاف کارروائی کی اور ان پر جرمانے عاید کیے۔ اسی طرح پنجاب میں متعدد سرکاری اور نجی اسپتالوں کے آپریشن تھیٹرز ناقص کارکردگی پر بند کردیئے گئے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ناقص دودھ کےخلاف ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران بھینسوں کو لگائے جانے والے ٹیکے فوری طور پر ضبط کرنے کا حکم دیا اورڈبّے کا دودھ بنانے والی کمپنیوں سے پچاس ہزار روپے معاوضہ لے کر دودھ کے لیبارٹری ٹیسٹ کا بھی حکم دیا۔ چینی نمک، اجینو موتو پر پابندی عاید کی گئی، کیوں کہ تحقیق کے مطابق، یہ نمک انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ سندھ میں انفلوئنزا کازور رہا۔ اس حوالے سے عالمی ادارئہ صحت اور یونی سیف سے 80ہزار ویکسینز منگوائی گئیں۔ کراچی میں سگ گزیدگی کے متعدد واقعات رونما ہوئے اور یومیہ متعدد مریض اسپتال لائے جاتے رہے۔ سپریم کورٹ نے 24منرل واٹر کمپنیوں کے پانی کی فروخت پر پابندی عاید کردی، جب کہ وزارتِ قومی صحت اور وفاقی کابینہ نے دل، اینٹی کینسر اور جان بچانے والی ادویہ درآمد کرنے کے لیے دو سال تک کے لیے ایس او او جاری کیا۔نیز،لاہور کے تمام بڑے سرکاری اسپتالوں کی لیبارٹریز کی نیلامی کا شیڈول بھی تیار کیا گیا۔ حافظ آباد میں سرنج کے ذریعے خواتین کی ریڑھ کی ہڈی سے بون میرو نکالنے والا گروہ پکڑا گیا۔ جس نے 90کے قریب لڑکیوں کے جسم سے گودا نکالا۔ ان لڑکیوں کو جہیز اور امداد کا لالچ دے کر یہ گھنائونا فعل انجام دیا گیا۔ پنجاب بھر میں تحفظِ صحت کیمپس قائم کیے گئے۔ جہاں 8لاکھ افراد کی اسکریننگ کی گئی۔ جن میں ہیپاٹائٹس بی، سی، ایڈز اور شوگر کے مفت ٹیسٹ شامل تھے۔ نواب شاہ میں خسرے کا حفاظتی ٹیکا موت کا پیام بر بن گیا، جس کے نتیجے میں تین بچّے ہلاک ہوئے، جب کہ دس بچّوں کی حالت غیر ہوگئی۔ اس کیس میں ایک لیڈی ہیلتھ ورکر، اس کی بہن اور چچی کو گرفتار کیا گیا۔نیز، حسبِ روایت خسرے اور خنّاق کی ادویہ نایاب رہیں۔ گزشتہ برس اعضاء کی غیر قانونی پیوند کاری روکنے کے لیے قانون میں کچھ ترامیم بھی منظور کی گئیں۔ ڈرگ ایکٹ کے خلاف ادویہ ساز تنظیموں نے شٹر ڈائون ہڑتال کی، جب کہ ڈرگ کورٹ نے فیصلہ دیا کہ حکیم اور ہومیو پیتھک ڈاکٹرز انگریزی ادویہ کے حوالے سے ہدایات جاری نہیں کرسکیں گے۔ ملک میں پولیو سے بچائو کے لیے جاپان حکومت نےلیبارٹری میں استعمال ہونے والے سائنسی و تحقیقی آلات کی خریداری کے لیے 30لاکھ 20ہزار امریکی ڈالرز کی امداد فراہم کی۔ پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کورٹس کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے) نے متعلقہ کمپنیوں کے پاس لائسنس نہ ہونے پر پانی کے 41پلانٹ اور 3فوڈ فیکٹریز بند کردیں۔ دریں اثناء، صوبہ پنجاب میں 44سرکاری ٹیچنگ اسپتالوں کی ایمرجینسی کو اَپ گریڈ کرنے کا فیصلہ کیا گیا،تو محکمہ اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر نے حکومت سے 4ارب روپے مختص کرنے کی درخواست کی۔ توقع ہے کہ مذکورہ منصوبہ 2019-20ء کے مالی سال میں مکمل ہوجائے گا۔

سپریم کورٹ ہی کے حکم پر جعلی ادویہ بنانے والی ایک کمپنی کے مالک کو گرفتار کرلیا گیا۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ناقص مٹھائی بنانے والے 60یونٹ سیل کر دیئے۔ پنجاب کے 44اسپتالوں کو وینٹی لیٹرز فراہم کیے گئے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کراچی کے معروف اسپتال، ایس آئی یو ٹی (SIUT)کو بعداز مرگ اپنے اعضا عطیہ کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے ملک کے معروف ماہرِ امراضِ گردہ، پروفیسر ڈاکٹر ادیب رضوی سے کراچی میں ملاقات کی اور اسپتال کا دورہ بھی کیا۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے گردوں کی غیرقانونی پیوندکاری روکنے کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی اور اس ضمن میں ڈاکٹر ادیب رضوی سے سفارشات تیار کروائی گئیں۔ کراچی کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے سپریم کورٹ نے ایکشن لیا، لیکن تا حال شہریوں کو صاف پانی میسّر نہیں آسکا۔ مسلم لیگ (نون) کی حکومت اور پنجاب کے سابق وزیرِاعلیٰ، شہباز شریف اپنے پورے دورِ حکومت میں دعوے کرتے رہے کہ اسپتالوں کا کلچر تبدیل کردیا گیا ہے،اب ایمرجینسی میں ہر دوا ملے گی، لیکن عملاً ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مریضوں کو آج بھی ایمرجینسی میں ادویہ بازارسے لانی پڑتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے تمام ’’فارمولا مِلک‘‘ بنانے والی کمپنیز کو ہدایت کی کہ وہ اپنے دودھ کے ڈبّے پر واضح طور پر لکھیں کہ ’’یہ دودھ نہیں اور یہ کہ چھے ماہ سے بڑے بچّوں کے لیے ہے۔‘‘ 2018ء میں حکومت نے تمام سرکاری اسپتالوں میں سی ٹی اسکین مشینیں نصب کروائیں۔ پنجاب میں لیڈی ہیلتھ ورکرز نے اپنے مطالبات کے حق میں پانچ روز تک ہڑتال کی۔ اس ضمن میں ایک دل چسپ بات یہ ہوئی کہ لیڈی ہیتھ ورکرز کے ساتھ ویٹرنری ڈاکٹرز اور یو سی سیکریٹریز نے بھی اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے دھرنا دیا۔ تاہم، ان سے ہونے والے مذاکرات کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔دوسری جانب کئی ریٹائرڈ ڈاکٹرزاور پروفیسرز کو محکمۂ صحت کے مختلف یونٹس میں تعینات کردیا گیا۔ گزشتہ سال سپریم کورٹ نے شعبۂ صحت میں خطیر تن خواہیں لینے والے ڈاکٹرز کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا اور نیب کو اس سلسلے میں انکوائری کی ہدایات جاری کیں۔ لاہور میں جعلی مشروبات بنانے والی تین فیکٹریز کو سیل کردیا گیا اور تیس ہزار سے زائد غیر معیاری بوتلیں تلف کی گئیں۔ وفاقی وزیرِ تعلیم، شفقت محمود نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ پنجاب حکومت نے ادویہ کی خریداری میں اربوں روپے کا گھپلا کیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان، میاں ثاقب نثار نے ازخود نوٹس کیس میں چاروں صوبوں کی حکومتوں کو ہدایت جاری کی کہ وہ تمام اسپتالوں میں ضروری ادویہ فوری فراہم کریں۔ انہوں نے ڈاکٹرز کو یہ ہدایت بھی کی کہ دل، بلڈ پریشر اور شوگر کے حوالے سے بہ ذریعہ اخبارات، آگہی مہم شروع کی جائے۔ مزید برآں، تمام اسپتالوں کو حکم جاری کیا کہ اسٹنٹ ڈالنےاور ڈائیلیسزکرنے کے اخراجات کم کیے جائیں۔ اس سلسلے میں لاہور میں ایک انٹرنیشنل کنونشن بھی ہوا، جس میں برطانیہ اور آسٹریلیا سے ڈاکٹرز کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق، ’’ اورنج ٹرین منصوبے پر حکومت نے جو ایک سو باسٹھ ارب روپے خرچ کیے، ان سے کم از کم اکتالیس اسپتال بنائے جاسکتے تھے‘‘۔جب کہ پنجاب کے آئی جی، جیل خانہ جات نےہدایت جاری کی کہ’’ہیپاٹائٹس سی اور ایڈز کی روک تھام اور صاف پانی کی فراہمی کو ممکن بنانے پر جو سپرنٹنڈنٹ جیل عمل نہیں کرے گا، اس کے خلاف باضابطہ کارروائی ہوگی۔‘‘

اسلام آباد میں پولن الرجی کی وجہ سے تین دنوں میں چھے ہزار افراد مختلف اسپتالوں میں داخل ہوئے۔ میلسی میں ایک غلط آپریشن کے نتیجے میں ماں، بیٹا ہمیشہ کے لیے معذور ہوگئے۔پورے پنجاب میں مضرِصحت ’’فروزن ڈیزرٹ‘‘ کو آئس کریم کہہ کر فروخت کرنے پرپابندی عایدکردی گئی۔ نیز، چیف جسٹس نے پنجاب کی سابق حکومت کی کارکردگی کو بدترین قرار دیتے ہوئے سابق وزیرِ صحت خواجہ سلمان رفیق کی سخت سرزنش کی اور لاہور کے چار میڈیکل اداروں کے سربراہوں کوتبدیل کردیا گیا۔ بلوچستان میں صحت کی ابتر صورتِ حال پر اُس وقت کے وزیراعلیٰ کو طلب کیاگیا، جب کہ محکمۂ صحت کی جانب سے خریدی گئی ادویہ کو بھی غیر معیاری قرار دیا گیا۔ چیف جسٹس نے خیبرپختون خوا میں جا بہ جا گندگی کے ڈھیروں پر سخت افسوس کا اظہار کیا۔علاوہ ازیں، الائیڈ اسپتال فیصل آباد میں کئی سو نومولود بچّوں کی خرید و فروخت کا انکشاف ہوا۔جس میں ایم ایس اور تین معروف گائنا کالوجسٹ بھی ملوث ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ دو سے تین لاکھ روپے میں فی بچّہ فروخت کیا جاتا تھا اور یہ گھنائوناعمل تیس برس سے جاری تھا۔

2018ء میں جو چند قابلِ ذکر اقدامات سامنے آئے، اُن میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز کا افتتاح بھی شامل ہے۔ یہ پاکستان میں دماغ کے آپریشنز کی جدید علاج گاہ ہے، یہ شعبہ چوبیس گھنٹے کام کرے گا، اس میں آپریشن تھیٹرز کے علاوہ ایک سو اٹھائیس سلائس سی ٹی اسکین مشینیں نصب کی گئی ہیں۔ نیز،میو اسپتال کے سرجیکل ٹاور کابھی افتتاح کیا، جو پچھلے دس سال سے تاخیر کا شکار تھا۔ حکومت نے اسپتالوں میں نومولود بچّوں کے اغوا کی روک تھام کے لیے ریڈیو فریکوئنسی ٹیگ سسٹم متعارف کروایا۔ اب جوں ہی کسی بچّے کو اغوا کرکے اسپتال سے باہر لے جانے کی کوشش کی جائے گی، فوری الرٹ سسٹم ایکٹیو ہو جائے گا۔ جناح اسپتال، لاہور میں آنکالوجی آئوٹ ڈور عمارت کا افتتاح ہوا۔ ڈی ایچ کیو اور ٹی ایچ کیو اسپتالوں میں ڈینٹل سرجنز کی ٹرانسفر پوسٹنگ پالیسی تبدیل کی گئی اور سرکاری اسپتالوں کا ڈیٹا باہم منسلک کردیاگیا۔ ہیلتھ کارڈ کے اجرا،انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ کی بحالی اور اسکولوں میں صحت کا پائلٹ پروگرام شروع کرنے کی منظوری بھی دی گئی۔نیز،لاہور کے ایک پروفیسر ڈاکٹر خالد وحید نے’’RETINA‘‘ (پردئہ بصارت) کا ایک انتہائی پیچیدہ آپریشن کرکے آنکھ کا پردہ بنایا۔ یہ ایشیاء میں اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن تھا۔ اسی طرح لاہور جنرل اسپتال میں مریض کو بغیر بے ہوش کیے، دماغ کی رسولی نکالنے کا آپریشن ڈاکٹر خالد محمود نے کیا۔ اسی سال 14غیر ملکی سرجنز پاکستان آئے اور انہوں نے لاہور چلڈرن اسپتال میں دل کے متعدد آپریشنز کیے۔ اس میڈیکل مشن میں کارڈیک سرجن، کارڈیک فزیشن، اینستھیزیا کے ڈاکٹرز اور نرسز وغیرہ شامل تھیں۔ روس کے چیف فزیشن ڈاکٹر البرٹ صوفیہ نوف نے پاکستان نیورو سرجنز کو دماغ کی سرجری کا بہترین ڈاکٹر قرار دیا۔بعدازاں، پی ٹی آئی حکومت نے برسرِ اقتدار آکر پرائمری اور سیکنڈری ہیلتھ کیئر کو یک جا کرنے کا فیصلہ کیا۔

تازہ ترین