• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے سیاسی تھیٹر میں اُکتائے ہوئے تماشائیوں کی حالتِ زار دیکھتا ہوں تو مجھے غیر روایت پسند تحریک کے دوران لکھا گیا 20ویں صدی کا مقبول ترین ڈرامہ ’’ویٹنگ فار گڈوٹ (Waiting for Godot) یاد آتا ہے اور دل سے اِک ہوک سی اٹھتی ہے کہ کاش ’’گڈوٹ‘‘ کبھی نہ آتا۔ اس کا انتظار کرتے بیشک ہماری آنکھیں پتھرا جاتیں مگر کم ازکم امیدوں کے چراغ تو روشن رہتے۔ سیموئل بیکٹ زندہ ہوتا تو یقیناً پکار اٹھتا، گڈوٹ آنہیں رہا، گڈوٹ آچکا ہے مگر پھر اس کے بعد کیا ہوتا؟ فرانسیسی زبان میں لکھے گئے اس ڈرامے کا ترجمہ کئی زبانوں میں کیا جا چکا ہے اور شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں یہ ڈرامہ پیش نہ کیا جاتا ہو۔ یوں تو اس ڈرامے کے پانچ کردار ہیں مگر مرکزِ نگاہ محض دو لوگ ہی ہیں، جن میں سے ایک ولادی میر ہے جبکہ دوسرے کا نام ایسٹروجن ہے۔ یہ ڈرامہ دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے پاکستان کے سیاسی حالات کی عکاسی کی گئی ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں لوگوں کی یادداشت بہت کمزور ہے، بہت جلدی بھول جانے کی وبا عام ہے، تاریخ مسلسل دہرائے جانے سے گاہے یوں لگتا ہے جیسے ہم بحیثیت قوم دائروں کے سفر پر گامزن ہیں اور چند برس بعد پھر سے لوٹ کر وہاں آ جاتے ہیں جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا، اسی طرح سیموئل بیکٹ کے اس ڈرامے میں بھی تکرار بہت ہے۔ ایک ہی بات اتنی مرتبہ دہرائی جاتی ہے کہ بوریت محسوس ہونے لگتی ہے۔ ولادی میر اور ایسٹروجن ایسے باکمال کردار ہیں کہ کچھ دیر بعد یو ٹرن لیکر اپنی پوزیشن اور موقف بدل لیتے ہیں جس سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان دونوں میں ایک دوسرے کی روح حلول کر گئی ہے۔ ان دونوں کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے، گڈوٹ کا انتظار کرنا۔ انہیں یہ معلوم نہیں کہ گڈوٹ کون ہے؟ لیکن پھر بھی اس کا انتظار کرتے ہیں اور جیتے جی مرتے ہیں۔ اس بے مقصد انتظار کی کوفت سے فرار پانے کے لئے وہ کئی جتن کرتے ہیں، بائبل کا قصہ چھیڑتے ہیں، لایعنی موضوعات پر بے معنی بحث کرتے رہتے ہیں۔ ایک لڑکا آتا ہے جو بتاتا ہے کہ اسے مسٹر گڈوٹ نے بھیجا ہے، وہ شاید آج تو نہ آ سکیں مگر وہ کل ضرور تشریف لائیں گے۔ ڈرامے کے دوسرے حصے میں اگلے دن کا آغاز ہوتا ہے تو وہ گزشتہ روز کی سب باتیں بھول چکے ہوتے ہیں مگر یہ بات یاد رہتی ہے کہ انہیں گڈوٹ کا انتظار ہے۔ اسی اثناء میں وہ لڑکا دوبارہ آتا ہے تو اسے بھی گزشتہ روز کی ملاقات یاد نہیں ہوتی اور وہ کہتا ہے کہ ان دونوں سے وہ پہلی بار ملا ہے، تاہم یہ لڑکا خود کو گڈوٹ کے پیغام رساں کے طور پر ہی متعارف کرواتا ہے اور کہتا ہے کہ مسٹر گڈوٹ آج بھی نہیں آ سکیں گے لیکن وہ کل ضرور تشریف لائیں گے۔ ولادی میر اور ایسٹروجن تنگ آکر ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگتے ہیں اور پھر فیصلہ کرتے ہیں کہ خودکشی کر لیں۔ وہ دونوں جس درخت کے نیچے بیٹھ کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں اسی سے لٹک جانے کا سوچتے ہیں۔ ایسٹروجن اپنی بیلٹ نکالتا ہے اور اسے پھندہ بنا کر لٹکنے کی کوشش کرتا ہے۔ بیلٹ ٹوٹ جانے کے باعث خودکشی کی کوشش تو کامیاب نہیں ہوتی۔ اب وہ درخت سے لٹکنے کا فیصلہ تب تک ملتوی کر دیتے ہیں جب تک ان کا مسیحا گڈوٹ آ نہیں جاتا۔ ڈرامہ ختم ہو جاتا ہے لیکن شائقین کا انتظار ختم نہیں ہوتا اور گڈوٹ کبھی نہیں آتا۔


اس ڈرامے کے کردار جس مسیحا کا انتظار کرتے رہ جاتے ہیں وہ گڈوٹ آخر ہے کون؟ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ سیموئل بیکٹ نے فرانس میں مستعمل بازاری اصطلاح ’’بوٹ‘‘ مستعار لیکر ’’گڈوٹ‘‘ کا کردار تخلیق کیا۔ بیشتر ناقدین اس سے گاڈ یعنی خدا مُراد لیتے ہیں مگر سیموئل بیکٹ ان میں سے کسی تصور کی تائید نہیں کرتے۔ جب مصنف سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو اس نے کہا کہ اگر اسے معلوم ہوتا کہ گڈوٹ کون ہے تو وہ اسے اسٹیج پر نہ لے آتا؟ بہرحال اس حد تک سب متفق ہیں کہ گڈوٹ کوئی مسیحا یا نجات دہندہ ہے جس کا انتظار کیا جاتا ہے اور وہ نہیں آتا۔ ہم پاکستانی بھی برسہا برس سے کسی مسیحا یا نجات دہندہ کی تلاش میں تھے جو آئے اور ہمیں ترقی و خوشحالی کی طرف لے جائے۔ یہی وجہ ہے کہ حالات سے اُکتائے اور تنگ آئے ہوئے لوگوں کی تان اس جملے پر ٹوٹتی کہ اب تو کوئی خمینی جیسا حکمران ہی اس ملک کے حالات ٹھیک کر سکتا ہے۔ طویل عرصے سے انتظار کی صلیب پر لٹکے پاکستانیوں کو عمران خان کی شکل میں متبادل قیادت میسر آئی تو وہ اسے ہی اپنا ’’گڈوٹ‘‘ سمجھ بیٹھے۔ چند برس پہلے تک میرا خیال تھا کہ ولادی میر اور ایسٹروجن بہت بدقسمت ہیں جن کے خواب عذاب ہو گئے اور آنکھیں گڈوٹ کو نہیں دیکھ پائیں مگر اب نئے پاکستان میں عمران خان کے چاہنے والوں کی کیفیت دیکھ کو محسوس ہوتا ہے کہ نہ آنے کے دُکھ سے کہیں زیادہ تکلیف دہ پا لینے کا کرب ہے۔


معیشت کی کشتی بے یقینی کی لہروں میں ہچکولے کھا رہی ہے، گزشتہ چار ماہ کے دوران اس کشتی کے پیندے میں جانے انجانے ایسے سوراخ کر دیئے گئے ہیں جن کے باعث توازن بگڑ رہا ہے، بیچ منجدھار میں لا پھنسانے والا ناخدا محض یہ تسلی دینے پر اکتفا کئے ہوئے ہے کہ پاکستانیو! گھبرانا نہیں جبکہ اس کے ہم نوا چپو چلانے کے بجائے زبانیں ہلا رہے ہیں اور گلا پھاڑ کر مسلسل یہ کہہ رہے ہیں، کسی مگرمچھ کو نہیں چھوڑیں گے۔ حالانکہ ان کا زور تو محض مچھلیوں پر چل سکتا ہے خواہ وہ چھوٹی ہوں یا بڑی۔ معاشی جمود کی چٹانیں تو خطرے کا باعث تھیں ہی مگر اب لوڈ شیڈنگ کی ژالہ باری نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ گزشتہ گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی تو اب شدید سردیوں میں جب بجلی کی کھپت آدھی سے بھی کم رہ جاتی ہے، لوڈ شیڈنگ واپس لانے کے لئے یقیناً بہت سخت محنت کی گئی ہو گی۔


آپ عمران خان کی محبت میں سرشار ہیں یا اس سے انتہائی بیزار، آپ ولادی میر اور ایسٹروجن کی طرح اس کا بہت بیتابی سے انتظار کر رہے تھے یا پھر آپ کو اس کی آمد سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں تھی، ہر دونوں صورتوں میں آپ کو ایک بات تو ماننا پڑے گی کہ عمران خان ہمارے ہاں بیشتر لوگوں کی آخری اُمید تھے۔ بیچاروں نے کبھی گڈوٹ دیکھا نہ تھا اس لئے بیتابی اور شتابی میں ان سے بہت بڑی بھول ہو گئی۔ سیموئل بیکٹ کا کردار ایسٹروجن تو گڈوٹ کے نہ آنے پر درخت سے لٹکنے لگتا ہے تو خودکشی کی کوشش کامیاب نہیں ہوتی مگر ہمارے سیاسی تھیڑ کے زندہ کرداروں کو گڈوٹ کی آمد کے باعث ایسی ناگفتہ بہ صورتحال کا سامنا ہے۔ کل تک تو بیقراری کے عالم میں کہتے تھے، اے سوارِ اشہب دوراں (زمانے کے گھوڑے کا سوار) بیا۔ مگر اب جب خوابوں کی کرچیاں آنکھوں میں چبھتی محسوس ہوتی ہیں تو دل سے اِک ہوک سی اٹھتی ہے، کاش یہ بھید کبھی نہ کھلتا، مسیحا کی پہیلی میں چھپا عقدہ وا نہ ہوتا۔ کاش ’’گڈوٹ‘‘ کبھی نہ آتا، کم از کم بھرم تو رہ جاتا۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین