• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرزا شاہد برلاس

جرمنی سے تعلق رکھنے والے وولف گانگ شوانگغارٹ جب نیپا ل گئے تویہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بہت سے آبی بجلی گھروں کے ڈیم ہمالیہ کی پہاڑی ڈھلوانوں پر تعمیر کیے گئے ہیں ،جس پر جرمنی میں قائم یونیورسٹی آف پوسٹڈیم میں کام کرنے والے جیو لوجسٹ کا کہنا ہے کہ یہ کچھ غیر مستحکم نظر آتے ہیں ۔یہ اپریل 2015 ء کی بات ہے ،اسی ماہ کے آخر میں 7.8 شدت کا تباہ کن زلزلہ بھی آیا تھا ،جس کی زد میں تقریبا ً9000 افراد ہلاک ہوئے تھے ۔وولف گانگ نے ایسے 31 بجلی گھروں کا معائنہ بھی کیا تھاجن کو نقصان پہنچاتھا ۔بعدازاں ماہرین اور ان کے ساتھیوںنے انکشاف کیا کہ ان منصوبوں کو زمین کی حرکت یا جھٹکے کھانے کی وجہ سے نقصان نہیں پہنچا تھا جیسا کہ زیادہ تر لوگوں نے اندازہ لگایا تھا بلکہ آبی بجلی گھروں کو یہ نقصان زلزلے کے بعد زمین کے تودے سرکنے نے کی وجہ سے ہوا تھا۔

ماہرین نے نقصان زدہ آبی بجلی گھروں کی رپورٹوں سے جو نتائج حاصل کیے ۔ان کی مطابق دریائی کناروں کی ڈھلوانوں کے زاویوں کی زیادتی ان جگہوں پر نقصان کے اضافے کی اہم وجہ تھی ۔جہاں 2015 ء کے زلزلےسے زمین کی حرکت یا ارتعاش زیادہ نہیں ہوا تھا ۔بعدازاں ماہرین نے ایک ایسا ماڈل تیار کیا ،جس میں ہمالیہ میں دریائی ڈھلوانوں کے زاویوں کی زیادتی کے ساتھ ہی اس زلزلہ میں زمین کے مختلف مقامات پر ارتعاش کی شدت کی پیمائش بھی ایک نقشے پر مار ک کردی گئی تھی۔ماہرین نے یہ اندازہ لگا یا تھا کہ جہاں دریائی ڈھلواں زیادہ تھی وہاں زمین کی حرکت بھی زیادہ تھی ،ان مقامات پر واقع آبی بجلی گھر کو زیادہ نقصان ہوا تھا لیکن نتائج سے یہ خیال غلط ثابت ہوا کہ آبی بجلی گھروں کو پہنچنے والی نقصان کا سبب زلزلہ تھا ۔نقصان زدہ بجلی گھروں سے ملک کو 200 ملین ڈالر کا نقصان ہو ا جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ سب کے سب زلزلے کے انجینئرنگ کوڈ کے مطابق ڈیزائن کیے گیے تھے جنہوں نے زلزلے کو بہ خوبی برداشت کر لیا تھا لیکن زمین کے تودوں کے کباڑ سے ملیا میٹ ہوگئے تھے ۔

سائنس دانوں نے اس ماڈل کو 372 ایسے آبی بجلی گھروں کا جائزہ لینے میں آزمایا جو نیپال،بھوٹان اور ہندوستان کے ہمالیائی علاقے میں یا توآج کل کام کر رہے ہیںیا زیر تعمیر ہیںیا وہ جوپلاننگ کے اسٹیج پر ہیں اور جن کا ڈیٹا ان کے پاس موجود ہے، جس کے نتائج کے مطابق ان میں سے ایک چوتھائی کو زلزلے سے پیدا ہونے والے ارتعاش کی زمینی حرکت سے قابل ذکر نقصان کا احتمال ہے۔ یعنی ہمالیہ کے دریائوں پر تعمیر ہونے والے 10 فی صدسے زیادہ آبی بجلی گھروں کو آنے والےوقت میںاس نقصان کا سامنا کرنا ہوگا۔

تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ آبی بجلی گھروں کی تعمیرکن مقامات پر ہو سکتی ہے۔ اس کا فیصلہ کرتے وقت اس امکان کواب شاذ ہی اہمیت دی جاتی ہے۔ چناں چہ2004 سے 2011 کے درمیان عالمی طور پر زمین سرکنے سے تقریباً49,000 ہلاکتیں ہوئی تھی۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمی پیمانے پر تقریباً60 فی صدزمین سرکنے کے واقعات کا سبب زلزلےتھے۔انگلینڈ کی شیفیلڈ یونیورسٹی کے ایک جیو لو جسٹ ڈیو پیٹلےکے مطابق ایک نئی مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک سادہ طر یقے سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کسی آبی بجلی گھر کے منصوبےکوزمین سرکنے سے کسی نقصان کا احتمال ہے یا نہیں ؟اور کیا یہ طر یقہ کار آمد ہے ؟ ہیگ میں قائم پی بی ایل نیدر لینڈ اینوائر یمینٹل اسیس مینٹ ایجنسی کے کمپیوٹر ماڈلر ڈیوڈ کا کہنا ہےکہ ’’ماڈل استعمال کرکے درست طر یقے پر آبی بجلی گھروں کے مجوزہ مقامات پر نقصانات کے خطرات معلوم کیے جاسکتے ہیں ‘‘۔

گذشتہ سال گرنیٹ اور ان کی ٹیم نے رپورٹ تیار کی تھی ،جس کے مطابق ایشیاء اور بحر الکاہل کے خطے میں ضرورت کی 40 فی صد کم قیمت بجلی آبی گھر وں سے مہیا کی جاسکتی ہے ۔جن کو نقصان پہنچنے کے خطرات میں صرف زلزلوں کی نشان دہی کی گئی تھی اور ان میںزمین سر کنے کے واقعات کو شامل نہیں کیا گیا تھا ۔

پیٹلے کا کہنا ہےبہت سی ایسی مثالیں ہیںجہاں بنیادی ذرائع (infrastructure) کی قیمت منصوبہ کی تخمینہ کردہ لاگت سے اس لیےبہت زیادہ ہوجاتی ہے کہ اس میں نہ توپہلے سے زمین سرکنے کے خطرات کا سامنا کرنے کے انتظامات کئے گئے تھے اور نہ ہی ان کو تخمینے میں شامل کیا گیا تھا۔

زمین سرکنے کے احتمال کا خطرہ سائنسدانوںکو اس معاملے پر سوچنے پر مجبور کر رہا ہے جب کہ جنوبی امریکا اور ایشیا ء کے بلند وبالا پہاڑ وں میںآبی بجلی گھروں کی تعمیرات پربہت زور دیا جارہاہے، تاکہ کم قیمت اور ماحول دوست بجلی مہیا کی جاسکے۔ماہرین کو خدشہ ہے کہ 1963 ء میں اٹلی میں ہونے والی واجونٹ ڈیم کی تباہی کی طر ح کا واقعہ دوبارہ رونما نہ ہوجائے۔اُس وقت زمین سرکنے کی وجہ سے 20 ملین کیوبک فیٹ کے آبی ذخیرے نےبے قابو ہو کر سونامی پیدا کر دی تھی جو 20,000 اولمپک سائز کے سوئمنگ پول بھرنے کے لیے کافی تھا اورجس کی 250 میٹر اونچی لہروں نےڈیم کے اوپر سے گذر کر 2000 انسانوں کو زندگی سے محروم کر دیا تھا ۔

تازہ ترین
تازہ ترین