• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بعض اوقات ہم اہم چیزوں کونظر انداز کرتے رہتے ہیں لیکن ان کے اثرات نہ صرف ہمارے رہن سہن، ہمارے علاقے، شہر، ملک بلکہ دنیا پر پڑتے ہیں۔مثلاً ہم پانی کو اپنی ضرورت سمجھتے ہوئے استعمال سے بڑھ کر ضائع کرتے ہیں۔ پہلے تو ہم ڈیم نہ بنا کر اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کو نہ صرف ضائع کر رہے ہیں بلکہ سیلاب کی شکل میں اپنے اوپر مصیبت بھی مسلط کر رہے ہیں۔ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ کرتے ہیں، قیمتی مویشوں کے ساتھ ساتھ قیمتی انسانی جانیں بھی اس کا شکار بنتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں ملک پاکستان ایک ڈھلوان کی شکل میں عطا کیاہے۔ یعنی ملک کے اپر پہاڑی سلسلوں والے حصے سے پانی بہتا ہوا سندھ تک جاتا ہے۔ بارشیں اور برف باری ہمارے لئے پانی کا بڑا ذریعہ ہیں لیکن اپنی کم عقلی، ناسمجھی اور چھوٹے چھوٹے سیاسی مفادات کی وجہ سے اس کو ضائع کرنے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ باشعور ممالک اس خزانے کو محفوظ کرنے کیلئے بڑے بڑے منصوبے بنا رہے ہیں۔کیونکہ ان ملکوں کا خیال ہے اور یہ خیال حقیقت پر مبنی ہے کہ پانی زندگی ہے۔ پانی کو بچا کر زندگی بچائی جاسکتی ہے اور پانی کو روک کردوسرے ممالک میں بم مارے بغیر تباہی پھیلائی جاسکتی ہے۔
ہماری معیشت میں بڑا حصہ زراعت کا ہے لیکن پانی کے حوالے سے ہماری بے خبری یا نااہلی ہمیں خوراک کی کمی کا شکار بنا سکتی ہے اور دنیا میں اس حوالے سے کی گئی ریسرچ اور رپورٹس میں پاکستان کویہ خطرہ لاحق ہے۔
پاکستان کی 62 فیصد آبادی ان دیہی علاقوں میں رہتی ہے جن کا گزربسر اورآمدنی کا ذریعہ زراعت ہے۔ ہمارے ملک میں 23.80 ملین ہیکٹرز ایریا ایسا ہے جس پر ہم اپنی فصلیں اگاتے ہیں جس میں سے 19.49 ملین ہیکٹرز اریگیشن کے نظام سے منسلک ہے جبکہ 3.51 ملیناور چھوٹے چھوٹے سیاسی مفادات کی وجہ سے اس کو ضائع کرنے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ باشعور ممالک اس خزانے کو محفوظ کرنے کیلئے بڑے بڑے منصوبے بنا رہے ہیں۔کیونکہ ان ملکوں کا خیال ہے اور یہ خیال حقیقت پر مبنی ہے کہ پانی زندگی ہے۔ پانی کو بچا کر زندگی بچائی جاسکتی ہے اور پانی کو روک کردوسرے ممالک میں بم مارے بغیر تباہی پھیلائی جاسکتی ہے۔ہماری معیشت میں بڑا حصہ زراعت کا ہے لیکن پانی کے حوالے سے ہماری بے خبری یا نااہلی ہمیں خوراک کی کمی کا شکار بنا سکتی ہے اور دنیا میں اس حوالے سے کی گئی ریسرچ اور رپورٹس میں پاکستان کویہ خطرہ لاحق ہے۔پاکستان کی 62 فیصد آبادی ان دیہی علاقوں میں رہتی ہے جن کا گزربسر اورآمدنی کا ذریعہ زراعت ہے۔ ہمارے ملک میں 23.80 ملین ہیکٹرز ایریا ایسا ہے جس پر ہم اپنی فصلیں اگاتے ہیں جس میں سے 19.49 ملین ہیکٹرز اریگیشن کے نظام سے منسلک ہے جبکہ 3.51 ملین ہیکٹرز کا دارومدار بارشوں پر ہے۔ہمارا 45 نہروں کا 60 ہزار 800 کلومیٹر تک پھیلا ہوا نظام ایک لاکھ چالیس ہزار کسانوں کو پانی تک رسائی دیتا ہے۔زمین کی تہہ سے نکالا جانے والا پانی جس کی آئے روز سطح گرتی جا رہی ہے دس ملین ہیکٹرز ایریا کو دستیاب ہے۔ 1951ء میں پاکستان کو 5260کیوبک میٹرز فی کس پانی دستیاب تھا جو 2010ء میں کم ہو کر 1066کیوبک میٹرز رہ گیا ہے اور 2015ء تک یہ 858کیوبک میٹرز رہ جائے گا۔ورلڈ بنک رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان کو ہنگامی طور پر پانی کا ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم بنانے چاہئیں۔پاکستان کواپنے اریگیشن کے پرانے نظام کوتبدیل یا بہتر کرنے کیلئے 70 بلین امریکن ڈالرز کی ضرورت ہے اور اسی حوالے سے ہر سال ایک ارب امریکن ڈالرز کی ضرورت ہے۔باشعورقوم کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے تحفظ کے لئے بطور پاکستانی شہری کچھ ذمہ داریاں نبھانی ہیں۔ جس میں پانی کے حوالے سے ہماری ذمہ داری نہایت اہم ہے ایک تو ہمیں پانی کو ضائع کرنے میں احتیاط برتنا ہو گی ہم نے یہ نہیں دیکھنا کہ مجھے تو پانی مل رہا ہے اسلئے اگر زیادہ بھی استعمال کرلیا تو کیا فرق پڑتا ہے، اس سوچ کو بدلنا ہوگا جبکہ پانی جیسے خزانے کو بچانے کیلئے پائپوں کے ذریعے آنے والے پانی کی لیکیج کے ان اداروں پر دباؤ ڈالنا ہوگا جو ان پائپوں کو تبدیل کرنے کے ذمہ دار ہیں گھروں، دفاتر، اداروں اور مساجد میں نہ صرف پانی کوکم استعمال کرنا ہے بلکہ ان لیک ہونے والے نلکوں کو بھی فوری طور پر تبدیل کرنا ہے جن سے پانی ضائع ہو رہاہے۔اورسب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ ہمیں اپنے سیاست دانوں کا آلہ کار بننے کی بجائے ملک میں پانی کے ذخائر تعمیرکرنے کادباؤ ڈالنا ہے اورایسے سیاست دانوں یا سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینے سے اجتناب کرنا ہے جو ڈیمز اورپانی کے ذخائر تعمیر کرنے کے خلاف اور ملک کو بنجر بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
تازہ ترین