• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نام میں کیا رکھا ہے؟ والدین نے جب نام دیا تونام میں سب کچھ رکھ دیا ۔لفظ ’’الطاف‘‘ کے مطالب اور تشریح کو وسعت دیں، آغوش میں لطافت،نرمی، ملائمت، عمدگی، پاکیزگی، فکری بالیدگی ، باریک بینی ،فکر و نظر میں ہوش و جوش ،سب کچھ موجود پائیں گے،یہ سارے عناصر ہوں توبنتا ہے الطاف حسن قریشی۔ 1973ء کا بھلا وہ لمحہ کیسے بھول سکتا ہوں ۔ راولپنڈی کے سلور گرل ریستوران میں داخل ہوا تو ایک کونے میں جناب الطاف حسن قریشی کو چند دوسرے لوگوں کے ساتھ کھانا تناول کرتے پایا ۔ میری زندگی کا پہلا آمنا سامنا ،آج بھی شیشے میں عکس کی طرح ذہن میںمحفوظ۔ ہائی اسکول کے زمانے سے اردو ڈائجسٹ کارسیا ،آخری چند دنوں کا انتظارکڑا رہتا۔سائیکل پکڑنا ، نیازی نیوز ایجنسی پہنچنا ۔سخت مایوسی رہتی کہ’’ ڈائجسٹ آج نہیں آیا،کل پتہ کریں ‘‘۔ڈائجسٹ کیا تھا ،الطاف حسن قریشی ۔برادرم مجیب الرحمٰن شامی نے خوب فیصلہ دیا ،’’اردوڈائجسٹ نہیںالطاف ڈائجسٹ کہا جائے‘‘۔

اردو صحافت خوش نصیب ، ایک سے ایک بڑا بَزرج مہر اپنا حصہ ڈال گیا۔ابو الکلام آزاد اور مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی،مولانا جوہر علی، مولانا شوکت علی ،مولانا ظفر علی خان ،شورش کاشمیری ،،الطاف حسن قریشی ، مجیب الرحمٰن شامی کم و بیش درجن بھر، بیسویں صدی کی نظریاتی صحافت کی ایک کہکشاں۔بیسویں صدی کے دس بڑے صحافتی نابغوں کی لڑی پیروؤں تو محترم الطاف حسن قریشی نمایاں جڑے نظر آئیں گے۔

الطاف صاحب کی سیلف میڈ زندگی کا رسمی آغازگو روایتی تھا۔صحافت سے دور پرے کا تعلق نہ تھا۔کیا کِیا جائے ؟ قدرت نے تراش خراش بناوٹ سجاوٹ اسی پیشے کے لیے ترتیب دے رکھی تھی۔لگتا ہے قدرت نے بذریعہ دھکم پیل بالآخر صحافت کا جزولاینفک بنا دیا ۔ادھر صحافت میں قدم رکھا، پلک جھپکتے اعلیٰ و ارفع مقام پایا۔ آغاز زندگی پر نظر ڈالیں تو قوی امکان اتنا، معمولی ٹیکنیکل نوکری یا تعلیم و تدریس تک محدود رہتے۔رب ذوالجلال کی اسکیم اپنی کہ رب العزت نے تو الطاف صاحب کو پیدا ہی خاص مقصد کے لیے کیا،ساری عزتیں وہیں رکھ دیں، آج تک سمیٹ رہے ہیں۔اپنے تئیں اردو ڈائجسٹ کا آئیڈیا بھی نزول سمجھتا ہوں۔پاکستان میں اس نوعیت کا ماہانہ جریدہ متعارف ہونا، ایجاد ہی کہلائے گا۔ساری زندگی مد و جزر بلکہ بیچ بھنور میں ۔ جس وطن سے ٹوٹ کر محبت کی ہمیشہ تکلیف میں پایا، بے بسی سے دیکھا۔

پاکستان بنتے دیکھا۔پاکستان ٹوٹتے دیکھا۔ مارشلائی و جمہوری دور، ڈکٹیٹر بُھگتے۔اعصاب شکن بحرانوں کا تسلسل پوری زندگی نازل رہا۔وطن عزیز میںمذہبی، سیاسی ،طبقاتی،لسانی،منافرتی افراط و تفریط ،باہمی کشمکش کی انتہا دیکھی۔نامساعد حالات میںحق سچ بولنے ،آواز اُٹھانے پر مشق ستم بنے ۔عظیم قائد کے تین لفظی نسخہ کیمیا ’’اتحاد ، تنظیم اور یقین مُحکم‘‘ کو عام کرنے میںساری زندگی وقف رکھی۔ 65ء کی جنگ کے بعد ،مشرقی پاکستان میں آنے والے واقعات کا کما حقہ ادراک رکھا۔ 1966ء میں’’محبت کا زم زم بہہ رہا ہے‘‘مضامین کا سلسلہ مہینوں جاری رکھا۔جان چکے تھے کہ پاکستان کو توڑنے میں دشمن متحرک ہے۔ مثبت سوچ اور امید کوبڑھایا،آہ وبکا بھی کی کہ شاید آشفتہ سوزی مملکت کو ٹوٹنے سے بچا لے۔ مگر یہ ہو نہ سکا۔ اقتدار کے حریص، مفاد پرست الطاف صاحب کی جدو جہد اور تمناؤں پر ہر دور میں حاوی رہے ۔

اوائل جوانی سے نظم و نثر سے شغف رکھنے والا جب میدان صحافت میں اترا صحافت کو ادبی قوسِ قزح کے رنگوں سے بھر دیا ۔اسلوب تحریر انوکھااور تیکھا۔ ابتدائی تحریروں سے ہی پختگی مترشح۔ زبان و بیان میں ایسا جوڑ کہ ادبی زبان بھی مطمئن اورپر زور بیان بھی۔ صحافت نگاری اور ادبی انشا پردازی کو مخلوط اور مربوط کر کے نیا مجتہدانہ اسلوب متعارف کروایا۔ اختلا ط اور ارتباط ایسا کہ شروع دن سے نثر الف سے ی تک شاعری میں ڈھلتی رہی۔مجال کہ ملاپ نے نفس مضمون کہیں متاثر ہونے دیا ۔شاعری میں نثر لکھی یا نثر میں شاعری، مطالب وسیع ،فصیح و بلیغ رہے ۔

زندگی پر ناقدانہ نظر ڈالنے کی جسارت بھی، 60کی دہائی اور 70 کے پہلے 8 سالوں والے الطاف صاحب مدہم پڑ گئے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ’’بجنگ آمد‘‘ والے کرنل محمد خان کو’’بسلامت روی ‘‘ میں تلاش کرو تو کم کم ملتے ہیں۔لگتا ہے الطاف صاحب وقت سے پہلے نڈھال ہوگئے ، تھک گئے۔

ساری زندگی طاقت کو بذریعہ قلم للکارا ۔قید و بند کو اوڑھنا بچھونا بنایا۔یہ اعزاز بھی کہ بھٹو کی جیل سے نکلے تو ضیاء الحق کی جیل میں، دونوں کی جیل کا مزا چکھا۔

نئی نویلی کتاب ’’الطافِ صحافت‘‘ نے ایسا ارتعاش پیدا کیا دو سال قبل شائع ہونے والی کتاب ،ملاقاتیں کیا کیا !کے تاثر و افادیت کو مزیداُ بھار گئی ۔’’الطاف ِصحافت ‘‘ میںالطاف صاحب بنفس نفیس موجود ہیں ’’ملاقاتیں کیا کیا !‘‘ قابلیت ،استعداد اور علمیت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے۔’’ ملاقاتیں کیا کیا! ‘‘پڑھے بغیر عصر حاضر کی اسلامی اور وطنی تاریخ سیاسیات کی باریکیوں، تاریکیوں کا احاطہ نہیں کر پائیں گے۔دو شخصیات نے اپنے لیے گئے انٹر ویوز عالمی سطح پرمنوا ئے۔ایک الطاف حسن قریشی اور دوسری اوریانا فلاچی، دونوں نے ایک حصہ کو کتابی شکل دی۔ ’’ملاقاتیں کیا کیا!‘‘اوریانا فلاچی کی " INTERVIEW WITH HISTORY" کے ٹکرکی کتاب ہے۔دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ اوریانا کی کتاب ’’تاریخ سے انٹرویو‘‘،الطاف صاحب کی ’’ملاقاتیں کیا کیا!‘‘ کے سامنے کچھ کم ہی۔ یقینََااوریانا فلاچی کے انٹرویوز ورلڈ کلاس مگر الطاف صاحب کے انٹرویو زاپنی مثال آپ ۔اردو ڈائجسٹ میں چھپنے والے انٹرویوز ہماری تاریخ کا ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔پہلی تشنگی اتنی کاش الطاف صاحب امام خمینی کا انٹرویو بھی حصہ بناتے۔جبکہ دوسری فاطمہ جناح سے ادھورا انٹرویو 1966ء میں شائع ہوچکا، اسی کتاب میں سمیٹ دیتے۔

’’ملاقاتیں کیا کیا !‘‘ میرے زمانے کی بیتی کوہر آنے والی نسل سے متعارف کرائے گی ۔ پاکستان کوتاریک راہوںپر ڈالنے میں میری نسل نے ہی تو گھناؤنا کردار اد ا کیا ہے۔شکریہ الطاف صاحب ’’ملاقاتیں کیا کیا!‘‘ آنے والی ہر نسل کو اپنی تاریخ ٹٹولنے، پھرولنے ،جھانکنے میں کافی سے زیادہ مواد فراہم کرتی ہے۔ جزاک اللہ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین