• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے فخر ہے کہ ہر سال کی طرح پاکستان ہندو وکونسل کے زیراہتمام سالانہ اجتماعی شادیوں کے سلسلے کی گیارہویں رنگارنگ تقریب کا انعقاد شہر قائد میں چھ جنوری کو کامیابی سےکیا گیا ہے،میں شکرگزار ہوں اپنی کمیونٹی کا جن کا بھرپور اعتماد ہی میرا اصل سرمایہ ہے، تقریب کے انتظامات کیلئے پاکستان ہندوکونسل کی مینیجنگ کمیٹی کے تمام اراکین، ایڈوائزرز، آبزرورز،یوتھ ٹیم اور سیکریٹریٹ اسٹاف نے دن رات محنت کی،غریب نادار ہندو جوڑوں کی اجتماعی شادیوں کی تقریب کو کامیاب بنانے کیلئے پاکستان بیت المال سمیت مختلف فلاحی اداروں اور مخیر حضرات نے بھی اپنا کردار بخوبی نبھایا، اس حوالے سے میںپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا بھی شکریہ اداکرنا چاہوں گا جنہوں نے بھرپور کوریج سے عالمی برادری کے سامنے پاکستان کا مثبت چہرہ پیش کیا،پاکستان ہندوکونسل کے توسط سے دنیا کویہ واضح پیغام بھی بھیجا گیا ہے کہ محب وطن پاکستانی ہندو کمیونٹی پاکستان کو اپنی دھرتی ماتا سمجھتی ہے اوراس کی ترقی و سربلندی کی خاطر ہرقسم کی قربانیاں دینے کیلئے تیار ہے،ہندو اجتماعی شادی کی تقریب میں شعبہ زندگی کی نمایاں شخصیات کی شرکت نے ثابت کردیا کہ چند فیصدی شدت پسند عناصر کے علاوہ پاکستان بھر کے عوام کی اکثریت برداشت، تحمل اور رواداری پر مبنی ایسا پاکستانی معاشرہ دیکھنے کی خواہاں ہے جسکا خواب قائداعظم اور تحریک پاکستان کے اکابرین نے دیکھاتھا، یہی وجہ ہے کہ اس اجتماعی شادیوں کے مبارک موقع پر پاکستان کی سلامتی و خوشحالی، علاقائی امن و استحکام اور ملک بھرمیں بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے خصوصی دعائیں بھی مانگی گئیں، میری نظر میں ہمارا حب الوطنی پر مبنی عزم پاکستان کی دیگر اکثریتی و اقلیتی برادریوںکیلئے بھی ایک روشن مثال ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سالِ نو کا آغاز خدا کو خوش کرنے سے کرنا چاہئے اور خدا کے نزدیک سب سے بہترین کام کسی کا گھر بسانا ہے، مجھے نہایت روحانی خوشی محسوس ہورہی ہے کہ میں خدا کے فضل و کرم سے گزشتہ دہائی سے ایک نہیں ، دو نہیں بلکہ مجموعی طور پر گیارہ سو گھر آبادکرنے کے قابل ہوا ہوں،ہر سال ہندونوبیاہتا دُلہنوں کو زندگی کا نیا سفر شروع کرنے کیلئے جہیز بھی دیاجاتا ہے جس میں فریج، واشنگ مشین، بیڈ روم سیٹ، ٹی وی، جوسر، کراکری، پنکھا، استری، نقدی رقوم اور دیگر سامان شامل ہوتا ہے،نوجوان دولہوں کومحنت میں عظمت کا درس دیتے ہوئے موٹرسائیکل رکشہ فراہم کئے جاتے ہیں، درحقیقت یہ بائیس سو افراد سے منسلک وہ سینکڑوں خاندان ہیں جو تنگدستی کے باعث اپنے بالغ بچوں اور بچیوں کی شادی کے وسائل نہیں رکھتے ،آج انکے خوشیوں سے بھرپور چمکتے دمکتے چہرے دیکھ کر مجھے یقین ہے کہ خدا اس عظیم نیکی کے طفیل پاک سرزمین پر اپنی رحمتوں کا نزول جاری رکھے گا۔ہر انسان کی شخصیت سازی میںبنیادی کردارسب سے پہلے اس کا اپنا گھرانہ ادا کرتا ہے،شادی ایک ایسا مذہبی و سماجی فریضہ ہے جو دنیا کے ہر مذہب ہر علاقے اور ہر قوم میں اپنے اپنے طور طریقوں کے مطابق ادا کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر مذہب نے گھر بسانے پر بہت تلقین کی ہے کیونکہ اچھے خاندانی ماحول میں تربیت پانے والا باشندہ معاشرے کی بہتری میں فعال کردار ادا کرسکتا ہے۔ہندو مت میںطلاق کا تصور نہیں اور شادی کو زندگی بھر کا بندھن قرار دیا گیاہے ،ہندو شادی کے تین اہم ترین مقاصدمیں دھرم (فریضہ)، پرجا (اولاد) اور رتی (لطف) شامل ہیں جن میں فریضے کی ادائیگی کو اولیت دی گئی ہے ، برہما ویواہ کے مطابق ایک باپ اپنی بیٹی کو اچھے کردار اور پڑھے لکھے لڑکے کو بیاہ دیتا ہے۔ ہندو مذہبی تعلیمات کے تحت کسی بھی فرد کی اولین ذمہ داری گھر بسانا اور بچوں کی بہترین تربیت کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والا اپنی تمام پیشہ ورانہ مصروفیات کے باوجود فیملی کے ساتھ وقت گزارتا ہے، وہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ خاندانی نظام کو مضبوط رکھنے میں ہی سب کی بقاہے۔میں نے گزشتہ برس اپنے کالم میں تذکرہ کیا تھا کہ برصغیر پاک و ہندکی ایک اہم پہچان مضبوط خاندانی نظام رہی ہے، بالغ باشندوں کی شادی کروانا ہمیشہ سے سمجھدار بڑے اپنی ذمہ داری سمجھتے رہے ہیں مگر دورحاضر میں جہاں ہمارا معاشرہ دیگر شعبوں میں گراوٹ کا شکار ہوا وہیں شادی اورخاندانی نظام بھی شدید متاثر ہوا ہے ۔بیشتر نوجوان بچیوں کے والدین جہیز یا شادیوں کے ہوشربا اخراجات کے متحمل نہ ہونے کی وجہ سے رخصتی سے قاصر ہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق شادی کی ایک تقریب پر ایک طرف سے کم از کم پانچ لاکھ روپے خرچہ آتا ہے جو آج کے معاشی حالات میں سفید پوش شہریوں کیلئے نہایت پریشان کن صورتحال ہے، دوسری طرف نوجوان نسل گناہ اور غیر اخلاقی سرگرمیاں میں ملوث ہورہی ہے جسکی روک تھام یقینی بنانا معاشرے کے باشعور طبقات کی ذمہ داری ہے لیکن یہ سب اسی صورت ممکن ہے جب خاندانی نظام کے استحکام اور شادیوں کے رحجان کے فروغ کیلئے مذہبی فریضہ سمجھ کر جدوجہد کی جائے۔ قیام پاکستان سے ہندو کمیونٹی کو درپیش مسائل میں سے ایک اہم ترین مسئلہ شادیوں کے حوالے سے بھی رہا ہے، ایک طویل عرصے تک ہندو شادی ایکٹ نہ ہونے کی بناء ہندوشہری اپنی شادیوں کی قانونی حیثیت سے محروم رکھے جاتے رہے ہیں، اپنی کمیونٹی کی مشکلات کو مدنظررکھتے ہوئے میں نے گیارہ برس قبل پاکستان ہندو کونسل کے پلیٹ فارم سے ہندو شادیوں کو قانو نی تحفظ فراہم کرنے کیلئے ہندو میرج سرٹیفکیٹس کا اجراء اورسالانہ بنیادوں پر اجتماعی شادیوں کی تقاریب کاسلسلہ شروع کرنے کی ٹھانی۔ خدا کے فضل سے ہر سال کی تقریب گزشتہ تقریبات سے بہترین یادگاری ثابت ہوئی، میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ اجتماعی شادی کے خواہشمند جوڑوں کے والدین مجھ پر اعتماد کرتے ہیں کہ میں ان کی بچیوں کو عزت کے ساتھ رخصت کرونگا ،یہ ایک ناقابل بیان کیفیت ہے کہ میں بیک وقت ایک حقیقی باپ کی مانند تمام دُلہنوں کونیک تمناؤں کے ساتھ رخصت کرتا ہوں اورشہنائیوں کی گونج میں اپنے گھر سے بیٹے کی بارات روانگی جیسے پُرمسرت احساس سے محظوظ ہوتا ہوں۔ پاکستان ہندو کونسل کے زیراہتمام رواں برس 79ہندو جوڑوں کوشادی کے مضبوط بندھن میں باندھا گیاہے ، اگر معاشرے کے مخیر طبقات نے اسی طرح تعاون کا سلسلہ جاری رکھا تو میں سمجھتا ہوں کہ عنقریب پاکستان ہندو کونسل اجتماعی شادیوں کادائرہ کار پورے ملک میں وسیع کرنے کے قابل ہوجائے گی۔یہ امر میرے لئے باعث فخر ہے کہ ملک بھر کے ہندو گھرانے مجھ سے رابطے میں رہتے ہیں کہ میں ان کے بچوں کا گھر آباد کرنے کیلئے اجتماعی شادیوں کا انعقاد کراؤں، لوگوں کا غیرمتزلزل اعتماد میرا حوصلہ بڑھاتا ہے کہ میں اپنے آپ کو خدمت انسانیت اور حق و سچائی کی جدوجہد کیلئے وقف کردوں ،میری تمام جوڑوں کیلئے دعا ہے کہ وہ پاکستانی معاشرے کی بہتری کیلئے نیک، صالح اورفعال کردار ادا کریں، میں آپ سب کی دعاؤں کا بھی طلبگار ہوں کہ خدا مجھے اپنے مقصدحیات میں کامیاب کرے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین