آس کے دیپ جلے ہیں پھر سے نینن میں
سال نیا جب اُترا، سب کے آنگن میں
دیکھ رہے ہیں خواب کہ ایسا ہو جائے
رقص کریں بس، خوشیاں اب کے ساون میں
ہم سب مل کر راکھ اسی کو کر ڈالیں
جو چنگاری آگ لگائے گلشن میں
پت جھڑ اب کے آنکھ چُرا کر یوں گزرے
فصلِ گل آ جائے، سب کے جیون میں
فصلیں کھیتوں میں اُگلیں ایسے سونا
غربت بھی چھپ کر رہ جائے چلمن میں
گیت محبّت کے پھر گھر گھر میں گونجیں
اور گوری سنگھار کرے پھر دَرپن میں
ایسی خوشیاں، جن کے کچّے رنگ نہ ہوں
میرے مالک بھر دے سب کے دامن میں