• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ مُلکی معیشت گراوٹ کا شکار، روپیہ اپنی قدر کھو چُکا، سود کے نرخ بلند اور مُلک میں افراطِ زر کی شرح میں اضافے کا رحجان، ایسا کیوں ہوا؟ اور 2019ء میں معاشی امکانات کیا ہیں؟‘‘ یہ سوالات تحریکِ انصاف کے وزیرِ مملکت برائے محصولات، حمّاد اظہر نے روزنامہ’’ جنگ‘‘ میں شایع ہونے والے اپنے مضمون میں اٹھائے اور اُن کے جواب بھی دیے۔ اُن کا یہ کہنا درست ہے کہ’’ گزشتہ دورِ حکومت میں جی ڈی پی کی شرح سے اشیائے صَرف کی شرح زیادہ بلند اور بیرونی سرمایہ کاری، پڑوسی مُمالک سے کم رہی۔ حکومت بچت، سرمایہ کاری اور صنعت کاری کی ترغیب دینے کی بجائے نجی سرمایہ کاری کے مسائل میں اضافہ کرتی رہی۔ نیز، حکومت معاشی نمو دِکھانے کے لیے اُن وسائل کو بھی جھونکتی رہی، جو ہم رکھتے ہی نہیں تھے۔ مثلاً13ارب روپے کے نوٹ چھاپ کر اور عوامی قرضوں کو زَر میں ڈھال کر اپنے مالی امور چلائے گئے۔‘‘ حمّاد اظہر کے اس تجزیے سے معاشی خدّوخال کی سوجھ بوجھ رکھنے والا کوئی بھی شخص اختلاف نہیں کرسکتا، لیکن وزیر موصوف نے آج کی معاشی صُورتِ حال کی خرابی کا سبب نہیں بتایا، صرف ماضی کی پالیسیز کے نتائج پر بات کی۔ اب تحریکِ انصاف بھی سابقہ مسائل حل کیے بغیر اپنی مالیاتی حکمتِ عملی کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہی ہے، کیوں کہ موجودہ جمہوریت اور اس کے چلانے والے کوئی انقلابی راہ اپنانے سے قاصر ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد فلاحی ریاست کا راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔ امریکی سامراج کے تشکیل دیے گئے مالیاتی اداروں کے نسخوں اور قرضوں پر مُلکی معیشت کی کھوکھلی بنیاد رکھی گئی، جس کا خمیازہ آج پاکستانی عوام بھگت رہے ہیں۔ پھر یہ کہ پاکستان کی غیر فطری معیشت شروع دن ہی سے کرپشن کا شکار رہی اور جب کسی نے کرپشن پر مضبوط ہاتھ ڈالا، تو ساری معیشت کساد بازاری کا شکار ہوگئی۔

پاکستان نے سابق سویت یونین اور امریکا کے مابین سرد جنگ کے دَوران جنم لیا۔ وہ قرضوں پر کھڑی مصنوعی معیشت میں کچھ ایسا مشغول ہوا کہ دولت اور طاقت کی تشکیل سرمائے کی بے راہ روی کی شکار ہوگئی۔ قومی سرمائے کی تشکیل کی بجائے قرضوں سے مُلکی امور چلانے پر اکتفا کیا گیا۔ پاکستان نے سرمائے کی بنیاد، سائنس اور ٹیکنالوجی کے اثاثوں پر رکھنے کی بجائے ریڈی میڈ درآمدی سرمائے پر رکھی، جس کے باعث معیشت کی لاگت پیداوار، عالمی مسابقت کے قابل نہ رہی، اس لیے معاشی ملیریا کی سردی کو آئی ایم ایف کے نسخے کے مطابق آگ تاپنے سے دُور کرنے کی جاہلانہ کوشش کی گئی اور یوں غلط علاج سے مزید معاشی بیماریاں لاحق ہوتی رہیں۔ ایک وقت ایسا تھا کہ جب پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے حکمتِ عملی تیار کرسکتا تھا، لیکن سامراجی بیساکھایاں مُلکی اشرافیہ اور حکم رانوں کو راس آنے لگیں۔ 1951ء میں کوریا کی جنگ کے دَوران پاکستان کی ایکسپورٹ کو عروج ملا، لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں نے برآمدی صنعتوں کے فروغ کی کوشش ہی نہیں کی۔اُس دور کی حکومتوں کو چاہیے تھا کہ وہ زرعی اور صنعتی پیداوار سے قومی سرمائے کی تشکیل کرتیں۔ تاہم، یہ کام کاسترو، چواین لائی اور مہاتیر محمّد جیسے لیڈر ہی کرسکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے قائدِ اعظم کے بعد پاکستان کو ایسی لیڈر شپ میّسر نہ آئی، جو مُلکی معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی ابتدا کرتی۔ سادگی اپنا کر درآمدات کم اور برآمدات زیادہ بڑھائی جاتیں، جس طرح کہ بھارت، ملائیشیا، سنگاپور اور تیسری دنیا کے دیگر ترقّی پزیر ممالک نے کیا۔ اس کے برعکس، پاکستان غیر مُلکی امداد ہی پر انحصار کرنے لگا۔ امریکی امداد اور اس کی شرائط نے پاکستان کو قدموں پر کھڑا نہیں ہونے دیا۔ اس بات کا اندازہ اس سے کیجیے کہ امریکا نے1967ء میں خارجہ تعلقات کا قانون تشکیل دیا تھا، جس کی دفعہ201 میں کہا گیا کہ’’ کسی بھی مُلک میں ایسی پیداواری صنعت کی تعمیر یا کارکردگی کے لیے امداد نہیں دی جائے گی، جہاں ایسی صنعت، امریکی صنعت سے مقابلہ کرتی ہو‘‘۔ تاہم، اُس وقت کے پاکستانی حکم رانوں نے اس پر غور نہ کیا کہ امریکا کبھی بھی ایسی امداد نہیں دے گا، جس سے کوئی مُلک اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے۔ پاکستان میں فولاد کی صنعت امریکی حکومتوں نے25سال تک نہیں بننے دی۔ آخرکار1971ء میں سابق سویت یونین نے پاکستان کی اسٹیل ملز کی تعمیر میں مدد کی۔ اس کے بعد، ذوالفقار علی بھٹّو نے تیل اور تیسری دنیا کے خام مال کی بات کی۔ تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی بات کی، تو اُنہیں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ فرانس کے نام وَر فلاسفر، ژاں پال ساترے نے، جنھوں نے الجزائر کی آزادی میں بڑھ چڑھ کرحصّہ لیا، ایک مرتبہ کہا تھا’’ ہم پہلی دنیا کے لوگ انسانی حقوق کی بڑی بات کرتے ہیں، لیکن تیسری دنیا میں کوئی انسان پیدا ہوتا ہے، تو اُسے قتل کروا دیتے ہیں‘‘۔

حمّاد اظہر نئے پاکستان کی بات کرتے ہیں، لیکن اُن کی پارٹی وہ نہیں، جو انقلابی جذبات سے لیس ہو۔ نیز، اُن کے نوجوان کارکنان کو علم نہیں کہ نیا پاکستان کن خطوط پر استوار کیا جا سکتا ہے، اسی لیے وہ یہ بھی نہیں سمجھ سکتے کہ پاکستان میں جدید سامراجی اثر کے تحت اور بیرونی امداد کے ذریعے جو اقتصادی ترقّی ہوئی ہے، اس پر غور کیا جائے، تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارے مُلک کی اقتصادی منصوبہ بندی میں صنعتی ترقّی کو کبھی خاطر خواہ اہمیت نہیں دی گئی۔پھر جو صنعت کاری ہوئی بھی، وہ پیداواری قوّتوں کو آگے بڑھانے کی بجائے الٹا سام راج کی بین الاقوامی معیشت میں ہمیں زیرِ دست رکھتی ہے، جو کشکول توڑنے نہیں دیتی۔ اسی لیے وزیرِ اعظم، عمران خان زرِ مبادلہ کے حصول کے لیے سعودی عرب، یو اے ای اور چین کے دَورے کررہے ہیں اور اس میں عمران خان کا کوئی قصور بھی نہیں۔ آصف علی زرداری جو اَب کشکول کا مذاق اُڑا رہے ہیں، اُن کی معاشی پالیسیز بھی سب کے سامنے ہیں۔ دراصل، مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے وزرائے خزانہ، خاص طور پر شوکت عزیز، اسحاق ڈار( جنھوں نے پیپلزپارٹی کا پہلا بجٹ بھی بنایا تھا) اور وزارتِ خزانہ سے منسلک بیورو کریسی، یہ سبھی عالمی مالیاتی اداروں کے سدھائے ہوئے ہیں۔ ان سب کے مفادات عالمی مالیاتی اداروں سے وابستہ ہیں اور انھوں نے پاکستان کو معاشی طور پر اپاہج بنانے میں پورا پورا کردار ادا کیا ہے۔ حمّاد اظہر کی یہ بات بہت حد تک درست ہے کہ مُلک میں اسراف بہت زیادہ رہا ہے، باالفاظِ دیگر کنزیومر ازم نے مُلک کو ایسا راستہ دِکھایا، جہاں کَرتا دَھرتا افراد نے مُلک کی آمدنی کم کردی اور اخراجات بڑھا دیے ، جس کی وجہ سے غریب کے ہاتھ میں سوائے بے روز گاری کے، کچھ نہیں آیا۔ اس لیے بھی کہ پاکستان کے افرادی قوّت کو ہنرمند نہیں بنایا گیا اور حکم رانوں نے زیادہ سے زیادہ قرضوں کے حصول اور کرپشن کے علاوہ کچھ نہیں کیا، حالاں کہ اُنھیں علم ہے کہ بین الاقوامی مقابلے میں ترقّی کی ضمانت صرف برآمدات کا منافع ہوتا ہے۔ اس منافعے پر قائم معیشت ہی حقیقی معیشت ہوتی ہے۔ پھر اس منافعے کو دوبارہ سرمایہ کاری میں استعمال کرکے ترقّی کا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ یہ راستہ اب بھی اختیار کیا جاسکتا ہے، اگر مُلک کسی طرح قرضوں کے چنگل سے باہر نکل جائے، جس کی ادائی کے لیے 2019ء کے آخر تک 30؍ارب ڈالرز کی ضرورت ہے۔علاوہ ازیں، حکومت کو زرعی انڈسٹری کے ذریعے مُلکی پیداوار بڑھانے پر توجّہ دینی چاہیے۔ یقیناً زراعت، لائیو اسٹاک، فوڈ انڈسٹری اور ویلیو ایڈڈ برآمدات کے ذریعے معیشت کو مضبوط بنیادیں فراہم کی جا سکتی ہیں۔ ماضی کی حکومتوں نے یہ مشکل کام نہیں کیا، جس کی وجہ سے مُلک 100؍ارب ڈالرز کے قرضوں میں پھنسا۔ 40؍ارب ڈالرز کا تجارتی خسارہ ہے، گو کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ اب کچھ کم ہوا ہے، لیکن معاشی حالات دگر گوں ہیں۔ گردشی قرضے ہمیشہ کی طرح زیادہ ہیں، تو تمام بڑے ادارے تباہ ہوگئے ہیں۔

ایک طرف کراچی سے ہنزہ تک رنگ برنگی نئے ماڈل کی گاڑیاں فرّاٹے بَھرتی نظر آتی ہیں، وہیں اُن کے شور میں 70فی صد نہایت غریب افردا کی آواز دَب کر رہ گئی ہے۔ کوئی بڑا ریستوراں خالی نہیں ملتا، لوگ کھانے کے لیے کھڑے رہتے ہیں تاکہ باری آئے، تو کھائیں اور باہر سڑکوں پر مال داروں نے غریبوں کے لیے دستر خوان لگوا رکھے ہیں تاکہ غریب کے پیٹ میں بھی کچھ جاتا رہے اور وہ بغاوت کے قابل نہ رہیں۔ سو، اب کون انقلاب کی بات کرے گا؟

 حمّاد اظہر صاحب! پاکستان اب روایتی اقدامات سے ترقّی نہیں کرسکتا۔ آپ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے’’سود کی شرح کم تھی، تو نئے بزنس اور صنعتی سرگرمیوں کو فروغ ملنا چاہیے تھا‘‘ حالاں کہ آپ کو علم ہوگا کہ گزشتہ دو عشروں میں بیرونی قرضے تو لیے جاتے ہی رہے، لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں تو مُلکی بینکس سے ٹی بلز کے بدلے اس قدر قرضے لیے گئے کہ بینکس کا منافع 2016ء میں 300؍ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔ ان حکومتی قرضوں کی وجہ سے نجی شعبے کو کچھ نہ ملا۔ اُدھر کرپشن نے اس قدر بگاڑ پیدا کردیا ہے کہ کوئی نہیں بتا سکتا، 2019ء میں معاشی اشاریے روشن ہیں یا ماضی کی طرح تاریک ہی رہیں گے؟ حکومتی خزانہ خالی ہے، لیکن سڑکوں، ریستورانوں، بڑے مالز اور ہوائی جہازوں میں رَش ظاہر کرتا ہے کہ متوازی معیشت ترقّی کر رہی ہے۔ امیر بہت زیادہ مال دار ہو رہے ہیں اور غریب کے پائوں کی چادر رومال بن گئی ہے۔ ان حالات میں تو اُمید کی بجائے خدشات ہی جنم لے رہے ہیں۔ درحقیقت، پاکستان کا غیر صنعتی سماج، کنزیومر ازم، دو نمبری اور ٹیکس چوری میں جتنا تیز ہے، اتنی ہی تیزی سے اس کے قومی وسائل غیروں کے پاس گروی رکھے جا رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور گھٹتے ہوئے وسائل کے باعث ایک ایسی کش مکش جنم لے رہی ہے، جو ہر قسم کے کنٹرول سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ سماج میں ایک بگاڑ سے دوسرا بگاڑ جنم لے رہا ہے۔ تعلیمی بے مقصدیت، علمی بے قدری، میرٹ کی تباہی اور وسائل کا زیاں سامنے کی باتیں ہیں۔ 35؍لاکھ افراد انکم ٹیکس چوری کررہے ہیں، تو تجارت اور بجٹ کے خسارے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ پھر مُلک کو بڑھتے ہوئے انتظامی اخراجات اور کم ہوتے ترقّیاتی فنڈز کا سامنا ہے۔ سیاسی موقع پرستی، ووٹ بینک کی سیاست اور احتساب کا تماشا جاری ہے کہ کرپٹ لوگوں کے لیے جیل بھی فور اسٹار ہوٹل بن گئے۔ فرقہ پرستی، نسل پرستی، علاقہ پرستی، مفاد پرست طبقے کی مراعات پر لُوٹ مار بھی تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ کرپشن کے بارے میں عالمی بینک کا یہ انکشاف کس قدر شرم ناک ہے کہ ہر سال دس ارب ڈالرز پاکستان سے باہر چلے جاتے ہیں۔ پھر ایک طرف مارکیٹ اکانومی کی آمریت کا دوسرا نام کنزیومر ازم قرضے، کریڈٹ کارڈ، لیزنگ پر گاڑیاں، استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد، برانڈز کی خریداری کی ہوس ہے، تو دوسری جانب مُردوں کی تدفین بھی انتہائی مہنگی ہوچُکی ہے۔ اگر غریب مرجائے، تو اُسے ایدھی کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اس وقت قرضے پیدا کرنے والی میکانیت توڑنے کی ضرورت ہے۔ غیرمُلکی سرمایہ درآمد کرنے سے قرض بڑھتے ہیں، دُور نہیں ہوتے۔ اس لیے تنہا عمران خان کی دیانت کو سامنے رکھتے ہوئے کسی چَھکّے کے انتظار کی بجائے زرعی اصلاحات پر زور دیا جائے۔ تعیشات کی درآمد پر پابندی ہونی چاہیے اور گاڑیاں اسمبل کرنے کی بجائے اپنے مُلک میں بنائی جائیں۔ لائیو اسٹاک، ڈیری فارمنگ اور چھوٹے کاشت کاروں کے ذریعے زرعی انقلاب لایا جائے۔ ورنہ قرضوں کی معیشت، خدشات اور تباہی ہی لائے گی کہ روشن امکانات تو زرعی اصلاحات ہی میں ہیں۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور ترقّی، خسرو بختیار نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں کہا کہ’’ حکومت پانچ سالہ منصوبہ تشکیل دے رہی ہے، جس کا مقصد 5.8 فی صد شرحِ نمو کا حصول ہے۔علاوہ ازیں، اگلے پانچ برسوں میں زراعت کی گروتھ 3.6 فی صد ہوگی اور صنعتوں کو ترقّی دے کر 6.8 فی صد تک لے جایا جائے گا۔‘‘ بہ ظاہر یہ بڑی خُوب صُورت باتیں ہیں، تاہم لگتا ہے کہ وزیر موصوف رجائیت سے کام لے رہے ہیں، کیوں کہ اس وقت تو مُلکی معاشی حالت ابتری کا شکار ہے اور کوئی شعبہ منافع نہیں دے رہا، سوائے سیمنٹ یا شکر سازی کے۔ ایکسپورٹ، روپے کی قدر میں 30 فی صد کمی کے باوجود دس فی صد بھی نہیں بڑھی، تو پھر کیسے مجوّزہ پانچ سالہ منصوبے کے طے کردہ اہداف حاصل کیے جا سکیں گے؟نیز، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ غربت میں تخفیف کی جائے گی اور روزگار میں اضافہ کیا جائے گا، مگر ابھی تک اس جانب کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔ یاد رہے، سابقہ حکومت نے بھی پانچ سالہ منصوبے کے جو خدّ وخال پیش کیے تھے، زمینی حقائق اس کے برعکس ہی رہے۔ جب پوچھا گیا کہ موجودہ حکومت اس پانچ سالہ منصوبے کو کس طرح پورا کرے گی؟ تو خسرو بختیار نے مزید کچھ بتانے سے انکار کردیا۔ دراصل، یہ اہداف حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ معیشت کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں۔ غربت اپنی انتہا کو پہنچ چُکی ہے اور دوسری طرف ٹیکس چوری، اسمگلنگ وغیرہ عام ہے، تو ان برائیوں کا تدارک کیے بغیر حکومت اپنے اہداف حاصل کرنے میں کام یاب نہیں ہو سکتی۔اس سلسلے میں صرف صوبہ سندھ ہدف کے مطابق ریونیو اکٹھا کر پایا ہے، لیکن اسے ابھی تک این ایف سی ایوارڈ کے 28 ارب روپے نہیں دیے گئے اور نئے ایوارڈ پر بھی بات چیت نہیں ہوئی۔

تازہ ترین