• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سڈنی، آسٹریلیا کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے اور اندازے کے مطابق اس کی آبادی تقریباََ50لاکھ ہے۔ یہ ریاست نیو ساؤتھ ویلز کا دارالحکومت ہے اور ملک کے جنوب مشرقی ساحلوں پر واقع ہے۔

سڈنی آسٹریلیا میں پہلی یورپی نو آبادی تھی، جسے 1788ء میں پہلے برطانوی بیڑے کے سربراہ آرتھر فلپ نے قائم کیا۔ سڈنی آسٹریلیا کا اقتصادی مرکز اور سیاحت کے حوالے سےمشہورہے۔ یہاں کا سڈنی اوپرا ہاؤس اور سڈنی ہاربر برج دنیا بھرمیں جانے جاتے ہیں۔سڈنی 2000ء میں اولمپک کھیلوں کی میزبانی بھی کرچکا ہے، جو اب تک سب سے یادگار کھیل سمجھے جاتے ہیں۔

ون سینٹرل پارک

کونسل آف ٹال بلڈنگ (CTBUH) کی طرف سے سڈنی کی ’ون سینٹرل پارک‘ نامی عمارت کو بہترین بلند عمارت بھی قرار دیا جاچکا ہے۔2013ء میں تعمیر ہونے والی یہ ون سینٹرل پارک نامی عمارت 116میٹر یعنی 380فٹ بلند ہے، جس کی بیرونی سطح پر مختلف پودے اور سبز گھاس اگائی گئی ہے۔ پودوں اورخوبصورت پھولوں کی وجہ سے اسے عمودی باغ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔اس عمارت میں رہائشی اپارٹمنٹس کے ساتھ ساتھ شاپنگ پلازے بھی موجود ہیں، جہاںسیاح کئی مشہور عالمی برانڈز کی خریداری کر سکتے ہیں۔ یہ عمارت توانائی کے لحاظ سے بھی ماحول دوست ہے۔ اس میں سورج کی روشنی کے ذریعے گھروں کو گرم رکھا جاتا ہے۔

سڈنی ہاربر برج پل

سڈنی ہاربر برج پل کو بنے ہوئے تقریباً 80سال ہو گئے ہیں لیکن اس کی استقامت اور حسن میں کمی نہیں آئی۔ سڈنی میں واقع یہ پُل ’’دی کورٹ ہینگر‘‘ (The Coart Hanger) بھی کہلاتا ہے۔ یہ 8سال کے عرصے میں 12ملین ڈالر کی لاگت سے تیار ہوا، جس کی لمبائی 3770فٹ ہے۔ سیاحوں کی بڑی تعداد پُل دیکھنے کے لیے سڈنی آتی ہے کیونکہ یہاں سے شہر کا نہایت دلفریب منظر نظر آنے کے ساتھ ساتھ بندرگاہ، ساحل اور سڈنی اوپرا ہائوس کے دل کش نظارے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ نئے سال کے خصوصی موقع پر یہاں ہونے والی آتش بازی دل موہ لیتی ہے۔ یہ پُل اُن پلوں میں سے ایک ہے، جس کی دنیا میں سب سے زیادہ تصویریں بنائی جاتی ہیں۔

فیلی بیچ کےلئے’’سرکلر کی“ ہاربر سے ہر آدھے گھنٹے بعد بوٹ چلتی ہے۔ راستے میں فورٹ ڈینی سن ہے اور وہ پہاڑیاں بھی نظر آتی ہیں، جن پر کھڑے ہو کر1780ء میں کیپٹن کک نے ایک نئی کالونی کا خواب دیکھا تھا۔ فیلی بیچ پر بیٹھ کر ڈی ایچ لارنس نے اپنی مشہور کتاب ’’لیڈی شیڈے لوور‘‘ لکھی تھی جس پرمقدمہ چلا، جو لارنس جیت گیا اور اس کے ناول کو شاہکار قرار دےدیا گیا۔

سڈنی اوپرا ہاؤس

اوپرا ہاؤس کو آسٹریلوی باشندے دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہتے ہیں۔ سمندر کے سینے میں اس قدر بڑی عمارت بنانا آسان کام نہ تھا۔ ہر سال اسے لاکھوں لوگ دیکھنےآتے ہیں۔ سمندر کے سینے پر ڈولتی ہوئی یہ عمارت فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ اس کو بنانے میں اربوں ڈالر اور بیس سال کا عرصہ لگا۔ 1950ءمیں اس کی تعمیر کا منصوبہ بنا جبکہ1957ء میں ڈنمارک کے آرکیٹیکٹ Jornutzon کا ماڈل پسند کیا گیا۔ دور سے دیکھنے پر یہ ایک سیپ کے جیساتیرتا نظر آتاہے۔ اندر جا کر اس کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔900کمروں پر مشتمل اس عمارت کے چار مرکزی ہال ہیں۔ کنسرٹ ہال میں2690افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ اوپرا تھیٹر میں 1547نشستیں ہیں۔ اتنے ہی لوگ ڈرامہ ہال میں سما سکتے ہیں، اس کے علاوہ ایک سنیما ہال بھی ہے۔

سڈنی ٹاور

سڈنی ٹاور سڈنی کا سب سے بڑا ٹاور ہے، جسے سڈنی ٹاورآئی، اے ایم پی ٹاور، ویسٹ فیلڈ سینٹر پوائنٹ ٹاور، سینٹر پوائنٹ ٹاور اور صرف سینٹر پوائنٹ بھی کہا جاتاہے۔ یہ ٹاور ، ورلڈ فیڈریشن آف گریٹ ٹاورز کا رکن بھی ہے۔ یہ ٹاور 309میٹر (1014فٹ ) بلند ہے، جو غیر ملکی سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتاہے۔ سڈنی ٹاور کی تعمیر 1975ء میں شروع ہوئی اوراسے اگست 1981ء میں عوام الناس کیلئے کھول دیا گیا۔ اس کی تعمیر پر36ملین آسٹریلوی ڈالرز کی رقم خرچ ہوئی۔ اس ٹاور میں ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ 960 افراد کے جمع ہونے کی گنجائش ہے۔

تازہ ترین