• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جس ملک میں وقفے وقفے سے طویل عرصے تک فوج حکمران رہی ہو اور غیر ممالک نہ صرف داخلی معاملات میں دخیل رہے ہوں بلکہ اپنی مرضی کے فیصلے بھی کرواتے رہے ہیں وہاں ہر وقت فوج کا کھٹکا لگا رہنا اور ہر اہم پیش رفت پر غیر ملکی ایجنڈے کا شبہ ایک قدرتی بات ہوتی ہے۔ انہی تجربات سے قوم کا لاشعور تشکیل پاتا ہے اور لاشعور سے خدشات جنم لیتے رہتے ہیں۔ اس خوشگوار حقیقت کے باوجود کہ فوج سیاست سے دور رہنے کا تہیہ کئے بیٹھی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ہماری فوج دیگر محاذوں پر اس قدر مصروف ہے کہ وہ اقتدار کا کھیل نہیں کھیلے گی، ذرا سی آہٹ سنائی دیتی ہے یا غیر معمولی اقدام ہوتا ہے تو لوگ بھاری بوٹوں کی آواز سننے لگتے ہیں۔ جہاں معاملہ ذرا زیادہ غیر معمولی، خطرناک اور ناقابل فہم ہو وہاں لوگ امریکی ایجنڈے یا امریکی سازش کا شبہ کرنے لگتے ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ امریکہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے ہمارے اندرونی معاملات میں اور سیاسی فیصلوں میں اس قدر دخیل اور ملوث رہا ہے کہ بعض اوقات وزارت عظمیٰ اور وزارتوں کا حصول بھی امریکی خواہش کے تابع رہے ہیں۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ امریکہ پاکستان میں حکومتیں بنانے اور گرانے دونوں میں کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اس پس منظر میں انتخابات سے صرف چند ماہ قبل، جب قوم انتخابات میں جانے کی تیاریاں کر رہی ہے، اچانک ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا سیاسی افق پر ظہور اور طویل المدتی اقدامات کا دھماکہ کچھ اس طرح کا واقعہ ہے جس نے پاکستان کے اقتدار پر قابض دولت مند خاندانوں، روایتی حکمرانوں، جاگیرداروں اور انتخابات کے ٹھیکے داروں کو پریشان کر دیا ہے اور انہیں خدشات میں مبتلا کر دیا ہے۔ میرے نزدیک کچھ دانشوروں کا یہ خدشہ بالکل قابل فہم ہے کہ شیخ الاسلام آخر پانچ برس بعد انتخابات سے صرف چند ماہ قبل کیوں تحریک چلانے آئے ہیں؟ ان کے مطالبات اور انتخابی نظام میں بہتری کے اقدامات ایک طویل المدتی منصوبہ ہے جسے پارلیمنٹ کے ذریعے عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس یہاں صورتحال یہ ہے کہ پارلیمنٹ اپنی مدت مکمل کر کے رخصت ہونے والی ہے اور انتخابات میں اتنا کم عرصہ رہ گیا ہے کہ کسی طویل المدتی منصوبے پر عمل ممکن نہیں۔ یہ اعتراض اپنی جگہ درست ہے کہ اگر شیخ اسلام انتخابی حوالے سے اصلاحات چاہتے تھے تو انہیں اپنی تحریک کا آغاز اس سال کے آغاز سے پہلے کرنا چاہئے تھے۔ اس مضمن میں یہ بات ذہن میں رہے کہ ان کے مطالبات، سیاسی نظریات اور اصلاحاتی ایجنڈے پر کم کم اعتراض کیا گیا ہے۔ میرے مشاہدے کے مطابق ان لوگوں کے سوا جو اپنے مفادات کے حوالے سے پریشان ہیں کوئی بھی نہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب پر ذاتی حملے کر رہا ہے اور نہ ہی ان کے ان مشاہدات سے اختلاف کر رہا ہے کہ دریں حالات ملکی سیاست اور نتیجے کے طور پر ملکی حالات میں بہتری کی توقع خام خیالی ہے کیونکہ ہماری سیاست کردار کی بجائے زر اور دولت کی اسیر ہے، قومی اقتدار پر جاگیرداروں، گدی نشینوں، آزمودہ سیاستدانوں، با اثر گھرانوں اور روایتی کھلاڑیوں کا قبضہ ہے۔ ان حالات میں نیک کردار، پاک دامن، اہل اور اقتدار کی بجائے قوم کا درد رکھنے والے امیدواروں کی کامیابی کے امکانات خال خال ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ مشاہدہ بالکل درست ہے کہ ہماری اسمبلیوں کے اراکین کی اکثریت ان شرائط پر پوری نہیں اترتی جو آئین میں رکھی گئی ہیں۔ گویا ہم نے آئین کو بالائے طاق رکھ دیا ہے اور اس کے باوجود دعویٰ کرتے ہیں کہ موجودہ نظام آئین کی پیداوار ہے اور آئین پر عمل ہو رہا ہے۔ اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہو گی کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران ہمارے بہت سے اراکین اسمبلیوں پر کرپشن یا جھوٹ، شراب نوشی، قانون شکنی اور خواتین سے زیادتی کے الزامات لگے آخر ان کو ٹکٹ انہی سیاسی قائدین نے دیئے تھے۔ پارٹی سربراہان اور ان کے پارلیمانی بورڈ ان امیدواروں کے ماضی اور کردار سے اچھی طرح واقف تھے اس کے باوجود انہیں ٹکٹ دیئے گئے اور آئندہ بھی دیئے جائیں گے کیونکہ ان میں کچھ سیاسی قائدین کے قریب ہیں، کچھ اپنے حلقے میں اثر رکھتے ہیں اور کچھ دولت مند ہیں جو پارٹیوں کو چندے بھی دیتے ہیں اور انتخابات پر بے تحاشا خرچ بھی کر سکتے ہیں۔ اصولی طور پر وفاداریاں بدلنے والے اور وفاداریاں خریدنے والے، ماضی میں فوجی آمروں کا ساتھ دینے والے اور فوجی حکومت کی چھتری تلے دولت بنانے والے سبھی قومی مجرم ہیں۔ لیکن ہماری اصول پسند سیاسی جماعتیں انہیں ٹکٹ دینے کیلئے بے چین بیٹھی ہیں۔ ذرا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کیا جائے تو اس ”سیاسی غدر“، سیاسی طوائف الملوکی اور سیاسی بد اخلاقی کے زیادہ تر ذمہ دار ہماری جماعتوں کے قائدین ہیں جو ٹکٹ دیتے وقت ہر قسم کے اصول، امیدواروں کی کارکردگی و شہرت و کردار اور آئینی تقاضوں کو پامال کرتے ہیں۔ جب تک خوشامد، درباری پن، دولت اور ذاتی تعلقات معیار رہیں گے، تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہے گی۔ جب تک سیاسی جماعتوں کے قائدین خاندانی اور موروثی اقتدار کی خواہش سے آزاد نہیں ہوں گے، سیاست کا تالاب پاک نہیں ہو گا۔
ظاہر ہے کہ سیاست کے پرانی کھلاڑی اقتدار کے خواب دیکھ رہے ہیں اس لئے وہ تبدیلی کے نعرے سے خائف ہیں، چاہے وہ نعرہ تحریک انصاف کا ہو یا وہ دھماکہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کا ہو۔ دونوں نے بڑے بڑے جلسے کر کے اور عوامی جذبات کو اظہار کے مواقع دے کر اقتدار کے خواب دیکھنے والوں کو پریشان کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کے بظاہر گرتے گراف کو دیکھ کر وہ خوشی سے بغلیں بجا رہے تھے، سونامی کا تمسخر اڑا رہے تھے، جوڑ توڑ کر کے اور لالچ دے کر امیدواروں کو مخالف پارٹیوں سے توڑ رہے تھے کہ اتنے میں ڈاکٹر طاہر القادری نے عظیم الشان جلسہ کر کے تبدیلی کا دھماکہ کر دیا جس سے ان کے خوابوں کے سنگھاسن ڈولنے لگے ہیں۔ یہ خوف بے بنیاد بھی نہیں کیونکہ آج تک کوئی سیاسی پارٹی، اقتدار کے اندر یا اقتدار سے باہر اتنا بڑا جلسہ نہیں کر سکی۔ تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی تحریک کے جلسے نظم و ضبط کے حوالے سے رول ماڈل تھے اور وہ اپنا اپنا نقش ثبت کر گئے۔
فرق نمایاں ہے کہ تحریک انصاف ایک سیاسی پارٹی ہے اور انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی تحریک سیاسی انقلاب کی داعی ہے لیکن فی الحال انتخابی سیاست سے گریزاں ہے۔ اسی لئے اس غیر متوقع دھماکے نے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ میں ان شکوک و شبہات کو قابل فہم سمجھتا ہوں کیونکہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ کسی کو شک ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو انتخابات ملتوی کروانے کیلئے اکھاڑے میں اتارا گیا ہے اور کوئی اسے کیئر ٹیکر یا عبوری حکومت کے قیام اور اسے اصلاحات کی آڑ میں طول دینے کی سازش قرار دیتا ہے۔ ذرا سوچئے انتخابات کا التوا کون چاہتا ہے؟ یہ التوا نہ فوج کے مفاد میں ہے اور نہ ہی امریکی خواہش کا شاخسانہ۔ فوج الیکشن کمیشن کو صاف شفاف انتخابات کیلئے مکمل مدد کا وعدہ کر کے قومی اعتماد میں اضافہ کر چکی ہے اور امریکہ جانتا ہے کہ دریں حالات مخلوط حکومت بنے گی۔ چنانچہ معاشی زبوں حالی کا شکار اور سیاسی طور پر کمزور پاکستان بہرحال امریکہ کا دست نگر رہے گا۔ آج تک کی صورتحال کے مطابق، کوئی پارٹی بھی واضح اکثریت حاصل کرتی نظر نہیں آتی۔ انتخابات کے قریب ایک لہر پیدا ہوتی ہے اور ہوا چلتی ہے، وہی لہر سیاسی سمت طے کرے گی۔
ہاں تو میں عرض کر رہا تھا ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے دھماکہ بہت لیٹ کیا ہے۔ وہ خود بھی کہتے ہیں کہ وہ نہ انتخابی سیاست میں حصہ لیں گے، نہ انتخابات کا التوا چاہتے ہیں نہ کسی غیر سیاسی قوت کو اقتدار کی طرف بڑھنے دیں گے۔ بظاہر ان کا منشور تبدیلی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ایسے لوگ اسمبلیوں میں آئیں تو صحیح معنوں میں آئینی شرائط کے معیار پر پورے اترتے ہوں۔ وہ چیف الیکشن کمشنر کی نیک شہرت سے مطمئن ہیں، عدلیہ کی آزادی اور میڈیا کی قوت سے شاداں ہیں اور ان پر مستزاد یہ کہ فوج منصفانہ انتخابات کیلئے مدد کا وعدہ کر چکی ہے۔ میری طالب علمانہ رائے میں ان کے پاس دریں حالات تین چائسز یا آپشنز ہیں جن پر عمل کر کے وہ کسی حد تک اپنے ایجنڈے کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔ اول، عوامی منظم مہم کے ذریعے لوگوں/ووٹروں میں شعور بیدار کرنا کہ وہ ذاتی، مقامی، برادری اور دیگر مفادات سے بالاتر ہو کر باکردار اور اہل امیدوار کو ووٹ دیں۔ دوم سیاسی پارٹیوں پر دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ آئین میں رکھی گئی شرائط کے مطابق پارٹی ٹکٹ دیں، پرانے پارٹی وفادار، کم وسائل والے باکردار امیدواروں کی حوصلہ افزائی کریں۔ داغدار شہرت کے امیدواران منتخب ہو جائیں تو ان کے خلاف الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کیا جائے۔ سوم یہ کہ ڈاکٹر صاحب اپنا اور اپنی تحریک کا اثر و رسوخ اور صلاحیتوں اور توانائیوں کو کسی ایسی سیاسی جماعت کے پلڑے میں ڈال دیں جو ان کے نزدیک سیاسی نظا م میں تبدیلی اور ملک میں بہتری لانے کی اہلیت رکھتی ہو۔ تین نکات پر مشتمل حکمت عملی کے ذریعے ڈاکٹر صاحب انتخابی سیاست پر اثر انداز ہو کر ملک و قوم کی خدمات کا جھنڈا گاڑ سکتے ہیں۔ میری رائے میں انتخابات کا التوا یا جمہوری عمل میں رکاوٹ قومی مفاد میں نہیں۔ رہے الزامات، خدشات اور امکانات
اس طرح کا ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
تازہ ترین