• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ کچھ دنوں سے عالمی میڈیا پرمشرق وسطیٰ کے اہم ملک قطر کے حوالے سے مثبت خبروں کو پڑھنے کے بعد میرا دل چاہا کہ میں اپنے کالم کے موضوع کیلئے قطر کے سفارتی بحران کو منتخب کروں جس نے دو برس قبل پورے خطے کو عدم استحکام کے شدید خطرات سے دوچار کردیا تھا، تازہ اطلاعات کے مطابق آج قطر تمام مشکلات پر قابو پاتے ہوئے ایک مضبوط اور مستحکم ملک کے طور پر ابھرنے میں کامیاب ہوگیا ہے جس کا اعتراف آئی ایم ایف سمیت دیگرعالمی ادارے بھی کررہے ہیں، اس حوالے سے بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی ایس اینڈ پی نے قطر کے لئے اپنی ریٹنگ ’منفی‘ سے بدل کر دوبارہ ’مستحکم‘ کر دی ہے۔ جون 2017ء میں قطرپر دہشت گردی کی سرپرستی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ حکومت کے ساتھ ہر طرح کے تجارتی، سفارتی اور اقتصادی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، فضائی اور بحری راستے سے قطر کی ناکہ بندی کرتے ہوئے قطری شہریوں کو کئی ممالک سے بے دخل کردیاگیاتھا،اس اچانک صورتحال کی وجہ سےمتعدد زیرتعلیم قطری طلبا و طالبات کو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑ ی او ر علاقائی سطح کے کاروباری اداروں کو شدید نوعیت کے چیلنجز درپیش ہوگئے، نامور فضائی کمپنی قطر ایئرلائن کوان عرب ممالک کے فضائی روٹس کی منسوخی اوردیگر ممالک کیلئے طویل روٹ اپنانے کی بناپر خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ عرب ممالک کی جانب سے ناکہ بندی کے فوراََ بعد قطر میں شدید بحرانی صورتحال کا مشاہدہ کیا گیا، مقامی شہری خوف زدہ نظر آتے تھے تو عالمی برادری قطر کے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کا شکار تھی ، قطر کی اقتصادی منڈی گراوٹ کا سامنا کررہی تھی، دنیا بھر کے ٹی وی چینلز نے وہ مناظر دکھائے جن میں قطری شہری حواس باختہ ہوکر خوراک اور اشیائے خوردونوش کی وافر مقدار میں خریداری کیلئے سپر اسٹورز کا رخ کررہے ہیں۔اب صورتحال یہ ہےکہ اقوام متحدہ کی جانب سے قطر کو تلقین کی گئی کہ وہ ہمسایہ عرب ریاستوں کے ساتھ اختلافات دور کرتے ہوئے باہمی روابط میں دوبارہ بہتر ی یقینی بنائے تاکہ خطے میں پائے جانے والے سفارتی بحران کا خاتمہ ممکن ہو سکے، دوسری طرف عرب اتحادی ممالک نے معمول کے تعلقات کی بحالی کے لئے 13 عدد مطالبات پر مشتمل ایک فہرست قطر کے حوالے کر دی جسے قطری حکومت نے قومی خودمختاری پر حملہ سمجھتے ہوئے ماننے سے انکار کردیا۔میں سمجھتا ہوں کہ علاقائی ممالک کی جانب سے قطر کے خلاف یہ انتہائی اقدام اچانک نہیں کیا گیا تھا بلکہ ماضی کی چپقلش اور سرحدی تنازعات کا بھی بڑا ہاتھ تھا، 1867ء میں قطر اور بحرین نے ایک دوسرے کے خلاف خونی جنگ بھی لڑی،برطانیہ سے آزادی کے بعد 1971ء میں قطر نے متحدہ عرب امارات کا حصہ بننے کی بجائے اپنے آپ کو ایک خود مختار ملک کے طور پرمتعارف کروایا، اسی طرح موجودہ مصر ی حکومت ماضی میں قطر کے اخوان المسلمین سے قریبی روابط کی بناءپر شاکی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آج کے قطر کی پچیس لاکھ پر مشتمل کُل آبادی میں لگ بھگ نوے فیصد غیرملکی ہیں۔ میری نظر میں قطر کی قیادت نے عوام کی امنگوں پر پورا اترتے ہوئے قومی وقار پر سمجھوتہ نہ کرنے کا قابل تعریف فیصلہ کیا، اس حوالے سے انہیں دو محاذوں پربیک وقت ایک ساتھ جدوجہد کرنی پڑی۔ایک طرف انہیں اپنے ملک کومسلط کردہ بحرانوں سے محفوظ رکھتے ہوئے عوام کو حوصلہ دینا تھا کہ وہ گھبرائیں نہیں اور خندہ پیشانی کے ساتھ حالات کامردانہ وار مقابلہ کریں تو دوسری طرف دنیاکو بھی یقین دلایا کہ قطر دہشت گردی جیسے عالمی عفریت کے خاتمے کی جنگ میں عالمی برادری کے ساتھ ہے اوراس حوالے سےاس پر لگائے گئے الزامات میں کوئی صداقت نہیں، یہی وجہ ہے کہ سفارتی بحران کے باوجود قطر کی معیشت نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی،ملکی زرمبادلہ کے ذخائر تین ارب ڈالر سے سترہ ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، اس دوران قطری حکومت نے اپنا انسانی حقوق کا ریکارڈ بہتر کرتے ہوئے عالمی برادری سے بھی قریبی تعلقات استوار کئے۔عالمی تاریخ گواہ ہے کہ وہی قومیں عظیم ہوتی ہیں جو بلا کسی خوف و خطر خدا پر بھروسہ اوراپنی محنت کے بل بوتے پر ترقی کے سفر پر گامزن رہتی ہیں، قطر نے بھی ڈیڑھ دو برس کے مختصر عرصےمیں اپنے ملک کے بگڑتے حالات پر قابو پایا اور آج کا قطر دو سال قبل کے قطر سے زیادہ طاقتور اور مضبوط بن کر سامنے آیا ہے، اس حوالے سے قطر کو ایران، ترکی سمیت عالمی برادری کا قریبی تعاون بھی حاصل رہا، قطری حکومت نے غیر ملکی مصنوعات کی عدم دستیابی پر گھبراہٹ کا شکار ہونے کی بجائے اپنی مقامی صنعت کو مستحکم کرنے کو ترجیح دی،وہ بحری جہاز جو متحدہ عرب امارات کی بندر گاہوں سے ہوتے ہوئے قطر میں سامان امپورٹ ایکسپورٹ کرتے تھے، سفارتی ناکہ بندی کے بعد تین ماہ کے اندر قطر کی بندرگا ہوں پرلنگرانداز ہونا شروع ہو گئے،ایک خبر کے مطابق قطر نے دس ہزار گائے د رآمد کی، جن کی مدد سے مقامی سطح پر جدیدڈیری فارمز بنائے گئے، پھلوں اور سبزیوں کی کاشتکاری کیلئے فارم ہاؤس قائم کئےگئے،شہریوں کو تعلیم اور صحت کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ کی بہتر اور آسان دہ سہولتوں کی فراہمی کیلئے انفراسٹرکچر مزید بہتر کرلیا،دنیا کے سب سے بڑے مائع گیس کے قدرتی وسائل کا بھرپور انداز میں استعمال کیا گیا۔جو علاقائی ممالک سمجھ رہے تھے کہ قطر بائیکاٹ سے گھبر ا کر شرائط مان لے گا، آج وہ بھی قطر کی ترقی سے حیران نظر آتے ہیں۔قطر اور پاکستان کے مابین قریبی تعلقات قائم ہیں، بطور پاکستانی ہمارے لئے قطر کی ترقی اس لحاظ سے سبق آموزہے کہ قطر نے اپنی ثابت قدمی اور استقامت سے ثابت کردیا کہ جن قوموں کو اپنے زور بازو پر یقین ہوتا ہے وہ علاقائی مسائل سے گھبرایا نہیں کرتیں بلکہ مشکل حالات میں مزید نکھر کر سامنے آتی ہیں۔ ہمارا پیارا وطن پاکستان جسے خدا نے معدنی ذخائر اور قدرتی وسائل سے مالامال کیا ہوا ہے، ریکوڈک میں سونے اور تھر میں کوئلے کی وسیع کانیں موجود ہیں، وہاں کبھی بجلی و توانائی کے بحران،کبھی معاشی تو کبھی سیاسی بحرانوں کا ستر سالوں سے موجود رہنا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ہم آمرانہ دور کو اپنی قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ گزشتہ ایک دہائی سے ملک میںجمہوری نظام حکومت میں سوائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور بلاجواز بیان بازی کرنے کے عوام کی کونسی خدمت کی گئی ہے؟آج ایک دنیا قطر کی کامیابی کا اعتراف کررہی ہے تو ہمیں بھی سوچنا چاہئے کہ ہم کب تک اپنے مسائل کا ذمہ دار عالمی قوتوںکو ٹھہراتے رہیں گے؟ ہر مرتبہ بیرونی امدادپر بھروسہ کرنے کی بجائے اگر ہم اپنے وسائل کو بروئے کار لائیں توپاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتاہے،میں پاکستانی عوام کی جانب سے قطریوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اردو زبان کا مشہور شعر ان کی نذر کرنا چاہوں گا، تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب، یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین