• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پولیس کےظلم وستم کی داستان 1960سےشروع ہوتی ہے

 لاہور(صابرشاہ) اگرچہ پاکستانی پولیس کی جانب سےماورائے عدالت قتل اور ناروا سلوک سےمتعلقہ بےشمار کیسز ملک کے معرضِ وجود میں آنےسے ہی میڈیاپر رپورٹ کیے جارہے ہیں، لیکن ’’جنگ گروپ اور جیوٹیلی ویژن نیٹورک کی جانب سے کی جانے والی ریسرچ میں پتہ لگتا ہے کہ اس طرح کا پہلا اہم کیس کالعدم کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری حسن ناصر کا تھا جو 1960 میں لاہور قلعہ میں تفتیش کے دوران مارے گئےتھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ برطانوی راج کے دوران لاہور کاقلعہ بطور حراستی مرکز بھی استعمال ہوتا تھا۔ حیدرآباد دکن میں پیدا ہونے والے حسن ناصر(1928-1960)، کیمبرج یونی ورسٹی سے گریجویٹ تھے اور نواب محسن الملک کے نواسےتھے۔ نواب محسن الملک 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے با نیو ں میں شامل تھے،سرسید احمد خان کے قریبی دوست اور’’تحریک علی گڑھ‘‘ جو19ویں صدی کےغیرتقیسم شدہ ہندوستان کےمسلمانوں کیلئےجدید تعلیم کی جانب ایک قدم تھا،کے اہم رکن تھے، معروف مصنف طارق علی کی 2005 میں آنےوالی کتاب ’’سٹریٹ فائٹنگ ایئرز: این آٹو بائیوگرافی آف دی سکسٹیز‘‘، انتھنی ہیمن، محمدغیوراورناریش کوشک کی کتاب ’’پاکستان، ضیااور بعد میں‘‘، کمیونسٹ رہنما میجر اسحاق محمد کی کتاب ’’حسن ناصر کی شہادت‘‘ اور کالم نویس کامران اسدر علی کا 2014کا مضمون ’’ اے سنچری آف وار،1914-2014: پاکستان اینڈ دی کولڈ وار‘‘ جو ڈان اخبار میں شائع ہوا ، اس میں انکشاف کیاگیاہے کہ 1954میں حسن کو حکومتِ پاکستان نےگرفتارکیاتھا، اسے قید کیاگیا اور تشدد کا نشانہ بنایاگیااور پھر جبری طورپر واپس بھارت بھیج دیاگیا، لیکن 1955 میں وہ دوبارہ پاکستان لوٹ آئےاور پھر مکمل طورپر ایک سیاستدان بن گئے اور کالعدم نیشنل عوامی پارٹی، جسے بعد میں بحال کیاگیا اور اسے عوامی نیشنل پارٹی کا نام دیاگیا، کے سیکریٹری بھی بن گئے۔ انھیں 1960 میں کراچی سے گرفتارکیاگیا، لاہورقلعے میں ایک سیل میں رکھاگیا اور موت تک بدترین تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ مذکورہ بالا حوالہ جات اور ذرائع میں ذکر کیاگیا ہے کہ حسن کے قتل کےبعدان کے مسخ شدہ لاش کوجلدبازی میں لاہور پولیس نے دفن کردیاتھا۔ ان کی موت پر اتناواویلا مچاکہ اس وقت کےپاکستان کے صدر ایوب خان کی حکومت کو ان کی لاش کو قبر سے نکالنا پڑا تاکہ استغاثہ کےموقف کو ثابت کیاجائے کہ انھوں نے خودکشی کی تھی اور انھیں قتل نہیں کیاگیاتھا۔ 4دسمبر1960 کو حسن ناصرکی والدہ علمدار حسین حیدرآباد دکن سےلاہور پہنچی تاکہ ان کے بیٹے کی لاش کو میانی صاحب لاہور کے قبرستان سے قبر سے نکالنےکے علم کو خود دیکھ سکیں۔ قبرکشائی 12دسمبر1960کوکی گئی لیکن لاش پہلے ہی خراب ہوچکی تھی اور قابلِ تشخیص نہیں تھی۔ حسن کی والدہ نے بعد میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک بیان دیاتھا کہ ان کے خیال میں لاش ان کے بیٹے کی نہیں تھی اور انھوں نے اسے وصول کرنے سے انکار کردیاتھا۔ انارکلی پولیس نے بعد میں لاش کو ایک انجان قبر میں دفن کردیاتھا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ نامور وکیل میاں محمد علی قصوری ، سابق پاکستانی وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری کے والد نے بعد میں ایک اور کمیونسٹ رہنما میجر اسحاق کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں ایک حبس بے جا کی اپیل دائر کی تھی تاکہ ناصر کی حالت کا تعین کیاجاسکے۔ 22نومبر1960کو اپیل منظور کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ نے نے مبینہ طورپر ریاست کو حکم دیتے ہوئے فیصلہ دیا کہ زیرحراستِ شخص کو عدالت میں پیش کیاجائے۔ عدالتی حکم کے جواب میں حکومت نے ڈپٹی انسپکٹر جنرل کے ذریعےکرائم انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ (سی آئی ڈی)کاایک حلف نامہ 24نومبر1960کو جمع کرایا، جس میں کہاگیاتھاکہ سیکیورٹی ایکٹ پاکستان کےتحت حسن ناصرکو6اگست کو کراچی سے گرفتار کرکے 13ستمبر1960کولاہورلایاگیاتھا۔ حلف نامہ میں تصدیق کی گئی کہ یہ کام سی آئی ڈی کے حوالے سے کیاگیاتھا تاکہ انٹلیجنس بیورولاہور میں حسن ناصر سےتفتیش کرسکے۔ 29اکتوبر1960کو تفتیش ختم ہوگئی۔ اور سی آئی ڈی کے سپرانٹنڈنٹ پولیس کوکراچی میں ایک پیغام بھیجا گیاتھا کہ قیدی کو واپس منتقل کیاجاسکتاتھا۔ یہ پیغام 5نومبر 1960کودوبارہ دہرایا گیا، اسٹنٹ ڈپٹی انسپکٹرجنرل کولاہو رقلعےسے لائن آفیسر کی جانب سےایک کال موصول ہوئی کہ حسن ناصرکواپنےسیل میں لٹکے ہوئے پایاگیااور انھیں بچانے کی تمام کوشِشیں ناکام رہیں۔ حراست میں موت کا اعتراف اس وقت تک کھلے عام نہیں کیاگیاجب تک مذکورہ بالا پٹیشن دائر نہیں ہوئی۔ 1960کی دہائی میں پولیس تشدد سے ہلاک ہونے والوں کی تو بات ہی الگ ہے، یہ طریقہ کار 1999تک جاری رہا، جب قانون نافذ کرنے والی ایجنسی میں اصلاحات کی بحث کی سُرخیاں پہلی بار اخبارات کی زینت بنیں۔ اور حکومتی انتظامیہ معمول کے مطابق پولیس تحفظ دیتی نظر آئی۔ یہ کام تاحال جاری ہے۔ مثال کے طورپر پنجاب کے موجودہ وزیرِ قانون راجہ بشارت اور وزیراعظم عمران خان کے اتحادی پی ایم ایل(ق) کے ایک رُکن نے ’’بی بی سی نیوز‘‘ کو جولائی 1999میں بتایاتھاکہ جب شہباز شریف کے 1997 سے 1999 کےدورِحکومت کے دوران بھی یہی قلمدان اُن کےپاس تھا:’’میں آپ سے متفق ہوں کہ پولیس ماورائے عدالت قتل کررہی ہے لیکن یہ تعداد اتنی کم ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اور حکومت کی جانب سے اِن کی حوصلہ شکنی کے ساتھ اور جس طرح سے حکومت پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کررہی ہے تو یہ تعداد بھی ختم ہوجائےگی۔‘‘ بی بی سی نیوز نے اپنی 27جولائی 1997کی رپورٹ میں کہاتھاکہ مارچ 1997اور جولائی 1999کے درمیان 850سے زائد مشکوک مجرم صرف صوبہ پنجاب میں پولیس نے قتل کریے۔ معروف برطانوی میڈیا ہائوس نے مزید کہا: ’’ مقامی پریس میں ان اموات کو ’’پولیس انکائو نٹرز‘‘ کےطورپر رپورٹ کیاگیا اور عام طورپر یہ رات دیر گئےویرانوں میں ہوتے ہیں جہاں کسی عینی شاہد کے ہونے کا امکان نہیں ہوتا۔ بہت سے کیسز میں مبینہ مجرم پہلے سے ہی پولیس حراست میں ہوتے ہیں اور پولیس کی جانب سے ان خونی مقابلوں کیلئے دی گئی وجہ اکثرایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ پولیس کہتی ہے کہ ملزمان کو جائے وقوع پر لے جایاجارہاتھا تاکہ غیرقانونی ہتھیاروں کو قبضے میں لیاجائے یا ٹھکانوں کا پتہ لگایاجائے۔ پولیس الزام لگاتی ہے کہ راستے میں زیرِحراست ملزمان کو چھڑانے کیلئے ساتھیوں نے قافلے پر حملہ کیا اور فائرنگ کے نتیجے میں زیرِ حراست تمام افراد مارے گئے۔‘‘ 2015میں بھی کہانی یہ ہی تھی۔ ستمبر2016میں ایک اور برطانوی میڈیا ہائوس ’’دی گارڈین‘‘ نے رپورٹ کیا:’’ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق درحقیقت زیادہ ترافراد پولیس حراست میں مارے جاتےہیں۔ گروپ نے کہا یہ بات تشویشناک ہے کہ،’’ 2015 میں میڈیا کی جانب سے رپورٹ کردہ پولیس انکائونٹرمیں مارے گئے2108افراد میں سےاگر زیادہ ترنہیں، ایسے حالات میں مارے گئے جو جعلی تھے اور ایسی حالت میں نہیں ہوئے تھے جس میں ان کی زندگی کو خطرہ ہو۔‘‘ ہیومن رائٹس واچ کے ایشیاءکے ڈائریکٹربریڈ ایڈمز نے کہاتھا: قانون کا نفاذ ایک ایسی پولیس فورس پر چھوڑدیاگیاہے جو ناراض، کرپٹ اور تھکےہوئے افسران سے بھری ہوئی ہے۔ پاکستانیوں کو انصاف لینے کیلئےرشوت اور تعلقات پر انحصار کرنے کی بجائے پولیس کے پاس وسائل، تربیت، آلات اور حوصلہ ہوناچاہیئےتاکہ وہ پیشہ ورانہ طورپرکام کرسکیں۔‘‘ دسمبر میں بے شمار پاکستانی اخبارا ت نے لکھا تھا:گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال صوبہ پنجاب میں جعلی پولیس مقابلوں یا ماورائے عدالت قتل کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ رواں سال کے پہلے 10 ماہ میں صوبہ بھر میں ہونےوالے 203پولیس انکائونٹرزمیں کم ازکم 226مبینہ مجرمان مارےگئے۔ گزشتہ سال اس دوران پولیس نے 245مسلح مقابلوں میں 292مبینہ مجرمان کو ماراتھا۔ رواں سال پولیس مقابلوں میں کمی کی وجہ مبینہ مجرمان اور دہشتگردوں کے درمیان ڈیٹا کی تقیسم ہے۔ چونکہ زیادہ تر دہشتگرد پنجاب میں محکمہ انسدادِ دہشتگردی کی جانب سے مارے جاتے ہیں تو پولیس کو بڑے مجرمان کی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے فری ہینڈ دیاجاتاہے۔ مقامی اخبارات نے مزید لکھا: ’’2012 میں صوبے میں رپورٹ ہونےوالے کل 397انکائونٹرزمیں پولیس نے 360مبینہ مجرموں کومارا۔ تاہم 2011 میں قانون نافذ کرنےوالے اداروں کےساتھ مقابلوں میں 127مبینہ مجرمان مارے گئے۔ فروری 2018میں ہانگ کانگ سےنکلنے والے ایک انگریزی اخبار ’’ایشیاءٹائمز‘‘ نے کہا: ’’ہیومن رائٹ کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2015میں جعلی مقابلوں میں 2ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔ ایچ آر سی پی نے مزید تصدیق کی کہ 2016اور2017میں 784پولیس مقابلوں میں 1226افراد مارے گئے۔ اور حال ہی میں 20جنوری 2019کو دی ’’نیوز انٹرنیشنل‘‘نے انکشاف کیاتھاکہ ساہیوال میں چار شہریوں کےظالمانہ قتل نے ایک بار پھر ثابت کردیاہےکہ پولیس میں اصلاحات کے دعوئوں کے باوجود پنجاب کی نئی انتظامیہ کے ماتحت پولیس مقابلوں کاکلچرجاری ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ڈیٹا کے مطابق جنوری 2014سے مئی 2018تک 3345افراد پولیس مقابلوں میں مارے گئے۔ ڈیٹا سے مزید ظاہر ہوتاہے کہ 23خواتین اور12بچے بھی مقابلوں میں ماردیئےگئے جبکہ 55پولیس اہلکار بھی مارےگئے۔ ملک کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخبار میں مزید کہاگیاہے: ایچ آرسی پی کے ڈیٹا میں انکشاف کیاگیاہے کہ یکم جنوری 2014سے 11مئی 2018تک پاکستانی میڈیا میں کل 2117کےپولیس مقابلےرپورٹ ہوئے۔ ڈیٹا کےمطابق 6610مرد اور 23خواتین اور12بچے پولیس مقابلوں کاشکاربنےجن میں سے 3345افراد مارے گئے۔ ان مقابلوں میں سے 173ملزمان زخمی ہوئے، 516کوگرفتارکیاگیااور 2602فرارہوگئے۔ اسی طرح ان مقابلوں میں 10راہ گیر مارے گئے اور 53زخمی ہوئے۔ ڈیٹا میں مزیدظاہر کیاگیا کہ ان مقابلوں کاشکار ہونے والے کُل 1914افراد کا مجرمانہ ریکارڈ تھا، ان میں 818افراد ڈکیتیوں، 66اغوا،233قتل، 258چوری، 13سمگلنگ اور 32زیادتی کے کیسز میں ملوث تھے۔ اسی طرح 206افراد پر دہشتگردی کے الزمات تھے اور 27پر بھتہ کوری کے الزامات تھے۔

تازہ ترین