مقصود اعوان، لاہور
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو قائم ہوئے ابھی پانچ ماہ کا قلیل عرصہ ہوا ہے کہ پارلیمانی ایوانوں میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے تبدیلی کے لئے جوڑ توڑ کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ سینٹ بلوچستان کے بعد وفاق اور پنجاب میں بھی حکمران اتحاد کے درمیان اختلافات نمایاں ہونے لگے ہیں اس کی بنیادی وجہ ملک کی خراب اقتصادی صورت حال ہے جس کے باعث حکمران جماعت کا اپنی پالیسیوں کی سمت کا تعین نہیں کر پا رہی اور نہ ہی اپنی اتحادی سیاسی جماعتوں سے طے شدہ پاور شیئرنگ کے فارمولے اور انتخاب میں عوام سے کئے گئے وعدوں پر عمل کر سکی ہے۔ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کے بقول ماضی کے حکمرانوں نے قومی خزانے کو بڑی بے دردی سے لوٹا اور قومی دولت کو ملک سے باہر بھجوایا قومی دولت لوٹنے والوں کا احتساب کر کے قومی سرمایہ واپس ملک میں لائیں گے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہو گی، سوال یہ ہے کہ حکمران جماعت نے انتخابات میں عوام کو ریلیف دینے کے لئے مہنگائی بے روزگاری کے خاتمے انصاف اور ان کے جان مال کے تحفظ کے لئے جو وعدے کئے تھے ان پر کتنا عمل ہوا، صرف تین ماہ میں ڈالر کی اڑان نے حکمران جماعت کے عام کو ریلیف دینے کے وعدوں پر پانی پھیر دیا اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف نیب اور اعلیٰ عدالتوں میں زیرسماعت مقدمات سے ماضی میں صوبوں میں حکمرانی کرنے والے سیاسی خاندانوں کے سرکردہ افراد پر بھی خوف کی تلوار لٹک رہی ہے احتساب سے خوفزدہ کئی بڑے بڑے سیاستدانوں ان کے حامی بیوروکریٹس بلڈرز ڈویلپرز کنڈیکٹرز اور پراپرٹی ٹائیکون پر ہاتھ ڈالنے سے انتظامی امور میں رکاوٹ پیدا ہونے سے کاروبار ٹھپ اور معیشت کا پہیہ جام ہونے لگا ہے۔ وزیراعظم عمران خاں کے احتساب کے معاملہ پر دوٹوک موقف سے ماضی کے بڑے بڑے حکمرانوں کی رات کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔وفاق اور سینٹ میں دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت احتساب سے خوف سے ایک دوسرے کے قریب تر ہونے لگی ہے اس کے اثرات پنجاب پر بھی پڑنے لگے ہیں۔ پنجاب میں بھی مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کے درمیان پارلیمانی ایوان میں اتحاد ہو گیا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے ایوان میں حکمران جماعت پی ٹی آئی اور متحدہ اپوزیشن کے اراکین کی تعداد تقریباً برابر ہو گئی ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت مسلم لیگ (ق) کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ پنجاب میں تبدیلی کا ’’ترپ کا پتہ‘‘ چودھری خاندان کے پاس ہے مسلم لیگ (ق) کے 10 اراکین جس پلڑے میں ہوں گے وہی بھاری ہو گا۔ پنجاب میں اس وقت وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے بعد گورنر پنجاب چودھری محمد سرور سینئر وزیر عبدالعلیم خاں اور اسپیکر چودھری پرویز الٰہی طاقت کا محور ہیں لیکن پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے 10ووٹوں میں طلسماتی طاقت ہے یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خاں اپنے اتحادی چودھری خاندان سے کسی قیمت پر مخالفت مول نہیں لیں گے لیکن چودھری خاندان کو پی ٹی آئی کی قیادت سے یہ شکوہ ضرور ہے کہ وہ اہم قومی فیصلے کرتے وقت ان کی جماعت کو اعتماد میں نہیں لیتے اور چودھری خاندان کے صبر کا پیمانہ اس وقت لبریز ہو گیا جب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے مسلم لیگ (ق) میں فاورڈ بلاک بنانے کا بیان داغ دیا گو وفاقی وزیر نے اپنا بیان واپس لے لیا مگر ان کی کمان سے نکلا ہوا تیر کام کر گیا مسلم لیگ (ق) کے صوبائی وزیر معدنیات حافظ عمار یاسر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر سارا ملبہ ایوان وزیراعلیٰ پر ڈال دیا مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی کے درمیان چند ماہ میں سے جاری سرد جنگ کے شعلے باہر نکلنے پر وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی سے ملاقات کا بھی کوئی خاطرخواہ نتیجہ نہ نکل سکا اور وزیراعظم ہائوس نے مداخلت کر کے معاملہ کو وقتی طور پر ٹھنڈا کر دیا لیکن ابھی یہ آگ سلگ رہی ہے حکمران جماعت نے مسلم لیگ (ق) کے تحفظات کو دور نہ کیا۔ ان اختلافات کے نتیجے میں اسی سال کے اندر پنجاب میں تبدیلی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پی ٹی آئی کے بعض وزراء مسلم لیگ (ق) کی قیادت کے تحفظات کو بلیک میلنگ قرار دے کر اہمیت نہیں دے رہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی بڑے منجھے ہوئے تجربہ کار اور زیرک سیاستدان ہیں ان کا گزشتہ تین دہائیوں میں حکومتیں بنانے اور گرانے میں ہمیشہ کردار رہا ہے اور آج بھی پنجاب اسمبلی پرا سپیکر چودھری پرویز الٰہی اور ان کے رفقاء صوبائی وزراء اور اراکین کا مکمل کنٹرول ہے جو کسی سیاسی تبدیلی کے لئے بہت اہم ہوتا ہے۔ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور چودھری خاندان کے درمیان قریبی رابطے ہیں۔ ’’زرداری‘‘، ’’شریف‘‘ اور چوہدری تینوں بڑے سیاسی خاندانوں کے افراد پر نیب اور ایف آئی اے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ گو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان سیاسی اتحاد قائم ہونا آسان کام نہیں ہے لیکن موجودہ حالات میں متحدہ اپوزیشن کے قیام کے لئے جے یو آئی اور اے این پی قیادت زرداری اور شریف خاندان اختلافات کو دور کرانے کے لئے کوشاں کاوشیں کسی وقت بھی کامیاب ہو سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اتحاد کے بعد اگلے مرحلے میں آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے لئے چودھری برادران کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے رام کرنے میں آسانی ہو گی۔ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان معاملات طے پانے کے بعد پنجاب میں تبدیلی کے لئے پی ٹی آئی پر وار کرنے کی حکمت عملی میں سے چودھری پرویز الٰہی کا نام بطور وزارت اعلیٰ کا امیدوار سامنے آ سکتا ہے۔ اس کے لئے ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور میڈیا پرسن کی ایک ٹیم زرداری اور چودھری خاندان کے درمیان سہولت کاری کر رہے ہیں۔
اتوار کے روز ساہیوال کے سانحہ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے سی ٹی ڈی کے ایک خاندان کے 4افراد کو فائرنگ کر کے ہلاک کرنے کے اس واقعہ نے پوری قوم کو غم میں مبتلا کر دیا ہے، کسی مہذب معاشرے میں قانون کے محافظوں کے ہاتھ سے اس طرح کا فعل محض قابل مذمت ہی نہیں بلکہ ایسی تادیبی کارروائی کا متقاضی ہے کہ آئندہ کسی کو ایسی حرکت کرنے کا حوصلہ نہ ہو۔ وزیراعظم عمران خاں نے رپورٹ طلب کر لی ہے اور متاثرہ خاندان کو انصاف دلانے کا اعلان کیا ہے جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا ہے کہ سانحہ ساہیوال میں ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی اور انصاف ہوتا نظر آئے گا یہ پی ٹی آئی کی حکومت کے لئے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کی کوشش کی تو اس کے بڑے بھیانک نتائج ہوں گے۔ وزیراعظم کے لئے متاثرہ خاندان کی دادرسی کا ایک ہی راستہ ہے کہ انہیں انصاف دلایا جائے۔