جنگ گروپ آف نیوز پیپر کے بانی اور اردو صحافت کے بے تاج بادشاہ، میر خلیل الرحمن (مرحوم) ایک شخص نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہیں۔ گو کہ اردو صحافت کی تاریخ میں کئی بڑے نام سامنے آئےجن کےجاری کردہ اخبارات، رسائل اور جرائد بہت مشہور ہوئے، جن میں مولانا محمدعلی جوہر کے ’’ہمدرد اور کامریڈ‘‘، مولانا ظفر علی خاں کا ’’زمین دار‘‘ اور مولانا ابواکلام آزاد کےا ’’الہلال اور البلاغ‘‘ تاریخ ساز اخبارات تھے۔ لیکن یہ سب ایسے دور کی پیدوار تھے جب صحافت دراصل ایک سیاسی مشن ہوا کرتا تھا۔ ان کا مقصد سیاسی جنگ لڑنا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اپنے اخبار ات و رسائل کو بہ طور ہتھیار استعمال کرتے تھے۔ برصغیر میں دو قومی نظریے کا پہلا نعرہ بھی معروف ادیب عبدالحلیم شرر کے ہفت روزہ اخبار ’’مہذب‘‘ نے لگایا تھا۔ا گرچہ میر صحافت، میر خلیل الرحمن نے ایسے پُرآشوب دور میں صحافت کی دہلیز پر قدم رکھاجب دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں دنیا کے مختلف خطوں میں آزادی کی تحریکیں ابھرنے لگی تھیں۔چناں چہ میر صاحب نے بھی حالات کا اثر کسی حد تک قبول کیا ،لیکن ان کے تخلیقی ذہن اور صلاحیتوں نے انہیں نئی راہیں دکھائی۔ انہوں نے اخبار کا نظام کام یابی سے چلانےمیں جو مہارت حاصل کی وہ تاریخ صحافت کا روشن باب بن گیا۔ انہوں نے سیاست میں خود حصہ لینے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ محمد علی جوہر اور ظفرعلی خان کی طرح خطابت کے سہاروں کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ البتہ عالمی سیاست کے تناظر میں جب برصغیر میں مسلمانوں کی آزادی کی تحریک فیصلہ کن مرحلے کی جانب بڑھ رہی تھی، تو میر صاحب نے اس تحریک کے دوران تن تنہا دہلی سے ’’روزنامہ جنگ‘‘ کا اجراء کیا۔ ان کی ادارت میں ’’جنگ‘‘ بھی کاروان آزادی کے ہر اول دستے میں شامل ہوگیا۔ بعد ازاں قیام پاکستان کے بعد روزنامہ جنگ ایک نئے ملک کی تعمیر اور استحکام کے ملی جذبے سے سرشار ایک تحریک بن کر ابھرا۔ یہ عہد ساز اور تاریخی سفر آسان نہیں تھا۔ غلامی، آزادی، جمہوریت، آزمائش اور مسلسل آزمائش کے مختلف مراحل پر میرصاحب نے جس طرح ’’جنگ‘‘ کے نام اور کام کو آگے بڑھایا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ تحریک پاکستان کی عظیم ترین جدوجہد کی لمحہ بہ لمحہ داستان کے وہ باب جن میں قلم سے جہد مسلسل کا تذکرہ ہے، میر صاحب کے قابل ستائش کردار سے آج بھی مزین ہیں۔ وہ جو کسی نے کہا تھا کہ، میر خلیل الرحمن دنیا میں ’’لیونگ لیجنڈ آف جرنلزم‘‘ ہیں تو اس میں کوئی حاشیہ آرائی نہیں۔ محنت، اخلاق، لگن اور خوب سے خوب تر کی تلاش ان کی زندگی کا مرکزی نقطہ تھا۔ جن لوگوں نے دنیا میں کارہائے نمایاں انجام دیے وہ یا تو صاحبان فکر تھے یا بلند افکار کو عمل کے سانچے میں ڈھالنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ دونوں خوبیاں شاذونادر ہی کسی ایک شخص میں یک جا ہوتی ہیں۔ میر صاحب ایسی شخصیات میںسے ایک تھے۔بے شک سفرز ندگی کا آغاز ایک چھوٹے سے قدم سے ہوتا ہے، لیکن بڑھتے قدم جب دل میں کچھ ٹھان کراٹھتے ہیں توجلد منزل کا سراغ پالیتے ہیں۔پھر ایک جہاں ان کے جلومیںہوتاہے، کوئی صاحب نظر ہی یہ ممتاز مقام حاصل کرسکتا ہے۔ صحافت کے میدان میں یہ بلند رتبہ بھی میر صاحب کو حاصل ہے۔
وہ صحافت کے مسلمہ قائد کی حیثیت سے ایک کے بعد دوسرا پڑائو ڈالتے اور اک جہانِ تازہ آباد کرتے رہے۔ یہ ایسا اعزاز ہے جو صحافت کی تاریخ میں کم لوگوں کے حصے میں آیا اور ایسے لوگ پوری دنیا میں انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں جو کسی بھی زبان میں اخبار نکالیں اور اسے دنیا یا اپنے ملک کا سب سے بڑا اخبار بنا دیں۔ میر صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اردو صحافت کی سب سے بڑی صحافیانہ ایمپائر قائم اور اسے مستحکم کرنے میں کام یاب ہوئے۔یہ ان کاایسا کارنامہ ہےجو اردو صحافت اور جمہوری جدوجہد کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا،جو یقیناً ہمالیہ کی خطرناک وادیوں سے بار بار گزرتے رہنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ وہ صحافت کی بھٹی میں تپنے کے بعد کندن بنے۔اس میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتی کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جنم لینے والا ’’جنگ‘‘جوانی کی دہلیز عبور کرکے صحافت کے عالمی آسمان پر دمک رہاہے۔ میر صاحب کی محنت، ذہانت، پیش بینی کے مجسم اور مرقع مظاہر دنیا کے سامنے ہیں۔ابلاغ میں وسعت پیدا کرنے اور اسے عقل و استقلال کی راہوں پر ڈالنے میں میر صاحب نے تاریخی کردار ادا کیا۔نہ صرف یہ بلکہ عالم گیر سطح پر سیاسی شعور اجاگر کرنے اور فکر کو بے دار کرنے کے لیے بہ تدریج منازل طے کیں۔ انہوں نے صحافت سے اپنی وابستگی کو پورے خلوص سے استوار رکھا اوراس میدان میں انقلاب برپا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی جنگ گروپ آف پبلی کیشنز کی کام یابیوں پر نگاہ ڈالتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص تن تنہا پرنٹ میڈیا کو جدید معیارکے مطابق بنانے کی جدوجہد میں دن رات مصروف رہا۔ میر صاحب نے یہ ممتاز مقام بہت محنت سے حاصل کیا۔
ہر آزاد معاشرے کا اہم جزو معیاری اخبار ہوتا ہے، ایسا اخبار جو حالات سے باخبر رکھے، لوگوں کی رہنمائی کرے اور تفریح و علم بھی فراہم کرے۔چنا ںچہ آج جنگ ایسے چوڑے پاٹ کا دریا ہے، جو ذہنوں کوسیراب کر رہا ہے۔ صحافت جو کسی بھی ریاست کے چوتھے ستون کا درجہ رکھتی ہے، اسے خطے میں جدید سائنٹفک صحافت کا تصور میرصاحب ہی نے دیا۔ وہ بغیر تقاضائے صلہ و تعریف اپنے کارہائے نمایاں کے ذریعے تاریخ صحافت رقم کرتے چلے گئے۔ 1941ء میں انہوں نے دہلی سے روزنامہ’’جنگ‘‘ کا آغاز کیا تو وہ خود ہی اس کے ایڈیٹر، رپورٹر، وقائع نگار، مترجم، پروف ریڈر اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود ہی اس کے نیوز ایجنٹ تھے۔ انہوں نے یک و تنہا ہوتے ہوئے اپنے اندر ایک پورے ادارےکے اوصاف سمولیے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی سے روزنامہ’’ جنگ‘‘ کا آغاز ہوا تو میر صاحب اٹھارہ، اٹھارہ گھنٹے کام کرتے تھے۔ انہوں نے اسے اپنے ہاتھوں سے بنایا، سنوارا اور اپنی ان تھک محنت سے وقت کے تقاضوں کے مطابق مزید نکھارتے اور تاریخ ِصحافت رقم کرتے چلے گئے۔ وہ دن رات فولادی مشین کی طرح متحرک رہتے۔ دفتر میں اگر خوش نویس نہ ہوتا تو وہ خودہی کتابت کرتے، خبریں بھی بناتے، پریس کانفرنس میں نہ صرف شرکت کرتے بلکہ رپورٹنگ بھی کرتے اور تصاویر بھی بنا لیتے۔ وہ کبھی خالی نہیں بیٹھتے۔ انہیں سرگرم اور فعال صحافی سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے اداریے بھی لکھے، مقالاتِ خصوصی بھی قلم بند کیے۔ ان کا ذوقِ صحافت نکھرتا چلا گیا، عظمت فکر کے ساتھ رفعتوں نے انہیں سہارے دیے۔ وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ بھی تھے۔ ان کے قلم کی قندیل آج بھی روشن ہے۔ وہ نہ صر ف پاکستان بلکہ ایشیا میں صحافت کے اہم ستون سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے صحافت کے تمام شعبوں میں اپنی انفرادیت کے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی جدت پسندی نے صحافت میں نئی نئی راہیں تلاش کیں۔ وہ خودساز شخصیت تھے۔ ان کا شمار عامل صحافیوں ،قلم کے مزدوروں اور صحافت کے محنت کشوں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے ایک چراغ سے ہزاروں چراغ جلائے۔ چراغ سے چراغ جلانے کا یہ عمل آج بھی جارہی ہے۔ وہ پاکستان کی تاریخ بناتے رہے۔ ان کی ذکر کے بغیر پاکستان کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی ۔میر صاحب 25 جنوری 1992 ء کو دنیا سے رخصت ہوئے ۔آج ان کی ستائیسویںبرسی ہے ۔ اس موقعے پر ہم نے میر صاحب کے تحریر کردہ چند اداریے منتخب کیے ہیں، جنہیں پڑھ کر ان کی فکر انگیزی اور حالات پر گہری نظر کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔